سابق وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ اور سابقہ وفاقی وزیر سید ظفر علی شاہ نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزرا اسد عمر، علی حیدر زیدی، معاون خصوصی ارباب رحیم، گورنر سندھ عمران اسماعیل، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ بھی موجود تھے۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم سے لیاقت جتوئی، جے پرکاش، صداقت علی جتوئی، سید ذوالفقار شاہ، گل محمد رند، سید بلال محمود شاہ، اللہ بخش، راجہ خان جاکھرانی، علی مغیری، اسد شاہ اور امیر بخش نے ملاقاتیں کیں۔
ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن سے مقابلے کے لیے ان شخصیات کا تحریک انصاف میں آنا ضروری ہو، لیکن کیا یہ حضرات ماضی میں کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ انجام دے سکے جس کی بنیاد پر وہ برسر اقتدار جماعت کو فائدہ پہنچا سکتے ہوں۔ ہمارے ملک میں یہ روایت رہی ہے کہ حکمران طبقہ اور اس کے مصاحبین ہمیشہ آزمائے ہوئے رہے۔
تحریک انصاف کے آنے کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ روایت ٹوٹ جائے گی لیکن کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی ایسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جس پر ماضی کے سیاسی رہنما چلتے رہے ہیں اور یہ تسلسل ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں پرانے لوگوں کے علاوہ یا کوئی نئے لوگ ہمارے ملک میں موجود نہیں؟
ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی علاقوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی صنعت سے جڑا ہوا ہے جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ ادیب ہیں، دانشور ہیں، اہل علم ہیں، یہ سب لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، کیا ان حضرات پر سیاست میں شرکت کی پابندی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ان لوگوں میں سے بہترین لوگوں کو آگے کیوں نہیں لایا جاتا؟
غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ پرانے سیاستدانوں کی طاقت اس قدر زیادہ ہے اور ان کے تعلقات ہر شعبہ زندگی میں اتنے گہرے ہیں کہ ان کو نظرانداز کرنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ حکومت کو ماضی کی حکومتوں سے علیحدہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئے ہیں، لیکن یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ عمران خان اپنے دعوؤں کے برخلاف اشرافیہ سے حکومت کے لیے نمایندے لے رہے ہیں۔
ابھی وزیر اعظم سے سابقہ سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کی نئی حکومت ایوب خان کی حکومت کی کاپی بننے جا رہی ہے یہ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس وقت خاموش رہتے ہیں جب انھیں بولنا اور آگے آنا چاہیے ملک کو وجود میں آئے ہوئے چوہتر سال ہو رہے ہیں، کئی نسلیں آئیں اور گزر گئیں لیکن پاکستان کا سیاسی سیٹ اپ ذرہ برابر نہیں تبدیل نہیں ہوا۔ وال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے چھ کروڑ مزدوروں میں دیہی آبادی کے 70 فیصد کسانوں میں سیکڑوں ادیبوں، دانشوروں اور اہل علموں میں کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جو اسمبلیوں کی ضروریات پوری کرسکیں؟ یہ بات نہیں بلکہ اشرافیہ کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر سیاست کا پتہ بھی نہیں ہل سکتا اگر یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں پاکستان مغلیہ دور میں داخل ہو جائے گا۔
ہم جس جمہوریت میں رہتے ہیں اس میں سب کچھ ہے مگر جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت عوام سے عبارت ہے لیکن چوہتر برسوں میں کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جس میں عوام رہے ہوں کیا ہم موجودہ حکومت کو انھی حکومتوں کا تسلسل کہیں۔ اگر پاکستان میں عوام پر مشتمل جمہوری حکومت لانا ہو تو ان مستند کرپٹ سیاست دانوں سے پاک کرنا ہوگا اور ان کی جگہ غریب طبقات سے اہل اور تعلیم یافتہ غریب عوام کو آگے لانا ہوگا۔
عوام نے وزیراعظم عمران خان سے امید لگائی تھی کہ وہ غریب طبقات سے اہل اور تعلیم یافتہ لوگوں کو نکال کر اسمبلیوں میں لائیں گے لیکن اسے ہم عوام کی بدقسمتی کہیں یا بزدلی کہ عوام اپنے حقوق اور اسمبلی اور ممبر شپ کی طرف دھیان تک نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ کرپٹ عناصر عوام پر مسلط ہیں۔
عشروں بعد مڈل کلاس کی ایک حکومت آئی تھی جس سے عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اشرافیہ سے عوام کو نجات دلا دے گی لیکن یہ قیادت بھی عوام کی امید پر پورے نہ اتر سکی، اس رویے سے عوام میں شدید بد دلی پیدا ہو رہی ہے اور خطرناک علامات ہیں۔
تعجب یہ ہے کہ عمران خان کا سارا کیریئر مڈل کلاس پر مشتمل ہے قسمت سے اگر حکومت ملی ہے تو ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ مزدوروں، کسانوں اور غریب لوگوں کو آگے لاتے تاکہ اشرافیہ کی جھاڑ جھنکار سے عوام کو نجات مل جائے لیکن عوام کی توقع پوری نہ ہوسکی۔