Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Allah Ka Azab, Tauba Karen

Allah Ka Azab, Tauba Karen

میں نے آپ سب کی طرح اُس مرض پر بہت سوچا اور اس کے سوا میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اللہ کا عذاب ہے جو بنی نوع انسان پر نازل ہوا جو زیادہ مالدار ہے، زیادہ طاقتور ہے، زیادہ وسائل رکھتا ہے اس کو کرونا نے سب سے پہلے جکڑا۔ اَب آہستہ آہستہ دوسرے ممالک کی طرف آ رہا ہے۔ امریکہ کے صرف ایک شہر نیویارک میں پچھتر ہزار افراد مشتبہ پائے گئے ہیں۔ امریکہ کی ساری دولت اور سائنسی ترقی صفر ہو گئی۔ ہم تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں مگر وہاں کے ہسپتال ہی کم پڑ گئے۔ یہ عذاب کیوں آیا؟ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ماضی میں مختلف ممالک اور معاشرے اُس وقت اللہ کے عذاب سے دوچار ہوئے جب اُن میں بگاڑ پیدا ہوا بالخصوص جب انسان برائی اور بدکاری کے راستے پر چل نکلا اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر اُس نے انسانی نفس کی پرستش شروع کر دی۔ کیا عاد کیا ثمود یہ قومیں کیسے تباہ ہوئیں کسی پر پتھر برسے اور کسی کو طوفان نے آ لیا۔ دیکھتے دیکھتے آبادیاں تباہ ہو گئیں۔ اور ہزاروں انسان مر گئے۔ اللہ نے مرد کے لئے عورت کو پیدا کیا لیکن لوط کی قوم نے مردوں سے ہم جنسی شروع کر دی تو اس پر عذاب آیا۔ وقتاً فوقتاً اللہ کی طرف سے اجتماعی بدکاری کو ناپسند کیا گیا اور انسانی معاشروں کو زور دار جھٹکے لگے۔ اس وقت بھی انسانوں نے بچنے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کی ہو گی۔ ہاتھ پیر مارے ہوں گے مگر وباؤں کی شکل میں جو عذاب آئے اس کے سامنے ہر نسخہ ناکام ہوا۔

آیئے ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ آج دنیا میں بدکاری اور بُرائی کی کیا حالت ہے کیا جوئے کے کلب اور نائٹ کلب جو سعودی عرب میں بھی کھل گئے ہیں۔ بے راہ روی کے اڈے نہیں؟ کیا میرا جسم میری مرضی جیسی تحریکیں نکاح کی دشمن نہیں؟ کیا سڑکوں پر کھلے عام ایسی تحریکیں اور بدکاری کو فروغ دینے والے نعرے پکار پکار کر نہیں کہتے کہ ہم کسی اخلاقیات کو نہیں مانتے ہم پاکیزگی شرافت اور نسل انسانی کو آگے چلانے کے لئے خدا کے وضع کردہ نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ ویڈیو فلمیں یقینا سائنسی ترقی کا نتیجہ تھیں موبائل ٹیلی فون کے ذریعے فوٹو گرافی یقینا بہتر سائنسی ایجاد تھی مگر دیکھئے کہ استعمال کس مقصد کے لئے ہوئی بدکاری کی ریکارڈنگ کے لئے اور اس کام میں کسی قوم نے سستی نہیں دکھائی۔ روس امریکہ چین جاپان جرمنی تھائی لینڈ اور دیگر بے شمار ممالک میں پورنو گرافی کے مقابلے شروع ہوئے۔ بچوں اَور نوعمر بچیوں سے جنسی اختلاط میں پاکستانی معاشرہ سب سے آگے نکل گیا۔ مولویوں میں بھی ایسی تعداد پیدا ہو گئی جو قرآن پڑھانے کے بہانے بچیوں کو برائی کے راستے پر لگاتی تھی۔ خبریں کی ایک کالم نویس نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُس کے چھوٹے بھائی کو جو نوعمر لڑکا ہے گھر میں آ کر قرآن پڑھانے والے مولوی صاحب نے برائی کا نشانہ بنانا چاہا اور پتہ چلنے پر سارے گھر والوں نے مولوی کی پٹائی کی لیکن پولیس سے شکایت کے باوجود اُسے چھوڑ دیا گیا۔ جھوٹے پیروں، عاملوں اور نعت خوانوں نے بھی اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قصور میں زینب کیس کا ملزم نعت خواں تھا۔ صرف قصور میں تین سو بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنا کر برسوں ان کے والدین کو بلیک میل کرتے رہے اور اپنی عزت کو بچانے کے لئے غریب لوگ بدمعاشوں کو ہر ماہ رقم دیتے تھے۔ زینب قتل کیس کے بعد میں نے آواری ہوٹل میں ایک سیمینار کیا جس میں دانشور اور پولیس کے متعلقہ افسروں کو دعوت دی گئی نتائج خوفناک تھے کہ زینب کے ملزموں کے باوجود یہ وبا بڑھ رہی ہے۔ سرگودھا میں ملزم پکڑا گیا جو لڑکوں سے بدکاری کی فلمیں بنا کر ناروے کی ویب سائٹ کو معاوضہ لے کر سپلائی کرتا تھا پھر یہ گناہ پھیلنے لگا کبھی چونیاں تو کبھی جنوبی پنجاب کبھی سندھ اور کبھی خیبر پختونخوا۔ ایسے پیر پکڑے گئے جن کے پاس سینکڑوں لڑکیوں کی مخرب الاخلاق ویڈیو موجود تھیں یہ کرائم اب ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔ گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے کھاتے پیتے لوگوں نے لاہور میں ماہوار خرچے پر کتنی داشتائیں رکھی ہوئی ہیں۔ نکاح کے ادارے کے پرخچے اُڑا دیئے گئے۔ لاہور کے اطراف میں بنے ہوئے فارم ہاؤسز اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں واقع بڑے بڑے گھر اجتماعی برائی کے ڈیرے بن گئے۔ کی کلب جیسے اداروں نے جیسے بے راہ روی کے سارے بندھن توڑ دیئے یہاں آپ اپنے ساتھ بیوی یا گرل فرینڈ کو لے کر جاتے ہیں اور کی کلب میں بیٹھ کر دونوں الگ الگ ہو جاتے ہیں اور انہیں ایک چابی ملتی ہے اور کمرے میں کوئی اور ساتھی ان کا منتظر ہوتا ہے۔ مساج گھر کے نام پربرائی کے اڈے چلنے لگے۔ گزشتہ دنوں فیس بک فین کے طور پر ایک لڑکی سامنے آئی جس نے اپنی تصویریں ڈال کر اپنا ٹیلی فون نمبر لکھا تھا اور پیشہ انگریزی میں طوائف گرل تھا۔

سائنسی ترقی کے سارے ذرائع برائی اور بے راہ روی کے وسیلے بن گئے۔ نئی ایجادات ڈارک ویب کے لئے استعمال ہونے لگیں۔ دنیا کے ایک حصے میں آنے والی بدکاری بیس بیس، تیس تیس ملکوں میں آن لائن بدکاری کا ذریعہ بن گئی۔ دنیا کے بے شمار ملکوں میں فور سٹار فائیو سٹار ہوٹلوں میں کمرے میں ٹیلی فون کے ساتھ ایسے کتابچے میسر ہَیں جس میں لڑکیوں کی تصویر، ٹیلی فون نمبر اور ریٹ درج ہیں۔ یہی کام آن لائن بھی میسر ہے۔ دنیا میں ایسے شہر ملک اور معاشرے پیدا ہو گئے جہاں ننگے کلب سے لے کر ننگے رقص تک یوں آسانی سے میسر آ گئے ہیں جیسے چائے پینے کے بعد حرص و ہوا کی تسکین کے لئے بندوبست عام ہے۔ کتنے ملک ہیں جہاں لڑکیاں پڑھنے کے ساتھ اوورٹائم دھندا بھی کرتی ہیں۔ معیار زندگی کی دوڑ نے سارے بندھن توڑ ڈالے اور ستم یہ کہ ہم یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہے انتہا یہ تھی کہ اسلام کے نام پر چلنے والا ملک پاکستان ان این جی اوز کی گرفت میں آ گیا جو کراچی لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر یہ نعرے لے کر نکلنے والی لڑکیاں عام ہو گئیں کہ میں کھانا گرم کروں گی بستر گرم کرنے کے لئے کسی اَور کو لے آؤ، ہم نے یہ سب کچھ دیکھا اور خاموش رہے۔ خاموشی بھی سرنڈر کی مثال تھی۔ اخبارات اور چینلوں میں کتنی بدقسمت لڑکیوں نے دہائی دی کہ اُنہیں مدد، سیاست اور دولت کے نام پر خریدا جا رہا ہے ہم نے مدد کو مذاق بنا دیا۔ کسی لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد نکاح کرنا عام ہو گیا تا کہ قانون کی زد سے بچا جا سکے۔

نہ جانے کب اَور کس جگہ خدا کے قہر کو جوش آیا اور اللہ کا عذاب نازل ہو گیا۔ معلوم نہیں یہ کیا چیز ہے اس کا نام ہم نے اپنی سہولت کے لئے کرونا رکھا۔ کہتے ہیں پہلے پہل چین کے صوبے ووہان میں یہ وباءنازل ہوئی یہاں گندی اور غلیظ چیزیں کھانے کا رواج عام ہے۔ قدرت نے حلال و حرام کی شکل میں پیغمبروں اور معاشروں کو ایک چارٹ دیا کہ کون سا جانور کھانا حلال ہے اور کون سا حرام مگر ہم نے حلال و حرام کی تمیز کھو دی۔ کھانے کے ساتھ ساتھ پینے میں بھی ہم ہرصراط کو پھلانگ گئے آج مسلمان معاشروں میں بھی شراب اور منشیات کی ریل پیل ہے۔ سائنسی ترقی نے نئے نئے نشے ایجاد کئے اللہ رحم کرے کوئی ایک درجن نام سامنے آئے۔ شیشہ حقہ، افیون کی مختلف اصناف، آئس آئی، ہم ہوس کے بندے بن گئے کون سی چیز خواہشات انسانی کو بے راہ روی سے لبریز کرتی ہے ہم نے اس مقابلے میں بھی ہار نہ مانی ہم دنیا کو ہیروئن سپلائی کرنے کی منڈی بن گئے اور نتیجے میں ہماری اپنی قوم منشیات کا شکار ہو گئی۔ پشاور میں باڑہ کو جانے والی سڑک کے دونوں طرف بیٹھے نشئی آپ کو ملک کی ہر گلی اور سڑک پر مل جاتے ہیں۔

اللہ کا قہر ہم پر نازل ہو چکا۔ جو ملک اور معاشرے بدکاری میں سب سے آگے تھے، وہ سب سے زیادہ پکڑ میں ہیں۔ ان کی سائنس فیل ہو گئی۔ ان کے ہسپتال جواب دے گئے ان کے وینٹی لیٹر ختم ہو گئے۔ اب جنگی بنیادوں پر وہاں نئے وینٹی لیٹر بن رہے ہیں مگر مریضوں کی تعداد زیادہ بڑھ رہی ہے۔ بندہ خدا کبھی آسمانی آفت کا دنیاوی فیکٹریوں نے بھی مقابلہ کیا ہے۔ احتیاطی تدابیر بجا لیکن کتنی ہولناک موت ہے کہ جنازہ اور تدفین بھی مشکل ہو گئی کوئی قبر میں بھی میت کو اتارنے کے لئے تیار نہیں جراثیم کش دوا ڈیٹول ناپیدہو گئی، سپرے کم پڑ گئے۔ مریض کے پاس جانا روک دیا گیا قومیں اتحاد سے بنتی ہیں اور اَب مخاطب سے دو گز کے فاصلے پر کھڑے ہونا ضروری ہو گیا۔ کیا یہ بیماری ہَے؟ کیا دوائیں اور انجکشن اس سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں لہٰذا رسول کریم نے بھی وبا کے دور میں احتیاط کی تلقین کی تھی مگر علاج ایک ہی ہے۔ اللہ کے حضور پیش ہونا ہاتھ باندھ کر التجا کرنا اور توبہ کرنا کہ جس نے پیدا کیا تھا جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے اس کے سامنے گڑ گڑانا کہ یا اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ہماری بے راہ روی کو سنبھلنے کا موقع دے ہم بدکاری سے باز آنے کے لئے کان پکڑتے ہیں ہمیں معاف فرما۔ ہماری توبہ قبول فرما۔ ہمارے گناہ معاف فرما۔ ہماری قوم سیدھے راستے پر چلنا چاہتی ہے اسے مہلت دے خدایا کہ وہ سنبھل سکے۔ اپنے گناہوں کی تلافی کر سکے۔ اپنے جرائم پر ہم شرمندہ ہیں میرے آقا تو تو کہتا تھا کہ مجھ سے مانگو میں تمہاری شہ رگ کے قریب ہوں، ہم تیرے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ ہمیں اس وبا سے نجات دلا۔ یہ عذاب بڑھ رہا ہے اسے روک دے میرے مولا اسے روک دے۔

پیارے پڑھنے والے مجھے الفاظ کے بیل بوٹے بنانے نہیں آتے میرے دل میں جو کچھ تھا میں نے آپ سے بیان کر دیا۔ اُٹھیں اور وضو کریں اور اللہ کے سامنے سر بسجود ہو جائیں۔ قرآن میں سے جو کچھ آتا ہے پڑھ لیں۔ جتنا یاد ہے دہرا لیں۔ لااِلٰہ اِلا اَنتَ سُبحَنَکَ اِنّی کُنتُ مِن الظٰلمین۔ یہ آیت کریمہ ہے قرآن کی آیت ہے یہ وہ آیت ہے جو اللہ نے حضرت یونس کو دی جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا اور یہ معجزہ تھا کہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آئے تھے اور اللہ نے انہیں نئی زندگی دی تھی۔ دن میں جس وقت آپ کو موقعہ ملے یہ آیت پڑھتے رہئے درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور کچھ نہ یاد ہو تو نماز کی آیات بار بار دہرایا کریں۔ بار بار اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں۔ استغفراللہ کا ورد جاری رکھیں۔ انسانی جسم سائنسی اعتبار سے اتنی بڑی خدائی ایجاد ہے کہ صرف جو کچھ انسان کے اندر ہے اس کے بارے میں پڑھیں تو خدا یاد آ جاتا ہے۔ میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جتنا جتنا میں انسانی جسم اور اس کے حصوں کے بارے میں غور کرتی ہوں اللہ کی حقانیت پر انسان کا ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ دوا ضرور کھائیں احتیاط ضرور کریں علاج ضرور کروائیں مگر اے اہل ایمان شفا صرف اللہ کی ذات کے اختیار میں ہے وہی انسان کو صحت اور زندگی دیتا ہے اور وہی بیماری اور موت سے ہمکنار کرتا ہے درمیان میں کوئی دوسری چیز نہیں لہٰذا آپ ہیں اور اللہ کی ذات اسی سے مانگئے اس کے سامنے توبہ کیجئے۔ اس کے سامنے استغفار کیجئے وہ شفا دینے والا ہَے وہ آپ کی شہ رگ کے قریب ہَے۔ اسی نے آپ کو بتایا تھا اور وہی دنیاوی زندگی کب ختم ہوئی ہے کا فیصلہ کرنا ہے۔ لہٰذا جو مانگنا ہے اسی سے مانگو۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔