قانون اور انصاف کے بغیر دنیا کا کوئی ملک نہیں چلتا لیکن قانون اور انصاف جس پیٹرن پر چلائے جا رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون اور انصاف دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک حصہ اس اشرافیہ کا ہے جسے جیل میں بھی 5 اسٹار ہوٹل کی سہولتیں ملتی ہیں اور دوسرا حصہ ان بے نوا غریبوں کا ہے جن کے لیے جیلوں میں چریا وارڈ بنے ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں ایسا ہی نظام نافذ ہے ہمارا خیال ہے ایسا نہیں ہے بلکہ قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں قانون اور انصاف سب کے لیے یکساں ہوتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں قانون اور انصاف سب طبقاتی ہوتے ہیں، سرکار کے علاوہ جیل حکام بھی قیدیوں کو رشوت لے کر راتوں کو اپنے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا کب تک ذلیل خوار ہوتا رہے گا، کب تک بے گناہ سزاوار ہوتے رہیں گے۔
قانون اور انصاف کا تماشا ایک عرصے سے دیکھا جا رہا ہے، پاکستان بننے کے بعد سے اشرافیہ نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی جس کی تشہیر پورے ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے اس لوٹ مار کو گھر گھر پہنچایا اور عوام نے ان مہذب لٹیروں کو اچھی طرح جان لیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لٹیرے آج بھی اسی کروفر سے غریبوں کے سینے پر دندناتے پھر رہے ہیں۔
آج بھی اربوں روپے کی لوٹ مار کی داستانیں گردش کر رہی ہیں، ابھی پچھلے دنوں ایک شاہوں کے شاہ کے بارے میں اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ اس نے 26 ارب روپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوائے تھے یہ تو ایک نمونہ ہے ورنہ ایسے بے شمار کیس ہیں جن میں اربوں روپے کی لوٹ مار کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کتنے لٹیرے ہیں جنھوں نے اربوں کھربوں کی لوٹ مار کی وہ کس طرح معزز ہیں اور کس طرح آج بھی بغیر حکومت کے حکمران ہیں۔
عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ میڈیا میں مہینوں تک اربوں روپے کی لوٹ مار کی جو داستانیں چھپتی رہیں کیا وہ غلط تھیں اگر صحیح تھیں تو اس کا حساب کیوں نہیں ہوا؟ ایک تحقیقاتی ادارہ ان کے خلاف کارروائی کی کوشش کر رہا ہے اور اب تک ان سے اربوں روپے برآمد کرچکا ہے اس ادارے کے خلاف پوری اشرافیہ ایک زبان ہوکر کہہ رہی ہے اس ادارے کو فوری بند کیا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اشرافیہ کی لوٹ مار کے خلاف ایک ادارہ تشکیل دیا گیا تھا، جس نے ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کی یہی اس کا قصور ہے اور اسے اس قصور کی سزا اشرافیہ ہر قیمت پر دلانا چاہتی ہے پاکستان کی تاریخ میں اشرافیائی لوٹ مار ایک عام بات ہے۔ آج بھی حکومت میں شامل اشرافیہ لوٹ مار کر رہی ہے، یہ تو اس حکومت کے جانے کے بعد معاملات کھلیں گے کہ کس نے کتنا پیسہ لوٹا۔
ہمارے ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں ملتی، کیا ایسے حالات میں مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھوں میں ملک کی دولت کا جمع ہونا قرین انصاف ہے؟ اربوں روپے کے لٹیروں کو ضمانتیں ملتی ہیں اور وہ سزا کو پشم برابر بھی نہیں سمجھتے۔ جن مجرموں کو دس دس سال کی سزا ہوتی ہے وہ باہر کے ملکوں کے چائے خانوں میں بیٹھے وقت گزار رہے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجرم باہر کیسے گیا اس کا ذمے دار کون ہے جب یہی کچھ ہونا ہے تو جمہوریت کو کیوں بدنام کیا جا رہا ہے سیدھے سیدھے بادشاہت کا اعلان کردیا جائے ویسے ہی ہمارے ملک میں دو چار خاندانوں کی حکومت ہے جسے ہم بادشاہت ہی کہہ سکتے ہیں پھر جمہوریت کے کھڑاگ کی کیا ضرورت ہے عوام ویسے بھی شاہی دور میں جی رہے ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اہل قلم اہل خرد کیا بھٹے بھون رہے ہیں اہل خرد کی ضرورت ایسے ماحول کو تبدیل کرنے میں پیش آتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے بھی کرپشن میں سب کو اندھا، گونگا، بہرا بنا دیا ہے ان سارے مظالم کی وجہ یہ ہے کہ عوام جو اس ملک کے حقیقی حکمران ہیں اپنی حیثیت سے ہی واقف نہیں انھیں صرف یہ معلوم ہے کہ ہم معمولی عوام ہیں ہم کچھ نہیں کرسکتے۔
رونا یہی ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کا ذرہ برابر احساس نہیں، دنیا کی گاڑی قانون اور انصاف کے پہیوں پر چل رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں ہمارے نظام کی گاڑی بغیر پہیوں کے گھسٹ رہی ہے جو ایک عجوبہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قانون اور انصاف کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا لیکن یہ اس قدر حیرت انگیز بات ہے دنیا میں ایسے جمہوری ملک ہیں جہاں قانون اور انصاف کی ضرورت ہی نہیں اور نہ کسی کو اس کی پرواہ ہے۔ اس قسم کے حالات ہیں پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز نہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل عقل، اہل قلم جانے کہاں چھپے بیٹھے ہیں جب تک عوام کو فکری عقلی رہنمائی نہیں ملتی ان کا حال مٹی کے پتلوں جیسا رہے گا جب تک عوام کا حال یہ رہے گا اشرافیہ قومی دولت کو لوٹ کر عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہی رکھے گی۔ کیا اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے؟