ہمارے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اب ایک اصول پسند دانشور بھی ہیں، ویسے تو ہم پہلے سے ہی ان کی عزت کرتے چلے آرہے ہیں تاہم یہ الگ بات ہے کہ وہ میدان سیاست میں جنرل جیلانی کے متعارف کردہ ہیں لیکن جب سے مسلم لیگ ن نے "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ متعارف کرایا ہے، ہمارے دل میں ان کی عزت ڈبل ہوگئی ہے۔
میاں صاحب کو ایک عرصہ ہوا علاج کے لیے لندن گئے ہوئے، میڈیکل رپورٹس کے مطابق وہ دل کے مریض ہیں۔ ڈاکٹروں نے غالباً چہل قدمی کا مشورہ دیا ہے۔ وہ ڈاکٹروں ہی کے مشورے پر لندن میں چہل قدمی کرتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ اب میاں صاحب کی صحت ماشا اللہ بہت بہتر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ لندن کی آب و ہوا میاں صاحب کو اتنی پسند آگئی ہے کہ وہ مہینوں سے لندن میں رکے ہوئے ہیں۔
شریف خاندان اپنی روایتی شرافت کی وجہ بھی عوام اور خواص میں مقبول ہے۔ میاں صاحب کا تعلق چونکہ ایک بااخلاق کاروباری خاندان سے ہے لہٰذا عوام کا یہ قیاس غلط نہیں ہو سکتا کہ یہ بااخلاق ہے۔ ہم نے میاں صاحب کو بڑوں کی عزت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، غالباً شریف خاندان میں یہ خوبی بڑے میاں کی وجہ پیدا ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ جیساکہ ہم نے ذکر کیا میاں صاحب کا مذکورہ بالا بیانیہ "ووٹ کو عزت دو" عوام میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
ہم ٹی وی بہت کم دیکھتے ہیں اور محض خبروں کے لیے دیکھتے ہیں۔ آج کل پڑھے لکھے طبقے میں میاں صاحب کی صاحبزادی محترمہ مریم صاحبہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بہت با اخلاق ہیں اور بڑوں کی بہت عزت کرتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سیاست میں واقعی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پچھلے دنوں لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے سلسلے میں جلسہ ہوا، اس میں محترمہ مریم صاحبہ نے بھی شرکت کی ہے۔ ہم نے اس روز خصوصی طور پر ٹی وی آن کیا کہ مریم صاحبہ کی تقریر نشر ہونے والی تھی۔ مریم صاحبہ نے اپنی تقریر وزیر اعظم عمران خان اور حکومت پر سخت تنقید کی۔ محترمہ نے اپنی اس تقریر کے دوران خاصا سخت لہجہ اختیار کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کرکٹ کے ہیرو کی حیثیت سے عوام میں بہت مقبول رہے ہیں، غالباً اسی حوالے سے عوام نے انھیں پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔ میں اور پی ٹی آئی کے حامی عوام عمران خان کو ملک کا مشہور کرکٹر سمجھتے ہیں اور ویسے بھی وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں ووٹرز کی اکثریت نے ووٹ دے کر حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے، لہذا اب وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور کم از کم اس حوالے سے اس عہدے کی ایک تکریم ہے اور اپوزیشن کو اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا۔
میرے خیال میں لاڑکانہ کے جلسے میں محترمہ مریم نواز صاحبہ اور بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کا جس طرح تمسخر اڑانے کی کوشش کی، کم از کم مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔"جلسے" کے حاضرین حیران تھے کہ یہ تقریب بے نظیر کی برسی کے حوالے سے منعقد ہوئی تھی لیکن یہ "مہذب" جلسے میں کیسے بدل گئی۔ کیا ہم اسے آصف زرداری کی سیاست کا کمال کہہ سکتے ہیں؟
پیپلزپارٹی اور آصف زرداری جمہوریت کے کس قدر عاشق ہیں، اس کا اندازہ بلاول زرداری کی حکومت کو دی جانے والی اس تڑی سے ہو سکتا ہے جس میں انھوں نے وزیر اعظم پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر تم نے 31 جنوری تک وزارت عظمیٰ نہ چھوڑی تو ہم لانگ مارچ شروع کر دیں گے۔
واضح رہے کہ ایک جمہوری حکومت کو عام انتخابات کے ذریعے ہی ہٹایا جاتا ہے، لانگ مارچ کے ذریعے اگر حکومتوں کو تبدیل کرنے کا رواج چل پڑا تو عوام پھر انتخابات کے جھنجھٹ سے بچ جائیں گے۔ بلاول زرداری ابھی نوجوان اور کنوارے ہیں، خون میں ابھی بہت گرمی ہے لیکن رواج کے مطابق حکومتیں انتخابات کے ذریعے ہی بدلی جاسکتی ہیں۔ بلاول نے لانگ مارچ کے ذریعے حکومتیں تبدیل کرنے کا جو فارمولا دیا ہے، اگر وہ مقبول ہوا تو ہر ملک کی حکومتیں بھاری اخراجات سے اور عوام ووٹ ڈالنے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔