پاکستان کی تاریخ میں حکومت کو گرانے کے لیے ویسے تو بہت سے سیاسی اتحاد بنے ہیں لیکن پی ڈی ایم جیسا سیاسی اتحاد نہیں دیکھا کیونکہ کئی جماعتوں پر مشتمل یہ سیاسی اتحاد بہت تیز رفتار سے جلسے جلوس کے ذریعے حکومت کو گرانے کے عمل میں مصروف ہے۔
آئے دن ایسے جلسے اور جلوس کا اہتمام کر رہی ہے جن کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ حکومت مستعفی ہوجائے۔ پی ڈی ایم ایک نکاتی ایجنڈے پرکام کر رہی ہے، پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) کے علاوہ ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو عشروں سے گم نامی میں پڑی ہوئی تھیں۔
ان جماعتوں میں ایسے لیڈران کرام بھی ہیں جو سیاست کے میدان میں گوشہ نشین رہتے ہیں اور جیسے ہی اپنے ہمنواؤں کو اقتدار ملنے کی خبر ہوتی ہے تو یہ اپنی گوشہ نشینی کو ترک کردیتے ہیں۔ آج کل بھی باہر نکل آئے ہیں اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر حکومت ہٹاؤ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اب عملاً بائیں بازو نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں بایاں بازوکسی حد تک فعال ہے، اس صورتحال کی ذمے داری نہ کسی ایک جماعت پر عائد ہوتی ہے نہ کسی فرد پر۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ بائیں بازوکے رہنماؤں نے فارمولا انقلاب کا فلسفہ اپنا لیا اور 1917 کے انقلاب روس اور انقلاب چین کو اپنا آئیڈیل بنا کر اس کے پیچھے بھاگتے رہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کرتے رہے کہ ہم 1917 میں نہیں 2021 میں زندہ ہیں جہاں زمینی حقائق ماضی سے یکسر مختلف ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عوام کو ساتھ ملائے بغیر یا عوام کی حمایت کے بغیر انقلاب تو کجا ایک بڑی ریلی تک نہیں نکالی جاسکتی۔
میدان سیاست میں بائیں بازو کی عدم موجودگی کی وجہ سے دائیں بازو کی خاندانی سیاست نے مضبوطی سے قدم جما لیے ہیں اور دائیں بازو کی ہر پارٹی کسی نہ کسی شہزادے یا شہزادی کی قیادت میں سیاست میں مصروف ہیں اور عوام کا نام دائیں بازو کی سیاسی ڈائری میں سرے سے موجود ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دائیں بازو کے شہزادے شہزادیاں کالجوں سے نکلتے ہی دائیں بازو کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی قیادت سنبھال لیتے ہیں۔
بھارت میں کسان سراپا احتجاج ہیں اور انھوں نے دہلی کا گھیراؤکر رکھا ہے، ہوسکتا ہے انتہائی سخت قسم کے اقدامات سے بھارت کسانوں کی تحریک کو دبانے میں کامیاب ہو جائے لیکن کسان جتنی مضبوطی اور تیاری کے ساتھ میدان میں آئے ہیں، اس کے سبب بھارت میں اس قسم کے ہنگامی حالات کے ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ کسان پورے بھارت میں منظم طور پر متحرک ہیں۔ اس ہنگامی صورت حال سے بچنے کے لیے بھارت پاکستان کے خلاف کوئی بھی انتقامی کارروائی کر سکتا ہے اور اسی حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے بار بار خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اگرچہ ایک سے زیادہ بار زرعی اصلاحات کا ڈرامہ رچایا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قبائلی اورجاگیرداری نظام قائم ہے اور وڈیرے آج بھی کسانوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ یہی نہیں ہماری سیاست میں بھی ابھی تک جاگیرداروں کا عمل دخل جاری ہے جس کے دوررس اثرات ہمارے ملک اور معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔ ہمارے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی نئی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں نئی اصلاحات متعارف کرانے کی دعویدار ہے۔
اس تناظر میں اگر جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، خیبر پختونخوا سے قبائلی اورجاگیردارانہ نظام ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان کو اس مطالبے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ بعض بااثر جاگیردار اب بھی زمین بچانے میں کامیاب رہے ہیں لہٰذا حکومت اس حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیشن بنائے جو قبائلی نظام کے خاتمے اور زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کرے تاکہ سیاست اور معاشرت میں مڈل کلاس آگے بڑھ سکے۔