ارتکازِ زر کا مطلب دولت کا اجتماع، یہ مختلف قسم کا ہوتا ہے چھوٹے سرمایہ دار بھی دولت کے مالک ہوتے ہیں لیکن آج ہم جس ارتکازِ زر کا ذکرکر رہے ہیں یہ دولت اربوں میں ہے یعنی آج ارب پتیوں کا ذکر ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک یا چند ہاتھوں میں اربوں روپیہ کیسے جمع ہو جاتا ہے؟ جو چھوٹی چھوٹی بچتوں سے ہوتے ہوئے دولت کے سمندر میں چلا جاتا ہے۔
ارتکازِ زر کے کئی ذریعے ہیں چھوٹی بچتوں سے لے کر بڑی بچتوں تک ارتکاز کا ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے اصل میں یہی چھوٹی بچتیں پھیل کر بڑا سرمایہ بن جاتی ہیں اور اس کو رکھنے والا یا اس کا مالک سرمایہ دارکہلاتا ہے اور مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کی ساری دولت پر قبضہ جمایا ہوا ہے چھوٹی بچتوں میں وہ بچتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو عام لوگوں کی بچتیں کہلاتی ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری دنیا کا سرمایہ چند ہاتھوں میں سمٹ آیا ہے۔
اصل مسئلہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا ہے اس کا حال یہ ہے کہ ایک شخص صبح سے شام تک محنت مشکل سے دو چار سو روپے کما لیتا ہے۔ دوسرا ناجائز کام کرنے والا ایک ٹیلی فون گھما کر لاکھوں روپے حاصل کرلیتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں میں فرق کیا ہے وہ شخص جو دن بھر محنت کرکے دو چار سو روپے جمع کرلیتا ہے ہم اسے حلال کی کمائی کہتے ہیں اور وہ شخص جو ایک ٹیلی فون گھما کر لاکھوں روپے بٹور لیتا ہے اس دولت کو حرام کی دولت کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو چار سو کی دولت کو کتنا ہی حلال کہا جائے اس سے دو چار سو روپوں کی چیزیں ہی خریدی جاسکتی ہیں۔
دونوں کی قوت خرید میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حرام خور زندگی کی ہر نعمت سے مستفید ہوتا ہے اور دو چار سو روپے کمانے والا بھوکا مرتا ہے۔ کیا یہ ناانصافی ہے اگر یہ ناانصافی ہے تو اس کو انصاف میں کیسے بدلا جائے یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ہزار دو ہزار کی ناانصافی کو تو انصاف میں بدلا جاسکتا ہے لیکن اربوں روپوں کی ناانصافیوں کو کس طرح انصاف میں بدلا جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس قسم کا سوال کرنے والے اربوں میں ہیں یا انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں؟ اگر یہ لوگ اربوں میں ہیں تو دولت کی اس نامنصفانہ تقسیم کو آسانی سے منصفانہ بنایا جاسکتا ہے اگر اس قسم کی بات کرنے والے لوگ ہاتھ کی انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں تو انصاف کوسوں دور نکل جاتا ہے۔
آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ بدقسمتی سے جو شخص یہ تقسیم کرنے جاتا ہے وہ بھی منقسم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں 22 کروڑ انسان رہتے ہیں اگر یہ چاہیں تو انصاف چل کر ان کی دہلیز پر آسکتا ہے لیکن سرمایہ داروں نے ان غریب لوگوں کو اس طرح بانٹ کر رکھ دیا ہے کہ وہ کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے۔
دنیا میں بہت سارے لوگوں نے ان اربوں عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بے شمار جتن کیے لیکن نامراد ہی رہے کیونکہ دولت کے کھیل میں ہمیشہ دولت مند ہی جیتتا ہے اور غریب کی قسمت میں ہمیشہ ہار ہی لکھی ہوتی ہے۔ یہ کوئی چھوٹا کام نہیں بہت بڑا کام ہے۔ بہت لوگوں نے غریب عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے بڑے جتن کیے لیکن سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہ ہوا، کیونکہ دولت کے انبار ہر جگہ سرمایہ دار کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
اس ماحول میں سوائے مایوسیوں کے کچھ نہیں مل سکتا لیکن امید پر دنیا قائم ہے، جانے کتنے لوگ کہاں کہاں اس قسم کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اب تک ان کی مصروفیات کوئی کام نہ دکھا سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اجتماع کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ارتکازِ زر ایک ایسی بیماری ہے جو صرف امرا کو ہوتی ہے جب تک اس بیماری کی تشخیص نہیں ہوتی اس بیماری سے چھٹکارا آسان نہیں۔ ہمارا سماج طبقاتی ہے اس طبقاتی سماج میں ویسے تو کئی ایک طبقے ہیں لیکن اصل میں صرف دو طبقے ہیں۔ Have اور Have not۔ جب تک یہ تقسیم موجود ہے دولت کی منصفانہ تقسیم ایک خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔ اہل قلم کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام میں وہ احساس جگائیں جو دولت کی تقسیم کے راز کو سمجھ سکے۔