دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی مساوات ہے، دنیا نہ جانے کب سے اقتصادی عدم مساوات کا شکار ہے، ایک طرف دو فیصد وہ اشراف ہیں جو دنیا کی دولت کے اٹھانوے فیصد پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور 98 فیصد وہ غریب ہیں جو نان جویں کے محتاج ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کیوں ان اشرف کو لوٹ مار سے نہیں روک پاتے، یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ یہ اوپن سیکریٹ ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اپنی املاک اور لامحدود دولت کو بچانے کے لیے قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے اور اس حوالے سے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا۔ لامحدود حق ملکیت اسی کی ایک کڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ہر انسان کو لامحدود حق ملکیت تو دے دیا ہے لیکن 98 فیصد لوگوں کو وہ مواقع نہیں دیے جن کے ذریعے دولت بنائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر عوام اپنی اجتماعی طاقت کا استعمال کرکے متوازن معاشرہ قائم کیوں نہیں کر لیتے؟ پچھلے ستر سالوں کے دوران پاکستان میں اشرافیہ نے جو لوٹ مارکی ہے، برصغیر کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے قانون اور انصاف بے بس نظر آتے ہیں، میڈیا میں ایک ایک تفصیل آچکی ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے قانون اور انصاف ہی کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن یہ کیسی عجیب بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں قانون اور انصاف بے بس نظر آتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اپنے حق کے لیے کس کی طرف دیکھیں؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف بھوکے عوام ہیں اور دوسری طرف وہی عوام ہیں جن کو قانون اور انصاف نے مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اپنی لوٹی ہوئی دولت طاقت کے ذریعے واپس نہیں لے سکتے۔
فرانس میں بالکل یہی صورت حال تھی، لوگوں کو ہر طریقے سے مجبور کرکے رکھ دیا گیا تھا، فرانس کے حکمران طبقے نے لوٹ مار کے علاوہ قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا، جب عوام بالکل بے بس ہوگئے اور قانون اور انصاف ان کی کوئی مدد نہ کرسکا تو وہ اپنے گھروں سے چاقو، چھری جو کچھ ہاتھ لگا لے کر باہر نکلے اورسب کو کاٹ کر پھینک دیا، یہ اس وقت ہوتا ہے جب اشراف بے لگام ہو جاتے ہیں اور عوام بے بسی کا شکاررہتے ہیں۔ انقلاب فرانس دنیا کی تاریخ کے انقلابوں میں سے ایک منفرد انقلاب ہے جس کی آواز آج بھی فضاؤں میں رچی بسی ہے۔
کیا دنیا کے بے بس عوام انقلاب فرانس سے سبق حاصل نہیں کرسکتے؟ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں حکمران طبقہ آزادی کے ساتھ لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے یہ کام سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کو انصاف دلائیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاستدان عوام کو انصاف دلانے کے بجائے لوٹ مار میں حصہ دار ہیں، جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے، ہمارے ملک میں لٹیروں کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں، حیرت اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح کرپٹ عناصر کی نشاندہی تو کرتی ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔
نیب نے بڑی مشکلوں سے لٹیروں کی تحویل سے پانچ سات ارب روپے برآمد تو کیے ہیں لیکن ابھی اربوں کی رقمان کے پاس ہی ہے۔ ہماری اشرافیہ نیب کے اس قدر خلاف ہے کہ اس کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا رکھا ہے بلکہ نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیا ہمارے بااختیار لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ نیب ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو بڑی مچھلیوں کے حلق سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے کی سنجیدہ کوشش کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں انقلابی پارٹیاں بھی موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے کان بہرے اور آنکھ اندھے ہیں، بدقسمتی سے عوام کو یہ باورکرا دیا گیا ہے کہ نیب نے ان کی قسمت میں جو لکھا ہے وہ انھیں مل رہا ہے اور بدقسمتی سے ان کی قسمت میں بھوک و افلاس اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں۔ میڈیا لوگوں کی قسمت بناتا ہے لیکن اس کی قسمت بنانے والا کوئی نہیں۔ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے اور ہماری اشرافیہ روز اول سے ہی یہ حد کراس کرچکی ہے۔
اصل مسئلہ جائز اور ناجائز کا ہے ہمارے عوام یا تو ملازمت کرتے ہیں یا پھر چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں جس سے ان کا گزر بسر ہی مشکل سے ہوتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ میں نیچے کے لوگوں کو اوپر اٹھاؤں گا، زمین سے تو یہ لوگ اوپر اٹھ گئے، لیکن زمین پر رہتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح کنگال ہیں۔
مٹھی بھر اشرافیہ ملکی دولت کا بہت بڑا حصہ لوٹ کر اطمینان سے بیٹھی ہے۔ قانون اور انصاف منہ دیکھ رہے ہیں عوام پر بے زبانی طاری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان عوام کا بڑا دکھ رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ وہ عوام کو اوپر اٹھانے میں ناکام رہے ہیں اور عوام مستقل اوپر اٹھتے چلے جا رہے ہیں۔