انتخابات کے موقع پر ووٹ کاسٹ کرنے کا ایک مقررہ طریقہ ہے جس پر قیام پاکستان کے بعد سے تسلسل کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ اس طریقہ کارکے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے سخت اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت نے ان اعتراضات کے پیش نظر ایک نئی جدت پیدا کی وہ ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین۔ حکومت کو یہ یقین ہے کہ الیکٹرانک مشین کے استعمال سے آیندہ الیکشن میں دھاندلی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشین کی کارکردگی کے بارے میں ہر طرح سے تحقیق کرکے مطمئن ہو جاتا، اس کے بجائے ہماری اپوزیشن نے اس پورے پروسیس کو مسترد کردیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موجودہ طریقہ کار کے خلاف ہر طرف سے اعتراضات اٹھ رہے ہوں تو اس کا متبادل تلاش کرنے کے بجائے اس کو یکسر مسترد کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ ملک میں بدقسمتی سے سیاستدانوں کا موقف نامناسب ہوتا ہے، بدقسمتی سے سیاست کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔ انتخابات ہی جدید دور میں جمہوریت کی واحد اساس ہیں، یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ سیاسی اشرافیہ کی بد دیانتیوں کا واضح ثبوت ہے۔
ایماندارانہ طریقہ یہ ہے کہ سابقہ انتخابی نظام کو بہتر کیا جائے۔ مسائل کو الجھانے کے بجائے مسائل میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جذبات اقدامات کے بجائے سنجیدہ تدابیر اختیارکرنا چاہیے، یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ شفاف الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کوئی بھی مخلصانہ کوشش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے تین سال ہو رہے ہیں۔ ہماری اپوزیشن آج بھی حکومت گرانے کی باتیں کرتی ہے اگر حکومت گرانے کی غیر عاقلانہ کوششیں کی جاتی رہیں تو جمہوریت مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔ ہمارا ملک دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ عوام میں شعور کی کمی کی وجہ سے اہل سیاست جو دل چاہے وہ کرتے آ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا حل ہے لیکن ہمارے سیاستدان اس معروضی حل کو نظرانداز کرکے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف عوام کا سیاسی نقصان ہو رہا ہے بلکہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ دنیا کے ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں لیکن ہمارے ملک کی اشرافیہ کیونکہ اپنے طبقاتی مفادات کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ کرنے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا ایسے حالات میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع ناممکن ہے۔
دنیا کے حالات انتہائی نازک ہیں۔ طالبان اور امریکا آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ کئی ممالک کا کہنا ہے کہ انخلا کی تاریخ بڑھانا پڑے گی جب کہ طالبان انخلا کی تاریخ بڑھانے کے لیے تیار نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر تاریخ بڑھانے کی کوشش کی گئی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے، یہ ایک واضح وارننگ ہے جس پر عمل درآمد نہ ہوا تو یقینا طالبان سخت اقدامات کرسکتے ہیں۔
ہماری اشرافیہکو اس صورت حال کا علم نہیں کہ طالبان کا رویہ بہت سخت ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کو اس لیے سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور اس کے اقدامات کا پاکستان براہ راست شکار ہوسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پڑوس میں جنگی صورت حال ہے اور اپوزیشن کی ایک ہی رٹ ہے حکومت کی ہر جائز اور سنجیدہ کوششوں کو ان کے نقصان کا اندازہ کیے بغیر مخالفت کی جا رہی ہے۔
حیرت ہے کہ ملک میں پی ڈی ایم کے علاوہ اور بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو اس صورت حال کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ اقتدار بلاشبہ ہرسیاسی جماعت کو بہت عزیز ہوتا ہے لیکن جمہوری مدبرین نے حصول اقتدار کا ایک طریقہ کار طے کردیا ہے جس پر دنیا کے دیگر ممالک کاربند ہیں۔ اس طریقہ کار کے برخلاف ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں سے کسی کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کی آبادی 22کروڑ ہے۔ حکومت مسلسل عوام کو غربت سے نجات دلانے کی کوشش کر رہی ہے، کیا یہ غلط کام ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سال خاموشی سے انتظار کیا جاتا اور بجائے حکومت کو گرانے کی کوشش کے عوام سے رابطہ کرکے ان کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کی جائیں تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی اجتماعی کوششوں سے زیادہ عوامی فائدے ممکنات میں سے ہیں۔
طالبان امریکا کو سخت وارننگ دے چکے ہیں، دوسری طرف کورونا کی وجہ سے دنیا خوف و ہراس کا شکار ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ دنیا کے عوام سخت خوف زدہ ہیں۔ ان پر مزید سیاسی دباؤ ڈال کر انھیں پریشان کرنا کیا عقل مندی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ڈیڈ لائن میں مزید اضافے کا مطلب قبضے میں توسیع اور دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔