Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Insaf (2)

Insaf (2)

جب ظلم بڑھتا ہے تو ردعمل میں مزاحمت بھی بڑھتی ہے، اگر مزاحمت نہیں بڑھتی تو اس کا مطلب ہے ظلم شدید ہے اور مزاحمت کمزور ہے یہ ناانصافی کو حوصلہ دیتا ہے اس کمزوری سے انسان کو عہدہ برا ہونا چاہیے کیونکہ ظلم کے مقابلے میں مزاحمت کمزور ہے تو اس کا مطلب مزاحمت کار بزدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

اس ناانصافی کے خلاف اعتدال پسند لوگ بھی شدید مزاحمت پر اتر آتے ہیں۔ علامہ اقبال ایک اعتدال پسند انسان تھے لیکن ظلم کے حوالے سے وہ بھی انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے تھے، فرماتے تھے۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

یہ ہے وہ راستہ جو انسان کو بزدلی کی طرف جانے سے بچاتا ہے۔ ظلم خواہ وہ کسی شکل میں بھی ہو ظلم ہی ہوتا ہے اور اس کے خلاف مزاحمت نہ کرنا بزدلی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیدھا مسئلہ ہے جس پر عمل کرنا ہر مظلوم انسان کا فرض ہے۔ ظلم انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔ انفرادی ظلم کا جواب عموماً انفرادی حیثیت سے دیا جاتا ہے اور اجتماعی ظلم کا جواب اجتماعی حیثیت سے دیا جاتا ہے۔

طبقاتی ظلم ایک بے رحم اجتماعی ظلم ہوتا ہے اور اس کا مقابلہ اجتماعی طریقے سے ہی کیا جاسکتا ہے مثلاً مزدوروں کی ایک ٹریڈ یونین ہے اس پر مالکان کی طرف سے ظلم کیا جاتا ہے ناانصافی کی جاتی ہے تو ٹریڈ یونین اس کا جواب دیتی ہے اور جب مالکان مزدوروں کا جواب قانونی طریقے سے دینے کے بجائے سفاکی سے دیتے ہیں تو جواب میں مزدور بھی مزاحمت پر اتر آتا ہے، یہ ایک فطری پراسس ہے کہ طاقت کا جواب طاقت سے دیا جانا چاہیے، یہ ایک فطری ردعمل ہے۔

اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ مالکان کو قانون کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالکان مزدوروں پر ظلم کرتے ہیں اس کا منصفانہ حل یہ ہے کہ قانون اور انصاف نافذ کرنے والوں کو عملاً غیر جانبدار ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ قانون اور اس کے پاسدار مالکان کی حمایت میں اقدام کرتے ہیں بلکہ بعض وقت اتنا ظلم کرتے ہیں کہ مزدور مزاحمت پر اتر آتا ہے اپنے دفاع میں یہ ایک جائز ردعمل ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں قانون یعنی انتظامیہ مالکان کو تحفظ فراہم کرتی ہے اس لیے عدل کا نام بدنام ہوتا ہے اور اس ناانصافی کے خلاف مزدور شدید مزاحمت پر اتر آتا ہے۔

علامہ اقبال نے ایسی ہی صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو۔ یہ کوئی بغاوت نہیں بلکہ ظلم کا ردعمل ہے جو منصفانہ ہے۔ ہم نے تو ایک چھوٹی سی مثال دی ہے ورنہ مالکان کا ظلم اس قدر بے لگام ہوتا ہے کہ شرافت پناہ مانگتی ہے۔

مزدور اور مالکان میں بڑا فرق یہ ہے کہ مزدور کے خلاف مالک قانون کی طاقت کا استعمال بھی کرتا ہے اور جب وہ قانون کی طاقت کا استعمال کرتا ہے تو مزدورکا خون بہتا ہے اور نہتا مزدور اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ناانصافی کے خلاف ایک قلم کار کا قلم تلوار سے زیادہ کاٹ دار ہوتا ہے۔ جس کو بار بار آزمایا گیا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ قلم کار تقسیم کا شکار ہے اگر قلم کار تقسیم نہ ہوتا تو ایک سیٹھ یا کارخانہ دار کی کیا حیثیت۔ بڑی بڑی جابرانہ طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ قلم کار جسمانی لڑائی نہیں لڑتا لیکن وہ جو ذہنی لڑائی لڑتا ہے وہ اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ اسے بڑے بڑے سلاطین بھی پسپا نہیں کرسکتے۔ اگر یہ طاقت قلم سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں آجائے تو۔۔۔۔؟

ہم نے اپنے کالم کا آغاز ظلم اور مزاحمت کے موضوع سے کیا تھا اور اس دوران اقبال کے کلام کے حوالے بھی دیے تھے۔ کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو۔ یہ ایک ایسے شاعر کا کلام ہے جو انقلابی نہیں امن پسند تھے لیکن جب اقبال کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو کہتا ہے تو اس کا ذہن ظلم برداشت کرنے سے انکار کردیتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طبقاتی نظام کی بنیاد ہی طبقاتی ظلم پر استوار ہے یہ کیسا نظام ہے جو ہزاروں مزدوروں کو ایک مالک اور اس کے چند حمایتیوں کے سامنے سرنگوں کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مالک کے چوکیداروں کے ہاتھوں میں بھی ہتھیار ہوتے ہیں اور ہزاروں مزدور نہتے ہوتے ہیں۔

کیا ہم اسے قانون اور انصاف کہہ سکتے ہیں؟ یا تو مزدوروں کے ہاتھوں میں بھی ہتھیار دو یا چوکیداروں اور پولیس کے ہاتھوں سے بھی ہتھیار لے لو ورنہ اس انیائے کو کسی بھی طرح انصاف نہیں کہہ سکتے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چوکیداروں کی حمایت میں مسلح پولیس ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا انیائے ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اصل میں ہم اس مثال سے معاشرے میں پھیلی ہوئی اس ناانصافی کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے کلچر کا حصہ بن گئی ہے۔