23، 24 جنوری 2021ء کو درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف ڈہرکی سندھ میں سالانہ حافظ الملت عالمی کانفرنس سجادہ نشین پیر عبدالخالق قادری کی سرپرستی میں منعقد ہو رہی ہے۔ علماء اور مشائخ کے علاوہ شاعر، ادیب، دانشور اور اہل قلم بھی دو روزہ تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں۔ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حوالے سے خانقاہ بھرچونڈی شریف کی بہت خدمات ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل اور وسیب کے طالب علموں کیلئے مشاہیر کے کارناموں سے آگاہی ضروری ہے۔ سندھ کے عظیم روحانی پیشوا حضرت سید العارفین جنید وقت حافظ محمد صدیق القادری 20 جنوری 1819ء کو حضرت میاں ملوک کے گھر پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا بچپن میں انتقال ہو گیا، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے ریاست بہاولپور کے مدرسہ ماڑی جندوں احمد پور شرقیہ سے آپ نے تحصیل علم کے بعد اپنے شیخ خلیفہ سید محمد حسن شاہ جیلانی بانی خانقاہ سوئی شریف سے روحانی تعلیم حاصل کی، بچپن سے آپ کا مزاج حریت پسندی کی طرف مائل تھا اور جہاد پتن منارہ کے موقع پر سپہ سالار کی حیثیت سے آپ نے خدمات سر انجام دیں اور بھرچونڈی شریف کو روحانی مرکزکے ساتھ ساتھ آزادی کا مرکز بھی بنا دیا۔ اس خانقاہ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انگریز سامراج نے جب سندھ کو بمبئے کے ساتھ شامل کیا تو بھرچونڈی شریف سے اس فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم سرائیکی وسیب کو دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ صوبہ ملتان پر سکھوں اور انگریزوں کے حملے اور قبضے کے وقت سجادگان کی اکثریت حملہ آوروں کے ساتھ تھی۔
وطن عزیز میں آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ یہ آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ آزادی کیلئے ہمارے اکابرین نے بے پناہ جدوجہد کی، جلاوطنی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریز اقتدار سے نجات کیلئے انہیں لہو کے دریا عبور کرنے پڑے لہٰذا یہ سوچ یا نظریہ غلط ہے کہ کسی لیڈر یا شخص کو گرفتار کرائے بغیر ملک آزاد کرا لیا گیا۔ تحریک آزادی میں جہاں بہت سے دیگر علاقوں کا نام ہے، وہاں خانقاہ بھرچونڈی شریف ڈہرکی سندھ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں خانقاہی نظام سے وابستہ لوگ آزادی کی تحریکوں میں کنارہ کشی اختیار کرتے رہے مگر چند درگاہیں ایسی ہیں جنہوں نے ہندوستان کو انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا، ان میں بھرچونڈی شریف کا نام نمایاں ہے۔ انہی اوصاف سے متاثر ہو کر عالمی شہرت یافتہ عظیم حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھی ؒ اسی درگاہ سے وابستہ ہوئے، اسی طرح دین پور شریف (خانپور) کے حضرت خلیفہ میاں غلام محمد دین پوری کی وابستگی بھی اسی درگاہ سے ہوئی، یہ پیر آف بھرچونڈی شریف حضرت حافظ محمد صدیق ؒ کی تربیت کا اثر تھا کہ یہ علاقے تحریک آزادی کا مرکز بن گئے اور یہیں سے ریشمی رومال تحریک شروع ہوئی اور یہ علاقے آزادی کے حوالے سے عالمگیر حیثیت اختیار کر گئے۔
درگاہ بھرچونڈی شریف سے وابستہ مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کا مختصر احوال اس طرح ہے کہ آپ سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، مادری زبان پنجابی تھی قریبی رشتے دار جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں رہتے تھے، ابھی عمر چند سال ہی تھی کہ والدہ کے ساتھ جام پور آئے یہاں کا ماحول انہیں بھا گیا، کچھ عرصہ بعد سکھ مذہب سے بغاوت کر کے مسلمان ہو گئے اورآپ کا نام عبید اللہ رکھا گیاآپ سرائیکی وسیب سے سندھ گئے اور وہاں بھر چونڈھی شریف میں حضرت خلیفہ محمد صدیق صاحب کے مرید ہوئے پیر صاحب نے فرمایا عبید اللہ آج سے میرا بیٹا ہے آپ حضرت صاحب کی بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے نام کے ساتھ "سندھی " لکھ لیا جو آج تک ان کے نام کا حصہ ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی بھرچونڈی شریف سے وابستگی نے کائنات ہی بدل ڈالی۔ انہوں نے پوری زندگی انگریز استعار، ملوایت، تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کی، تحریک آزادی کیلئے انہوں نے مشہور زمانہ "ریشمی رومال تحریک" شروع کی اور پورے ہندوستان میں انگریز کے خلاف نفرت کا جال بچھا دیا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھرچونڈی شریف کی وجہ سے تحریک آزادی کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور خانقاہ سے وابستہ مولانا عبید اللہ سندھی نے انگریز سامراج کو دقت میں ڈال دیا، ان کو جلا وطن کر دیا گیا مگر انہوں نے اپنا کام اور اپنا مشن جاری رکھا۔ جلا وطنی کے دوران آپ نے افغانستان کا سیاسی تعلق برطانیہ سے ختم کرا کے سوویت یونین سے کرا دیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ 1920ء میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تحریک پر افغانستان کے امیر امان اللہ خان نے سوویت یونین سے دوستی کامعاہدہ کرلیا۔ اور ہندوستان کی انگریز سرکار کو ماننے سے انکار کر دیا اور سب سے اہم یہ کہ برطانیہ کی شدید مخالفت کے باوجود افغان حکومت نے اعلان کیا کہ ہم ہندوستان میں انگریز کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے اور جلا وطن حکومت کے فرمانروا مولانا عبید اللہ سندھی کو ہندوستان کا اصل وارث او رتخت نشین تسلیم کرتے ہیں۔ جلا وطنی کے دوران مولانا سندھی نے روس، اٹلی، جرمنی اور ترکی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور پوری دنیا میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کر دیا اور انگریزوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
حافظ الملت قبلہ حافظ محمد صدیق ؒ نے جہاں آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا، وہاں وہ انسان دوست بھی تھے اور بھگتی تحریک میں بھی آپ کا کردار نمایاں ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عظیم سرائیکی اسکالر میر حسان الحیدری کی سرپرستی میں خانقاہ قادریہ بھرچونڈی شریف کی طرف سے تصنیف و تالیف کا کام بھی بھرپور طریقے سے ہو رہا ہے، حافظ الملت اکیڈمی کی مطبوعات میں رسالۂ سلوک اردو ترجمہ مع تفہیم، عباد الرحمن، نفحات الرحمن، غوث الوریٰ، ارشاد الحق، معارف حافظ الملت مجموعہ مقالات، سید حسن شاہ جیلانی (احوال و آثار)، ملفوظات مالکان (سندھی)، رسالو سلوک جو (سندھی)، جامِ عرفان، میلاد کی مقدس محفلیں، پیر عبدالرحیم شہید (سوانح)، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، خطبات صدارت (پیر عبدالرحمنؒ، پیر عبدالحلیم ؒ)، حضرت حافظ الملت ؒ اور آپ کے سجادگان شامل ہیں۔ یہ تمام کتابیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں، خصوصاً مجھے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کتاب کا نام بہت اچھا لگا کہ ہمارا دشمن ملک ہندوستان اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بہت پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔