دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کسی نرمی کی نہیں بلکہ تمام وسائل بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے جواز پیش کرتے ہوئے اپنے ہی اِداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ایسے لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کو محرومیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سوچ یا رویہ ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے ایسا ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل بنائیں جس سے دہشت گردوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو۔ اِس کے لیے امن پسندوں کا تعاون حاصل کرنے سے بہتر جلد اور دیر پا نتائج ممکن ہیں لیکن جو بھی امن میں رخنہ اندازی کرے اُسے ایسا جواب دیا جائے جس سے دہشت گرداور اُن کے سہولت کار عبرت حاصل کریں۔
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سانحہ سے پورے ملک کی فضا نہ صرف سوگوار ہے بلکہ امن پسند حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ایک لمحے میں چھبیس افراد کی جان لینے کے ساتھ باسٹھ لوگ زخمی کر دیے گئے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مزید نرمی، رحمدلی یا سستی کے متحمل نہیں ہو سکتے اب پوری طاقت سے جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔ جو بھی انسانی خون سے ہاتھ رنگنے میں مصروف ہیں اُنھیں سرعت سے عبرت کا نشان بنانا ہی حب الوطنی ہے۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ نہ صرف دہشت گردی کے اندرونی اسباب و تعاون کے زرائع ختم کرنے پر توجہ دے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اِداروں سے مکمل تعاون کرے۔ ہر سانحے کے پس پردہ بیرونی ہاتھ کہہ دینا ہی کافی نہیں بلکہ دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کینیڈین حکومت کی طرح ایک منظم مُہم کی ضرورت ہے۔ عالمی اِداروں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے وزارتِ خارجہ کو ہمہ گیر مُہم کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ اقوامِ عالم کی مدداور ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔
بلوچستان اور کے پی کے گزشتہ چند برس سے دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں ہیں۔ ماضی میں جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو سخت ترین اقدامات کیے گئے۔ ایک دہائی میں دو فوجی آپریشنوں سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا جس سے نہ صرف ملک میں امن قائم ہوا بلکہ زندہ بچ جانے والوں کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب دوبارہ دہشت گردی کا فتنہ سر اُٹھانے لگا ہے اور خوارج منظم ہونے لگے ہیں۔ مگر اِس کے خاتمہ کی کوششوں میں جس تیزی کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ ذمہ داران سست روی کا شکار نظرآتے ہیں۔
دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت مذمت کرتی ہے۔ بیرونی ہاتھ کی طرف اِشارہ بھی کیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے اعلانات کے بعد خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے لیکن عملی طورپر جس تحرک کی ضرورت ہے وہ کہیں محسوس نہیں ہوتا۔ ایسارویہ حالات کی سنگینی کو کم تر ظاہر کرنے کے مترداف ہے۔ اگر فتنے کا خاتمہ کرنا ہے تو اسباب کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوگا اور پھر ایسی جامع حکمتِ عملی سے کام لینا ہوگا جس سے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ہو بلکہ اسباب و وسائل کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ یقینی ہو۔
2020 سے لیکر آج تک غیر ملکی باشندے خاص طور پر نشانہ ہیں گزرے چار برسوں میں کے دوران دہشت گردانہ کاروائیوں میں بارہ غیر ملکیوں سمیت 62 افراد قتل ہوئے۔ غیر ملکیوں میں اکثریت چینی باشندوں کی ہے۔ اسی طرح اگر گزشتہ ایک برس پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو دہشت گردی کے مجموعی طورپر دو ہزار سے زائد واقعات پیش آئے۔ گزرے دو برسوں کی بات کریں تو صورتحال بہت ہی خوفناک اور تشویشناک نظر آتی ہے کیونکہ جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔ وزارتِ داخلہ نے قومی اسمبلی میں خود اعتراف کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جاہا ہے لیکن یہ اعتراف ہی کافی نہیں بلکہ حالات نتیجہ خیز اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اِس حوالے سے حکومتی حلقوں میں کسی قسم کی بے اطمنانی یاتشویش کے آثار نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب ٹھیک ہو دہشت گردوں کا فعال ہونا حکومتی رَٹ کی کمزوری ہے اگر حکومت کی ترجیح امن ہوتاتواب تک دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے کوئی طریقہ کار بنایا جا چکا ہوتا۔
قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے اطلاعات پر کاوائیاں بھی کیں جن میں کئی دہشت گرد واصل جہنم ہوئے اور بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہو سکے۔ وقفے وقفے سے امن دشمن عناصر اپنی موجودگی اور مضبوطی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پالیسیوں میں کہیں نہ کہیں ایسے سقم ہیں جن سے دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو اپنی مزموم کاروائیوں کے لیے سازگار فضا دستیاب ہے وگرنہ امن کی صورتحال یوں دگرگوں نہ ہوتی۔
ہمیں غلطیوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی سرحد کی طرح شمال اور مغرب میں بھی خرابی ہے حالانکہ افغانوں کی آزادی کے لیے پاکستان نے بے شمار جانی و مالی قربانیاں دیں روس اور امریکہ کے پنجہ استبداد سے نکالنے کے لیے افغان بھائیوں کی وکالت کی لیکن پاک افغان حکومتوں کے درمیان دوستی اور اعتماد کے رشتے کا ہنوز فقدان ہے۔ افغان قیادت خطے کے تمام ممالک سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش میں ہے مگر پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی بجائے خرابی کی طرف جارہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت 650 ملین ڈالر سے متجاز ہے مگر پاکستان کے ساتھ تجارت و تعاون کاسلسلہ منقطع ہوتا رہتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضا ہے جسے بہتر بنانا کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی ترجیحات میں اچھی ہمسائیگی ہے ہی نہیں۔ ٹی ٹی پی سمیت خیبرپختونخواہ میں متحرک خوارج کو افغان سرزمین حاصل ہے۔ بلوچستان میں بھی ریاست کے خلاف برسرِ پیکار تنظیموں سے افغان روابط حقیقت ہیں۔ اگر شمال مغربی ہمسایہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو پاکستان میں امن آنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتر ی ممکن ہے۔
دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیکر غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی زور دار مُہم چلانے کے باوجود ملک میں امن کے آثار ہنوز معدوم ہیں۔ غور و فکرکی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہم سے کہاں ایسی غلطیاں ہوئیں کہ خطے میں دوست کم اور دشمن زیادہ ہورہے ہیں؟ جب ہم نے اِس حوالے سے مکمل غور و فکر کر لیا تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے اور یہ جو محرومیوں کو دہشت گردی کا جواز قرار دیتے ہیں اُنھیں بھی غلط ثابت کرنے کی منزل حاصل ہوجائے گی لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب سیاسی و عسکری قیادت کی سوچ ایک ہو۔
اِس میں شبہ نہیں کہ درپیش چیلنج غیر معمولی ہے مگر نتیجہ خیزی کے لیے بہتر حکمتِ عملی ناگزیرہے۔ اگر وسیع تر مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جائے تودہشت گردی کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہے۔ کوئٹہ سانحے نے ملک کے محب الوطنوں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کیسے متحرک ہوتی ہے پورے ملک کی نظریں اُن پر ہیں۔