عرصہ دراز کے بعد ایک اچھی خبر ملی ہے، وہ خبر یہ ہے کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ مل کر چلنے کا خواہش مند ہے۔ ایرانی چیف آف اسٹاف نے کہا ہے کہ " ایران اور سعودی عرب سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہے" ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ " ایران کی طاقت کا اصل منبع ایرانی عوام ہیں " اس پانچ کالمی خبرکے اوپر ایک چھوٹے سے باکس میں لکھا ہے " امریکی اثر ورسوخ کا خاتمہ " ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے صدر روحانی کے چیف آف اسٹاف محمود واعظمی نے کہا ہے۔
ایران کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایسے نہیں ہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ انھوں نے امریکا کا نام لیے بغیرکہا کہ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو کوئی دوسرا ملک نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے مشرق وسطیٰ کو درپیش مسائل اور خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ جس کے لیے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا اچھا ہونا ضروری ہے ایران کے سعودی عرب سے تعلقات کا بہتر ہونا خطے کے امن کے لیے بھی ضروری ہے۔ دونوں کو خطے سے امریکا کے اثر ورسوخ کے خاتمے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیے۔ ایران کا یہ بیان خطے میں حالات کے سخت خراب ہونے کے بعد آیا ہے۔
سعودی عرب نے ایران اور امریکا کے درمیانی حالات کی بدترین خرابی پر مکمل خاموشی اختیارکر رکھی ہے۔ ایرانی صدر روحانی نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہی ایران کی طاقت کا اصل منبع ہیں۔ دشمن ملک ایران کی فوجی اور معاشی طاقت سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا عوام کے ثقافتی اور قربانی دینے کے عزم سے ڈرتے ہیں۔
ہم اس خبر کو اس سال کی بہترین خبر کہہ سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا طویل عرصہ محاذ آرائیوں دشمنیوں میں کیوں گزار دیا گیا۔ امریکا عشروں سے اسی پالیسی پر چل رہا ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، ایرانی صدر کے چیف آف اسٹاف یا کوئی ذمے دار حکمران اگر بہت پہلے یعنی عشروں پہلے سعودی عرب سے اچھے برادرانہ تعلقات استوارکر لیتے تو آج مشرق وسطیٰ کی صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔ سعودی عرب اور ایران نے جو بے لچک اور سخت موقف اختیار کر رکھے ہیں، کیا وہ آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسے ہم مسلم دنیا کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ متحد ہوکر اپنے وسائل کو درست سمت میں استعمال کرتے تو بلاشبہ صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔
ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ عرب ملکوں میں اب تک بادشاہتیں اور شیوخ کی حکومتیں ہیں، جو آج کے دور میں ایک مذاق کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عرب ملکوں کے عوام جمہوریت کے نام ہی سے ناآشنا ہیں، پسماندہ ملکوں میں جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، ایک دلچسپ جمہوریت قائم ہے۔ پاکستان میں تو خاندانی جمہوریت بہت مضبوط ہے جو عرب ملکوں کے نظم حکمرانی سے زیادہ مختلف نہیں، ادھر بھارت میں ایسی متنازعہ جمہوریت ہے جو عملاً انتہا پسندوں کی جمہوریت کہلا سکتی ہے۔
اسی سے ملتی جلتی جمہوریتیں تقریباً تمام پسماندہ ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے، کیا ہماری جمہوریتیں عوامی ہیں؟ بلاشبہ بھارت کی جمہوریت کو بڑی حد تک عوامی کہا جاسکتا ہے لیکن اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت کو تو بڑی حد تک عوامی کہا جاسکتا ہے لیکن عوامی جمہوریتوں میں عوام کی زندگی میں جو خوشحالی نظر آتی ہے بھارت میں اس کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے۔
بات چلی تھی ایران اور سعودی عرب میں دوستی کی خواہش کے اظہار سے اور پہنچی جمہوریت اور شاہی نظام تک۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اکیسویں صدی کا آغاز ہے بلکہ اکیسویں صدی کے بیس برس گزر چکے ہیں، انسان چاند پر ہو آیا، اب مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے لیکن حیرت ہے کہ ہمارے عرب بھائی ابھی اونٹ پر سے اترنے کے لیے تیار نہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ فقہوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ عرب ملکوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ آنکھ بند کر کے امریکا کے پیچھے چل رہے ہیں اور امریکا ایک سامراجی ملک جو عربوں کے ملکوں پر سیاسی قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، آج لبنان اور عراق میں کرپشن اور مہنگائی کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں، کیونکہ ان ملکوں کے عوام میں ظلم کا احساس ہے۔ احساس ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کا شعور بھی ہے۔
ایران سعودی عرب تعلقات اگر بہتر ہوتے ہیں تو عوام کے عوام سے رابطے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس رابطے کے مثبت سیاسی اثرات یقینی ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عوام سے عوام کے رابطے مسدود ہیں جسکی ذمے داری بھارت پر آتی ہے۔ بھارت ایک جمہوری اور ترقی پسند ملک ہے لیکن اس بدقسمتی کوکیا کہیے کہ بھارت کا رویہ انتہائی غیر ترقی پسندانہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے عوام سے عوام کے رابطے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن بھارت ویزا پاسپورٹ کے ساتھ بہت محدود رابطے سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اگر تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو عوام سے عوام کے آزادانہ رابطوں کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ دونوں ملک سیاسی حوالے سے ہی نہیں بلکہ سماجی حوالے سے بھی ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔
ایران کی زبان اورکلچر سعودی عرب سے مختلف ہے، ہوسکتا ہے ابتدا میں کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن اگر دونوں ملک ذہنی اور عقائدی تعصب سے نکلنے کی اہمیت سمجھتے ہیں تو اس قسم کی دشواریوں پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا۔ دونوں ملکوں کی سیاست اور سیاسی تعلقات میں البتہ بہت فاصلے ہیں۔ ایران امریکا کو ایک سامراجی اور عوام دشمن ملک سمجھتا ہے اور سعودی عرب امریکا کو مائی باپ سمجھتا ہے۔ یہ ایک ایسا گہرا اختلاف ہے جس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن دونوں ملک پہلے مرحلے سے یعنی ایران سعودی دوستی کے حوصلے گزر جاتے ہیں تو پھر بہت سارے اختلافات کے بتدریج ختم یا کم ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کاش! دونوں ملکوں کے حکمران ایران سعودی دوستی کی اہمیت کو فراخ دلی سے تسلیم کرسکیں۔