پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست قصہ پارینہ بن چکی ہے، قیام پاکستان کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک سیاسی میدان میں بائیں بازو کی بالادستی تھی اس کی ایک بڑی وجہ مزدوروں، کسانوں، طلبا، وکلا اور ڈاکٹروں کی تنظیموں سے اس کی وابستگی تھی لیکن جب نیپ دو ٹکڑوں میں بٹ گئی تو بائیں بازو کا شیرازہ بکھر گیا اور پھر بایاں بازو متحد نہیں ہو سکا۔
اس انتشار کی ایک بڑی وجہ روس اور چین کے نظریاتی اختلافات تھے چونکہ ساری بائیں بازو کی سیاست دو حصوں میں بٹ چکی تھی اس لیے بائیں بازو کی طاقت کم ہونا بلکہ ختم ہونا ایک فطری بات تھی۔
اصل میں بایاں بازو ایسی قیادت سے محروم تھا جو اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق گائیڈ کرتی، اس قیادتی کمزوری نے بائیں بازو کو کمزور کردیا۔ دوسری بات یہ تھی کہ عالمی سطح پر بائیں بازو کے دو حصوں میں بٹ جانے کی وجہ سے ایک نظریاتی انتشار کی کیفیت گہری ہوگئی جس کی وجہ سے بائیں بازو سے ہمدردی رکھنے والے بھی بددل ہوگئے اور بائیں بازو کی سیاست میں بہت بڑی کمزوری پیدا ہوگئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ تضادات ختم ہوگئے جو دائیں اور بائیں بازو کے درمیان پیدا ہوگئے تھے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک طبقاتی نظام قائم ہے یہ تضاد کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور طبقاتی نظام اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے۔ اصل مسئلہ دولت کی نامنصفانہ تقسیم کا ہے ایک طرف وہ دو فیصد طبقہ ہے جو دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ دولت پر قابض ہے اور دوسری طرف وہ 98 فیصد ننگے بھوکے عوام ہیں جن کی محنت سے یہ دولت پیدا ہوتی ہے اس تضاد نے دنیا کے عوام کے ذہنوں میں ایک بے چینی پیدا کر رکھی ہے یہ بایاں بازو تھا جو عوام کی اس بے چینی کو طبقاتی تضاد کا نام دے کر 80 فیصد سے زیادہ عوام کو طبقاتی جنگ کا حصہ بناتا تھا۔
بدقسمتی سے بائیں بازو کی قیادت میں ایسے لوگ موجود نہ تھے جو اس تضاد کو شارپ کرکے 80 فیصد غریب عوام کو دو فیصد خواص کے سامنے کھڑا کردیتے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر ملک ہر معاشرے میں ایسے نظریاتی لوگ موجود ہوتے ہیں جو طبقاتی نظام کی ظالمانہ بدقسمتی کو سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ انھیں منظم کرنے، ان میں طبقاتی تضادات کو اجاگر کرنے والا کوئی نہیں۔
ماضی میں بائیں بازو کے کام کرنے کا طریقہ بہت رازدارانہ ہوا کرتا تھا۔ سیل میٹنگ وغیرہ جن میں 10-12 کامریڈ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان اسٹڈی سرکلر میں شرکا کو نظریاتی تعلیم دی جاتی تھی یہ طریقہ کار انقلاب کا ایک حصہ تھا ان اسٹڈی سرکلر میں شرکا کو مارکسز کی تعلیم دی جاتی تھی یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ اس دور میں بلاوجہ کہ اپنی سرگرمیاں مخفی رکھی جاتی تھیں۔ سیل میٹنگوں میں مظاہرے، ہڑتالوں وغیرہ کے پروگرام بنتے تھے اور ان پر کامیابی سے عمل کیا جاتا تھا جو لوگ ان سیل میٹنگوں میں جو فیصلے کیے جاتے تھے ان پر جی جان سے عمل کرتے تھے۔
پھر ہونے یہ لگا کہ سیاسی پارٹیاں کھلے عام جلسوں جلوسوں کے ذریعے عوام سے براہ راست رابطہ کرنے لگے خاص طور پر یوم مئی اور حسن ناصر ڈے بڑے اہتمام سے منائے جاتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح تھا کہ کامریڈوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو حسن ناصر ڈے اور مئی ڈے تک محدود کرلیا تھا اس کے علاوہ غریب بستیوں میں بھی مقامی لوگوں کے ساتھ نشستیں ہوتی تھیں لیکن ہوا یہ کہ کامریڈ سیل میٹنگوں اور اسٹڈی سرکلر کے علاوہ عام جلسوں اور میٹنگوں میں بھی سوشل ازم، مارکسزم کی بات کرنے لگے اور بڑی سیاسی پارٹیاں بھی کھلے بندوں سوشل ازم کا پرچار کرنے لگیں۔
لیکن اب بھی کھلی سیاست کا کلچر عام نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کامریڈ کوئی سیاسی پارٹی بنا کر عوامی سیاست کرنے کی طرف کم ہی آتے تھے اس حوالے سے اصل بات یہ تھی کہ بائیں بازو کے پاس وسائل کی کمی تھی اور عام جلسے جلوسوں میں بھاری رقوم کی ضرورت ہوتی تھی جب کہ کامریڈوں کے پاس وسائل کا فقدان تھا۔
اب اگرچہ ترقی پسند سیاست کھلے بندوں کی جا رہی ہے لیکن اب تک ملک میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ جیسی بڑی پارٹیاں بنائی نہ جاسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ وسائل کے فقدان کی وجہ سے بڑے جلسے وغیرہ نہیں کیے جاسکتے۔ ہو سکتا ہے کامریڈوں کا یہ عذر درست ہو لیکن اب کھلی سیاست جلسوں اور جلوسوں کے بغیر بائیں بازو کی سیاست انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے، آج کل لاہور میں پنجاب کے کسانوں کی تحریک جاری ہے لیکن لگتا ہے کہ کامریڈ کسانوں کی تحریک میں شامل نہیں۔