وزیر اعظم عمران خان نے ایک بارپھر وعدہ کیا ہے کہ وہ اربوں روپوں کی لوٹی ہوئی عوامی دولت کو لٹیروں سے واپس لائیں گے۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لائی جاتی ہے یا نہیں لیکن گاہے گاہے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کی بات کرنا بھی بڑی بات ہے۔ اشرافیہ کو اب عوامی دولت لوٹے ہوئے بھی عرصہ بیت چکا ہے، ان برسوں کے دوران اشرافیہ لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس توکیا کرتی مزید لوٹ مار میں مصروف رہی۔
یہ بات ممکن ہے کہ وزیر اعظم لوٹی ہوئی رقم کی برآمدگی میں مخلص ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گاہے گاہے لوٹی ہوئی رقم کا ذکر کر کے عوام کو یہ تو باور کرا دیا جاتا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ نے غریب عوام کی محنت کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا ہے لیکن معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محض لوٹی ہوئی اربوں کی رقم کی یاد دہانی سے اشرافیہ رقم واپس نہیں دے گی بلکہ اگر اس حوالے سے "کوئی" مخلص ہے تو عملی قدم اٹھائے، زبانی جمع خرچ سے کچھ ہونے والا نہیں۔
اس بات کا احساس حکومت کو بھی ہو گا کہ چالاک اشرافیہ آسانی سے لوٹی ہوئی بھاری رقم واپس نہیں کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ نے انتہائی پھرتی اور چالاکی سے اربوں روپے ملک کے اندر اور باہر محفوظ کر دیے ہیں۔ ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی کرپشن کو ختم کرنے کے لیے مختلف ادارے موجود ہیں، پھر عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنی بڑی رقم کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا یہ اصول ہے کہ وہ لوٹ مار کی رقم کو بچانے کے لیے حصہ داری کرتا ہے۔ یعنی لٹیرے لوٹی ہوئی رقم میں سے ان سب کے منہ بند کر دیتے ہیں جو کسی مرحلے پر ان کے لیے مصیبت بن سکتے ہیں۔
نیب ہمارا وہ ادارہ ہے جو ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائیاں کرتا رہتا ہے ابھی پچھلے دنوں بھی نیب کے سربراہ نے بتایا کہ نیب نے اربوں روپے برآمدکیے ہیں، اگر یہ بات درست ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ جن لوگوں سے لوٹی ہوئی بھاری رقم وصول کی گئی ہے، ان کی میڈیا میں تفصیلی رپورٹ شایع کی جائے تا کہ جو اشرافیہ شرافت کا لبادہ اوڑھ کر یہ جرم کر رہی ہے وہ عوام میں ایکسپوز ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو حکمران اور سیاستدان بھاری لوٹ مارکا ارتکاب کرتے رہے ہیں انھیں ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اور ان لٹیروں کے اربوں روپوں کے اثاثے عوام اور خواص کی نظروں کے سامنے ہیں۔ اس آزادی کے ساتھ کرپشن وہ بھی اربوں کی۔ کرپشن کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پوری چین ہے جو ملک کے اندر اور باہر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے یہ کھیل کھیل رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اربوں روپوں کی برآمدگی میں مخلص بھی ہیں یا نہیں؟
اشرافیہ اتنی بھاری کرپشن یوں کرتی ہے کہ اس کا سیاست اور اقتدار پر قبضہ ہے اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں عشروں سے سیاست اور اقتدار پر کون قابض ہیں؟ اشرافیہ کو یہ احساس نہیں کہ ہمارے ملک کے بائیس کروڑ عوام میں سے 80 فیصد ایسے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کسی کی جیب سے ہزار روپے نکالنا مشکل ہوتا ہے، اس تناظر میں اشرافیہ کی جیب سے اربوں کی لوٹی رقم نکالنا کیا آسانی سے ممکن ہے۔
اشرافیہ اتنی چالاک ہے کہ اس نے مڈل کلاس کے کچھ ضمیر فروشوں کو ہائر کر رکھا ہے جو اشرافیہ کی قدم قدم پر مدد کرتے ہیں، جب سے پی ٹی آئی حکومت برسر اقتدارآئی ہے، اشرافیہ کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے بزرگ سیاستدان اس کھیل میں اس قدر ماہر ہو گئے ہیں کہ وہ اشرافیہ کے بچاؤ کے لیے پوری پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر جلد ہو سکے موجودہ حکومت کو ختم کر دیں۔
مولویوں کا میدان مسجدوں تک محدود ہوتا ہے لیکن ہماری مذہبی قیادت اپنے مفادات کی خاطر سیاست کا حصہ بنی ہوئی ہے اور اشرافیہ کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان سیاستدانوں کی گرفت میں ہے جس سے یہ لوگ اپنی مرضی کے کام کرواتے ہیں۔ میرے سامنے ٹی وی کھلا ہوا ہے اوراپوزیشن کی فلم چل رہی ہے۔