حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم نے اپنے ایک اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان 31 جنوری تک استعفیٰ نہیں دیتے توحکومت کے خلاف "لانگ مارچ" کیا جائے گا۔ ایک نوجوان لیڈر نے کہا ہے کہ یہ عمران خان سے مذاکرات کا وقت نہیں بلکہ استعفیٰ لینے کا وقت ہے۔
اصل میں ستر سال سے ان روایات پر دھڑلے سے عمل ہو رہا ہے، جس کی وجہ آئے دن ملک میں خون خرابے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ مسلح ونگز کا تعلق خواہ کسی سیاسی جماعت سے ہو یا مذہبی جماعت سے اس کے کارکنوں کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اور غریب طبقات ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
آج کل ملک میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سیاسی جماعتیں ہیں اور دوسری طرف ایک مڈل کلاس پارٹی ہے جو برسر اقتدار ہے۔ ہماری اشرافیہ غریب طبقات کو انسان ہی نہیں سمجھتی، سو اشرافیہ پر مشتمل اپوزیشن اسے اپنی توہین سمجھتی ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ اس پر حکومت کریں۔
پی ڈی ایم نے جو وارننگ حکومت کو دی ہے کہ وہ 31جنوری تک اقتدار سے الگ ہو جائے، یہ ایلیٹ کی سیاسی روایت ہے، وہ اپنے طبقے کے علاوہ کسی کو اقتدار میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اب اپوزیشن پارٹیاں برسر اقتدار حکومت کو جو الٹی میٹم دے رہی ہیں، بدقسمتی سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو اس میں استعمال کیا جارہا ہے۔ ویسے تو سیاسی ایلیٹ کا کلچر ہی غریب عوام کا استحصال ہے، اسی وجہ سے حکومت اس کے پاس ہوتی ہے لیکن اس بار ہوا یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے دور میں اربوں کی کرپشن کی کہانیاں منظر عام پر آئیں۔
پورے ملک میں میڈیا نے اس کو بھرپور انداز میں بے نقاب کیا۔ یوں ملک کا بچہ بچہ حقائق سے واقف ہو گیا۔ آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے خلاف انتظامیہ نے کیس بنانے شروع کیے اور سابق وزیر اعظم سمیت شریف خاندان کے کئی لوگوں کو جیلوں میں پہنچا دیا۔ اس ذمے داری کو ملک کی ایک تحقیقاتی ایجنسی نیب پورا کرتی ہے۔ سو اپوزیشن نیب کے سخت خلاف ہو گئی ہے اور اس ادارے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہاں ضمناً اس بات کی وضاحت کرنی پڑ رہی ہے کہ ایجنسیوں کو برا سمجھا جاتا ہے خاص طور پر پڑھا لکھا طبقہ ایجنسیوں کا سخت مخالف ہوتا ہے کہ ایجنسیاں حکومت کی ایجنٹ ہوتی ہیں لیکن یہ اعتراض اس لیے کیا جاتا ہے کہ ایجنسیوں کا کردار عام طور پر درست نہیں ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں حکومت نے جو کچھ کیا، اسے یہی ادارے منظرعام پر لائے ہیں۔
کرپشن اور آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے جرم میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت شریف خاندان اور دیگر کئی شخصیات کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ نیب کے اس اقدام سے اپوزیشن سخت مشتعل ہے اور نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے، نیب کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کر رہا ہے اور اپوزیشن نیب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عام حالات میں عوام اور تعلیم یافتہ طبقات سیاسی امور میں اسٹیبلشمنٹ کی سخت مخالفت کرتی ہے لیکن ہمارے ملک میں پچھلے دس سال سے لوٹ مار کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس کے خلاف ہماری عام انتظامیہ کوئی موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ اربوں کی کرپشن کی مرتکب گھرانے سخت بے چین ہیں کہ موجودہ حکومت کو کس طرح نکال باہر کریں۔
پی ڈی ایم کی تحریک بنیادی طور پر نیب کی کارروائیوں کے خلاف ہے کیونکہ آج کل نیب کا سربراہ کرپٹ عناصر کے خلاف سخت اقدامات میں لگا ہوا ہے۔ پی ڈی ایم کا حکومت گرانے کا اصل مقصد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو نیب کے پنجوں سے چھڑانا ہے۔
ہماری عدلیہ ملک میں عوام کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سو موٹو ایکشن لیتی ہے۔ اس وقت ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور اپوزیشن ہر قیمت پر اس عمرانی مڈل کلاس حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اس نیک کام کے لیے اس نے حزب اختلاف یعنی پی ڈی ایم کو آگے بڑھایا ہے۔
اب عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر چال کو ناکام بنا دیں۔ 31 جنوری تک حکومت کو استعفے دینے کا جو الٹی میٹم دیا گیا ہے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کیونکہ جب تک اپوزیشن جماعتیں موجودہ اقتدار میں ہیں۔ کسی کو این آور نہیں مل سکتا ہے۔ ملک کے دانشوروں اور فہمیدہ حلقوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور مڈل کلاس کی حکومت کو سازشوں سے بچانا چاہیے، ورنہ یہ ملک ایک بار پھر روایتی رولنگ کلاس کا یرغمال بن جائے گا۔