اقوام متحدہ نے اپنی تازہ عالمی معاشی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ بھارت سمیت دنیا کی 70 فیصد آبادی والے ممالک میں معاشی عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور اس صورتحال سے وہاں کا دولت مند طبقہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یہ رپورٹ اقتصادی فورم کے اجلاس میں پیش کی گئی، جس کے مطابق عدم مساوات کا یہ رجحان دنیا کے لاکھوں انسانوں کے لیے بہتری کے راستے مسدود کر رہا ہے، جس سے معاشی نمو میں رکاوٹ اور سیاسی عدم استحکام کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک میں درپیش ہے۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہرکیا گیا ہے کہ عدم مساوات پر قابو نہ پایا گیا تو معاشروں میں تقسیم کو بڑھاوا ملنے کے علاوہ ترقی کا عمل بھی سست پڑ سکتا ہے۔ معاشی عدم مساوات کا سامنا کرنے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے جب کہ برازیل، ارجنٹائن اور میکسیکو میں اس رجحان میں کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والے ملک چین کو آمدنی میں عدم مساوات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا میں انصاف سے محروم عوام اور ملکوں کو انصاف مہیا کرتا ہے۔ اس قسم کے مسائل کی تحقیق اور حل پیش کرنے والے ماہرین سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور لاکھوں ڈالر معاوضہ پاتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ ایسے ماہرین کے تجزیے عموماً بچکانہ ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تجزیہ کاروں کو ہر حال میں غیر جانبدار اور حقائق آشنا ہونا چاہیے کیا ہم اسے مذاق سے تعبیر کریں یا جانبدارانہ رجحان کہیں کہ رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کا سامنا کرنے والے ملکوں میں بھارت بھی شامل ہے۔
کیا پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملک اس معاشی عدم مساوات کا شکار نہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے تجزیہ کار اگر صرف بھارت کو عدم مساوات کے ملکوں میں شامل کرتے ہیں تو امکان یہی رہتا ہے کہ غریب ملکوں کو امداد دینے والے بھارت جیسے ملکوں کی امداد میں رپورٹ کی روشنی میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اضافہ ہی کریں گے جب کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جنوبی ایشیا مجموعی طور پر پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں کے عوام کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی اور آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے فاضل رپورٹ نگار کیا یہ نہیں جانتے کہ دولت کا ارتکاز جب ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھوں میں ہوگا تو فطری طور پر دنیا میں عدم مساوات میں اضافہ ہوگا؟ یہ بھی فرمایا ہے کہ معاشی عدم مساوات سے سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔
واہ بھئی واہ! آپ سیاسی عدم استحکام کی بات کر رہے ہیں ارے جناب! ایک وقت آئے گا اور آ رہا ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی کے ڈاکو جنھیں آپ سرمایہ دار کہتے ہیں سڑکوں پر گھسیٹے جائیں گے اور جنھیں آپ نے ان سرمایہ داروں کی حفاظت پر 20-18 ہزار روپے ماہانہ پر رکھا ہے سرمایہ داروں کو لٹکانے میں پیش پیش رہیں گے۔ کیونکہ ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھے پھرنے والے 20-18 ہزار ماہانہ کمانے والوں کا شمار بھی غریب طبقات میں ہوتا ہے جن کے بچے تعلیم سے محروم ہیں جن کا خاندان علاج سے محروم ہے اس کے باوجود وہ بندوق کندھے پر رکھے سرمایہ داروں کے بنگلوں اور ایئرکنڈیشن دفاتر پر پہرے دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ مظلوم ملکوں کی مدد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 7 دہائیوں سے فلسطین کے عوام اسرائیل کے وحشیانہ مظالم سہہ رہے ہیں اور کرپشن کے الزام میں ملوث اسرائیل کا وزیر اعظم اوپر والوں یعنی اپنے محافظوں سے جان کی امان حاصل کرکے انتخابات لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ ہے تمہارا سرمایہ دارانہ نظام جس کی تم حفاظت کر رہے ہو۔ اب زیادہ دیر نہیں لگے گی عوام کا خون چوسنے والی ان جونکوں کو عوام سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔
معاشی عدم مساوات کو تم معیشت کا ایک کھیل سمجھتے ہو۔ ہو سکتا ہے یہ ایک کھیل ہی ہو لیکن اس کھیل میں تمہارے ہی پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق ہر سال دو لاکھ " انسان" بھوک سے، دو لاکھ سے زیادہ نونہال دودھ سے محرومی کی وجہ، لاکھوں خواتین علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ موت کا شکار ہو رہے ہیں کیا تم سمجھتے ہو کہ ان مظلوموں کا خون رائیگاں جائے گا۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے انسانوں کو بھوکا مارنے والا اور تعلیم سے محروم کرنے والا نظام ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی گردنوں کے گرد رسہ تنگ ہو رہا ہے۔ اب بہت جلد ان امراء کو بھوکے پیاسے ننگے دھڑنگے اربوں انسانوں کا سامنا کرنا ہوگا اور جب اربوں انسانوں پر مشتمل بھوکوں کا یہ سیلاب ان کی طرف بڑھے گا تو ان کے محافظ کندھوں سے بل گیٹوں کو بچانے والی گنیں پھینک کر ننگے بھوکے عوام کی صفوں میں آجائیں گے۔
آج تم اپنے جدید ڈرونوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کو جس طرح مار رہے ہو، جب عوام کے ڈرون باہر نکلیں گے تو دنیا کے چھوٹے بڑے امیروں کے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔ انسان جانور کی طرح زندہ نہیں رہے گا۔ تم کو جانور کی طرح زندہ رہنا ہوگا۔ تمہارے آج کے باڈی گارڈ کل کے گورکن ہوں گے۔
اے اقوام متحدہ کے تجزیہ کارو! یہ یکطرفہ تجزیے چھوڑ دو، حقیقی تجزیے کرو اور دنیا کو بتاؤ کہ پلک جھپکتے میں کتنے غریب بھوک سے مر جاتے ہیں پلک جھپکتے میں کتنے معصوم بچے دودھ سے محرومی کی وجہ مر جاتے ہیں کتنی حاملہ عورتیں زچگی کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ جان سے جاتی ہیں۔