کورونا نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا۔ گزشتہ روز کورونا کے باعث مزید 149اموات ہوئیں۔ مڈل تک تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہاکہ متاثرہ اضلاع کی یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز ہوں گی۔ بلاشبہ کورونا کائنات کا سب سے بڑا حادثہ ثابت ہوا۔ اب بھی کورونا مکمل طور پر ختم نہیں ہوااور جہاں تک اثرات کا تعلق ہے، یہ اثرات تو شاید برسوں تک محسوس کئے جاتے رہیں۔ کورونا نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا جس میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کورونا کے باعث وسیب کے عظیم ماہر لسانیات پروفیسر شوکت مغل فوت ہوئے، اور ابھی کل اُردو زبان کے عظیم شاعر ڈاکٹر فرتاش سید کورونا سے وہاڑی میں فوت ہو گئے، اُن کی وفات سے پورے وسیب میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست اور اچھے انسان بھی تھے۔
ایک طرف کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ دوسری طرف ملک میں امن وامان کی صورتحال ناگفتابہ ہے۔ تحریک کا دھرنا اور احتجاج چل رہاہے، اپوزیشن سے بھی حکومت کاجھگڑا جاری ہے۔ ان تمام مسائل سے تحمل، بردباری اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برا ہونے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل بندوق نہیں مذاکرات ہیں۔ اگر ملکی صورتحال اسی طرح رہی تو عالمی برادری بھی توجہ نہیں دے گی۔ جبکہ اس وقت عالمی برادری کو خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر کورونا سے تباہ حال ملکوں اور ان کی معیشتوں کو سہارا دینے کی ضرورت۔ گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ قرضے معاف کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا زیادہ پھیلا تو نہ نمٹنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی ہمارے پاس وسائل۔ کورونا کی صورتحال سنگین ہونے کی صورت میں ہم کمزور معیشت کو بچانے میں ناکام ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کی اپیل بروقت ہے اور عالمی برادری کو اس پر ہر صورت غور کرنا چاہئے اور ترقی پذیر ممالک کی امداد کرنی چاہیے۔
ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے وہ ملک جن کے پاس معدنی وسائل اور دولت کے انبار ہیں، وہ سرمایہ عیاشی پر خرچ کرنے کی بجائے غریبوں کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے کے لیے خرچ کریں۔ رمضان شریف کا مقدس مہینہ ہے غریب جن مشکلات کا شکار ہیں وہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے غریبوں کو کچل کررکھ دیا ہے۔ وہ اصحاب جن کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی دولت نیکی کی راہ پر خرچ کریں اور غرباء کی عید کے لیے خوشیوں کا سامان پیدا کریں۔ کورونا کے عذاب کی وجہ سے بہت سے طلباء فیسیں ادا نہیں کر سکے اُن کی پڑھائی میں تعطل آیا ہے اُن کو پھر سے سکول، کالج اور یونیورسٹی بھیجنا ضروری ہے۔ بچے ہوں یا جوان یہ ہمارا اثاثہ ہیں، کسی بھی ملک کے نوجوان قوم کا مستقبل بھی ہوتے ہیں اور مستقبل کے قائد بھی، ان پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
کورونا سے شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ میں جس نوجوان سے بھی ملا ہوں وہ مجھے مایوس نظر آیا ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی کی بجائے امید اور امنگ ہونی چاہئے، غریب طالب علموں کا تو بہت ہی برا حال ہے، امیر طلبہ تو پھر بھی کام چلا لیتا ہے، امراء کے بچے جن تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ان کا مقصد دولت کمانا ہے اور امیر طبقہ دولت کے بل بوتے پر سب کچھ حاصل کر لیتا ہے مگر میرے وطن کے غریب نوجوان کے بارے میں تعلیم کے میدان میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے واضح نظر آتا ہے کہ غریب نوجوان مایوسی میں مبتلا ہیں، اسی حوالے سے میڈیکل کالجز سمیت مختلف کلاسز کے طلباء کا کہنا ہے کہ میڈیکل کالجز کی کلاسز اور وارڈز اٹینڈ نہیں کر سکتے۔ آن لائن کلاسز کا ڈرامہ تو رچایا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں انٹرنیٹ سسٹم اتنا پاور فل نہیں کبھی آواز اور کسی وقت تصویر گم ہو جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی تعلیم کا بہتر حل نکالا جائے کہ وہ ہمارا مستقبل ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی تعلیمی پالیسی کی بات کریں تو یہاں اب تک کسی بھی تعلیمی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ بد قسمتی سے اپنی مادری زبان کو وہ فوقیت نہیں دی گئی، جو حقیقی طور پر دینی چاہئے تھی یعنی طلباء کو انکی مادری زبان میں پڑھنا، لکھنا، بولنا اور سیکھانا چاہئے۔ پختونخواہ کے بیشتر طلباء و طالبات پشتو، ہندکو، سرائیکی یا دوسری زبانیں بولتے ہیں، دوسری جانب صوبہ پنجاب میں چھوٹی عمر کے بچوں کو اپنی مادری زبان صحیح طرح پڑھنا ہی نہیں آتی۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ اسکولوں میں ہم ان کو اردو اور انگریزی ایک دم سے سیکھانے کی کوشش کرانے لگتے ہیں، جس سے بچہ ذہنی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر آج کے ترقی یافتہ ملک چین کی تعلیمی ترقی کو دیکھا جائے تو چین میں بچوں کو ماں بولی میں تعلیم دی جاتی ہے، چین بہت بڑا ملک ہے اور بہت سی زبانیں وہاں بولی جاتی ہیں، اسی طرح جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا راز یہی ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا میں نہ صرف ماں بولیوں میں تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ہندوستان کی 16 بڑی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہی عمل پاکستان میں دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔
وبائی بیماری ہمیشہ ایک عذاب کی شکل میں آئی اور اس کی پوری تاریخ ہے، مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف ممالک میں وبائی امراض آتی رہی ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک وباء طاعون کی شکل میں بھی آئی تھی۔ تاریخ کے مطالعے سے بہت سے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے اُس موقع پر بھی احتیاط کی طرف سب سے زیادہ توجہ دلائی گئی تھی، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کورونا کا عذاب جو کہ ہمارے آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے کے بارے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس وقت اس کا علاج صرف اور صرف احتیاط ہے۔ کورونا کے آگے ڈاکٹرز، سائنسدان، روحانی و مذہبی پیشوائ، بڑے بڑے سردار، جاگیردار، تمندار حتیٰ کہ ایٹمی طاقتیں تک بے بس نظر آتی ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ بہت سے اشخاص اور بہت سی طاقتیں بھی بے نقاب ہو چکی ہیں خدائی دعویٰ کرنے والے ممالک آج کہاں ہیں؟ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ کورونا کا مقابلہ صرف احتیاط ہے، سچی بات ہے کہ کورونا سے بچنا بھی ہے اور آنے والے کل یعنی کورونا کے بعد کے زمانے کے بارے میں سوچنا ہے کہ یہ بالکل الگ سے نئی دنیا ہو گی۔