وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں کسی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بنے گا، انھوں نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات بھی کی، وہ وزیر اعظم کی ہدایت پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کی وضاحت کے حوالے سے تین روزہ غیر ملکی دورے پر تھے۔
کشمیر کے حوالے سے بھارت کی جارحانہ پالیسی نے خطے میں جنگ کے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد کو بھارت کی طرف سے رد کرنے کے بعد دنیا کے لیے دو اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں، ایک یہ کہ اقوام متحدہ کیا کمزور ملکوں کو طاقتور ملکوں کے ظلم وجبر سے بچا سکتا ہے؟ کیا کمزور ملکوں کو انصاف مل سکتا ہے؟ اگر ان دو سوالوں کے جواب نفی میں آ رہے ہیں تو نہ صرف اقوام متحدہ کا وجود بے کار ہے بلکہ کمزور ملک کسی بھی طاقتور ملک کی جارحیت کا کھلے عام شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا کے بڑوں کو یہ اندازہ ہوا کہ دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے تو بڑے ملکوں کے بڑوں نے سر جوڑ لیا، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی تخلیق کی گئی چونکہ اقوام متحدہ کی تخلیق بڑے ملکوں یعنی طاقتور ملکوں نے کی تھی لہٰذا یہ ادارہ بڑے ملکوں کا محافظ اور چھوٹے ملکوں کے لیے بے مقصد ادارہ بن گیا، جس کا حاضر ثبوت 70-72 سالوں پرانے دو ملک، کشمیر اور فلسطین ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان دو مسئلوں کشمیر اور فلسطین کو حل کرنے کے لیے کئی قراردادیں پاس کیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
کشمیر اور فلسطین آج تک حل طلب مسائل ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ بڑی طاقتوں اور سیاسی مصلحتوں کے زیر اثر ادارہ ہے دو مظلوموں کے لیے ہرگز کچھ نہیں کرسکتا۔ مسئلہ کشمیر کا جب آغاز ہوا تو ہندوستان نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر فوج کے ذریعے قبضہ کرلیا اور پاکستان چونکہ بھارت کے مقابلے میں ایک کمزور ملک تھا لہٰذا وہ کشمیر کے ایک مختصر حصے کو لے سکا جس کا نام اس نے آزاد کشمیر رکھا۔ دونوں ملکوں میں تنازعات کو روکنے کے لیے بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کچھ اصولوں پر راضی ہوئے جن میں ایک دوسرے کے کشمیر پر قبضے کی نفی کی گئی لیکن بھارت نے 2019 میں سارے اصول سارے معاہدے سارے اخلاقی ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر (غلام) کو یکطرفہ طور پر بھارت میں شامل کر لیا۔ بھارتی فوج کے نئے چیف آف اسٹاف نے فرمایا ہے کہ اگر اوپر سے حکم ملے تو فوج آزاد کشمیر پر قبضہ کرلے گی۔
یہ ہے بھارت کی اصول پسندی اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کا حال۔ بھارت کھلی دھاندلی کر رہا ہے اور بڑی طاقتیں اور اقوام متحدہ اندھے بنے بیٹھے ہیں ایک چھوٹا سا گھر بھی بغیر قاعدے قانون کی پابندی کے نہیں چل سکتا تو پھر دنیا کس طرح قاعدے قانون کی پابندی کے بغیر چل سکتی ہے۔ یہ کیسا ظلم کیسا مذاق ہے کہ پانچ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور عوام کی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے، اقوام متحدہ منہ بند کیے بیٹھی ہے اور دنیا کا ضمیر مردہ ہو گیا ہے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ عوام عشروں سے یہ ظلم سہتے آ رہے ہیں اور اقوام متحدہ منہ بند کیے بیٹھی ہے۔ بڑی طاقتیں اس المناک تماشے کو دیکھ رہی ہیں، لیکن اس حوالے سے کوئی ردعمل کا دور دور تک پتا نہیں۔
اس حوالے سے کسی انصاف کی توقع اس لیے فضول ہے کہ ملک کا سربراہ نریندر مودی خود یہ ظلم کروا رہا ہے۔ اس فاشسٹ حکمران کے آنے سے مقبوضہ کشمیر ایک نرک میں بدل کر رہ گیا ہے، ہر روزکسی نہ کسی بہانے کشمیری عوام کا خون بہایا جا رہا ہے۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ فریق مخالف کمزور ہے اقوام متحدہ کی تشکیل کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ کمزور ملکوں کو طاقتور ملکوں کے ظلم و جبر سے بچایا جائے۔ کشمیری عوام 72سال سے بھارتی مظالم سہتے آرہے ہیں اور اب تک لاکھوں اس فاشزم کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ کیا ایک ایک کشمیری کے قتل ہونے تک اقوام متحدہ آنکھیں بند کیے بیٹھے گا۔
اقوام متحدہ کے اس بددیانتانہ رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے پر دنیا کے بڑے شیطانوں کا قبضہ ہے۔ فلسطین کے عوام بھی اسی ظلم کا شکار ہیں ان کا مسئلہ بھی بے حس اقوام متحدہ میں 70 سال سے لٹکا ہوا ہے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور یہ اشرف المخلوقات حیوانوں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ مغربی میڈیا کو ایک آزاد میڈیا کہا جاتا ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے آزاد میڈیا کا کردار غلام میڈیا سے بدتر ہے۔ کشمیر میں پانچ ماہ سے زیادہ عرصے سے کرفیو لگا ہوا ہے اور کشمیری عوام ایک اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔
کیا مغرب کے آزاد میڈیا نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ مسئلہ اب آواز اٹھانے کا نہیں ہے بلکہ تحریک چلانے کا ہے۔ میڈیا کی ذمے داری صرف اتنی ہے کہ وہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اسے دنیا تک پہنچائے۔ بلاشبہ میڈیا کی بنیادی ذمے داری یہی ہے لیکن مخصوص حالات میں میڈیا کو نیوز کے ساتھ ویوز بھی دینا پڑتا ہے۔ کشمیر میں پانچ ماہ سے زیادہ عرصے سے کرفیو نافذ ہے کیا یہ کشمیریوں پر بدترین ظلم نہیں مغربی میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف صرف خبریں نہ چھاپے بلکہ اس کے خلاف بھی آواز اٹھائے۔ اب مسئلے کی نوعیت بدل گئی ہے اب بھارت کا وزیر اعظم کشمیریوں پر بھی ایسا لگتا ہے کہ ہندوتوا کا نفاذ چاہتا ہے۔ دنیا کا مردہ گھوڑا اقوام متحدہ کے منشور میں مذہبی آزادی کو تحفظ دیا گیا ہے۔
کیا مودی اور اس کے ہندوتوا کی موجودگی میں کشمیر کے عوام کی مذہبی آزادی برقرار رہ سکتی ہے۔ بھارتی کشمیر میں جمعہ کے روز مسجدوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں بہانہ یہ ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمان مسجدوں میں اکٹھے ہوکر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ جب کشمیریوں پر سارے دروازے بند کردیے جائیں گے تو فطری بات ہے کہ وہ اپنی بپتا خدا کے گھر ہی میں کھڑے ہوکر سنائیں گے۔