پیارے پڑھنے والے گزشتہ چند روز میں فیس بُک پر پاکستانی خواتین اور نوجوان لڑکوں کے خیالات پڑھنے کا اتفاق ہوا مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ ملکی معاملات کے بارے میں بہت اچھی سوچ رکھتے ہیں اور فیس بک پر ان کی بھاری اکثریت محب وطن اور پاکستانیت کے جذبات رکھتی ہے مجھے معلوم ہے آج کل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے موجودہ آبادی کا کم و بیش 60 فیصد حصہ 15 سے 40 سال تک عمر رکھتا ہے۔ یوں ہماری نئی نسل پر بہت انحصار ہے وہ کیا سوچتی ہے کیا کرنا چاہتی ہے اس پر پاکستان کے مستقبل کا انحصار ہے میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ہر نئی چیز کے خلاف ہوتے ہیں مولوی صاحبان کبھی لاؤڈ سپیکر تک کے خلاف ہوتے تھے جوانی میں میں نے بے شمار ایسے اماموں کے پیچھے نماز پڑھی ہے جو نماز کے وقت لاؤڈ سپیکر بند کروا دیتے تھے۔ لیکن نماز سے پہلے اپنی تقریر کے لئے لاؤڈ سپیکر غیر شرعی تھا پھر بھی استعمال کرتے تھے مگر نماز کے دوران پچھلی صفوں میں اللہ اکبر تک سننے کے لئے امام صاحب اور نمازیوں کے درمیان مکبر حضرات کا استعمال ہوتا تھا کبھی مولوی صاحبان تصویر کے بھی خلاف ہوتے تھے اور اسے ناجائز سمجھتے تھے ٹیلی ویژن آیا تو اسے بھی ممنوع قرار دیا گیا لیکن آج عالم دوسرا ہے آج کے علماءاور مذہبی لوگ ٹیلی ویژن سے اٹھتے ہی نہیں نماز کے دوران بھی لاؤڈ سپیکر کھلا رکھتے ہیں اور محلے والوں کی شکایت پر تقاریر کے وقت حکومت کو ہدایت جاری کرنی پڑی کہ واعظ کی آواز مسجد سے باہر نہ جانے پائے فلموں کا تو نام لینا کبھی گناہ سمجھا جاتا تھا ہم نے خود بچپن میں بڑوں سے ڈانٹ پھٹکار سنی لیکن آج فلم میں کیا دکھایا جاتا ہے اس پر اچھائی اور برائی کا پیمانہ مقرر ہے۔ میں نے خود زندگی میں بہت فلمیں دیکھیں پاکستان ٹیلی ویژن شروع ہوا تو اس زمانہ سے پروگرام کرتا رہا ہوں۔ آج کل بھی ٹی وی چینل۵ پر حالات حاضرہ پر پروگرام "ضیا شاہد کے ساتھ" بھگتاتا ہوں۔ فلمیں اچھی اور مقصدی بھی دیکھیں اور اکثریت لایعنی اور منفی جذبات کو تسکین پہنچانے والی بھی ہمارے فلم سازوں نے تو ایک زمانے میں آدمی، انتظار، نیند، سوال، بھروسا اور گھونگھٹ جیسی زبردست فلمیں بھی بنائیں اور یہ بھی ہم ہی تھے جنہوں نے خطرناک اوربیچارے جٹوں کو بدنام کرنے کے لئے تشدد اور مارپیٹ سے بھرپور جٹ سیریز بھی بنائی حتیٰ کہ موضوعات کی یکسانیت اور جدید موضوعات سے ناواقفیت اور جہالت کے سبب ہماری فلم انڈسٹری ناکام ہوتے ہوتے بالآخر بیٹھ گئی بلکہ لیٹ گئی اسی طرح جس طرح فیس بک پر اور ٹی وی چینل سے آج کے علماءاترتے ہی نہیں اور مباحثوں میں کھل کر حصہ لیتے ہیں اور مذہبی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں فیس بک پر مولانا طارق جمیل بھی سنے جا سکتے ہیں اور مرحومین میں سے ڈاکٹر اسرار احمد آج بھی چھائے ہوئے ہیں اسی طرح فیس بک پر جو ایک نئی ایجاد ہے اس کی مخالفت کرنا جہالت ہو گی بلکہ میرا موضوع توفیس بک پر ہونے والی سیاسی، معاشرتی اور قومی اور عوامی مسائل کی نشاندہی ہے جس میں قدرتی طور پر اس نئی ایجاد میں ہماری نئی نسل ماشاءاللہ آگے آگے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فیس بک کو بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ہو بھی رہا ہے مگر ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت انتہائی مثبت سوچ رکھتی ہے۔
فیس بک کا ایک استعمال بحث و مباحثہ بھی ہے اور فیس بک فرینڈ شپ بھی۔ ان چیزوں میں بھی نہ کوئی اچھائی ہے نہ کوئی برائی اصل مسئلہ استعمال کرنے کا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل اپنی سوچ میں ہمت، جرات، بے خوفی، سچائی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے ہاں فیس بک کا استعمال کسی خبر کی تحقیق کے بغیر محض سنسنی پیدا کرنے کے لئے اسے استعمال کرنا جس کا آسان نام آج کل سوشل میڈیا ہے ایک ناانصافی ہے اور یہ بالکل تیز دھار کی چھری یا اس سے بھی زیادہ تیز دھار والا بلیڈ ہے چھری سے آپ آلو بھی کاٹ سکتے ہیں اور شیطانی جذبات آپ پر سوار ہو جائیں تو اس چھری کو آپ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں ہمارے ہاں تو تیز دھار کی چھری سے گردن بھی کاٹی جاتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرے سے چھری ہی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جائے بلیڈ سے آپ شیو بھی بنا سکتے ہیں اور اسی بلیڈ سے کسی کی جیب بھی کاٹ سکتے ہیں اسی طرح آج کل بالخصوص سماجی دوری کی احتیاط کی تلقین کی جاتی ہے زیادہ میل جول نہیں رہا لہٰذا فیس بک کی ایجاد بھی باہمی رابطے اور باہمی تبادلہ خیال کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے اور اس پر فحش فلمیں اور تصویریں بھی بھیجی جاتی ہیں اگرچہ ہمارے سرکاری آئی ٹی والے انہیں روک لیتے ہیں یا سنسر کر لیتے ہیں لیکن یا لوگ انٹرنیٹ سے بغیر سنسر ہر شے اٹھا لیتے ہیں۔ اب یہ اٹھانے والے پر منحصر ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے بغیر تار کے سکائپ پر لندن سے بیٹھ کر TV پر پروگرام بھی کر سکتے ہیں اور دنیا بھر سے بلیو فلمیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
میں آج یہاں فیس بک پر نوجوانوں کی تعمیری سوچ اور کھلی بحث و مباحثہ کی تعریف کرتا ہوں وہاں میں اس بات کی بھی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری نئی نسل میں سے نوجوان لڑکے لڑکیاں فیس بک دوستی کے لئے اپنی جو تصاویر بھیجتے ہیں وہ زیادہ تر بلکہ بھاری اکثریت سے صاف ستھری اور ہماری سماجی قدروں کے مطابق ہوتی ہے لباس اور پوز کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ مجھے خوشی ہوئی کہ فیس بک دوستی کے لئے موصول ہونے والی اکثر غیر ملکی تصاویر میں تصویروں کا انداز ان کے کلچر کے مطابق ہوتا ہے جسے ہمارے ہاں عریانی اور فحاشی کہا جاتا ہے کھلے گلے اور نیکر یا جانگیے میں غیر ملکی تصاویر عام دیکھی جا سکتی ہیں بعض میں سرے سے گلے یا شرٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب ایک نیا ٹرینڈ یہ چلا ہے کہ جسمانی تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے فحش اور بیہودہ تصاویر چونکہ ہمارا سنسر روک لیتا ہے اس لئے ذہین لوگوں نے اس پابندی سے بچنے کے لئے سکیچ یعنی لکیروں کی مدد سے خاکہ نگاری کو اپنا لیا ہے بلکہ جسمانی تعلق اور انسانی اعضاءکی نمائش بھی فیس بک کے لئے دوستی کے واسطے غیر ممالک کی خواتین اور نوجوان بھی اسی خاکہ نگاری کو بنیاد بناتے ہیں غیر ممالک کے نوجوانوں کی طرف سے دوستی کی فرمائش کرنے والے 95، 90فیصد لوگ بیہودہ تصاویر والی خاتون ہوتی ہیں جو نہ جانے کہیں وجود بھی رکھتی ہیں یا جعلی آئی، ڈی کے تحت یہ کام بھی ہمارے غیر ملکی مرد بھی کرتے ہیں۔ میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جا سکتا کیونکہ اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی لیکن صرف ایک ایسے ہی سکیچ کا حوالہ صرف مثال کے لئے دیتے وقت نقلِ کفر کُفر نباشد سکیچ میں ایک موٹی اور معمر عورت ولگر لباس میں بیٹھی ہے بلکہ شاید بے لباس ہے اور 12، 10 برس کا بچہ اس کی گود میں جھکا ہوا ہے باقی آپ خود سمجھ لیں اور عنوان ہے آنٹی کا دیوانہ۔
اللہ معاف کرے ہماری مشرقی تہذیب اور دینی اقدار میں تو ہم جیسے گنہگار میں بھی خالاؤں، پھوپھیوں اور بھابھیوں کو ماں اوربہن کا درجہ دیا جاتا ہے اور ہمیں اس پر فخر بھی ہے لیکن گزشتہ دنوں جس طرح ہماری پاکستان ہی کی ایک خاتون نے جو بدقسمتی سے میرے اخبار میں کام بھی کر چکی ہیں میرا جسم میری مرضی کی تحریک چلائی تھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں جلوس بھی نکلوائے جن میں جو پوسٹر دکھائے گئے وہ ناقابل بیان تھے یہ امر بھی خوشی کا باعث ہے کہ پاکستانی عورتوں کی بڑی بھاری اکثریت نے ان نعروں کو شدید ناپسند کیا اور مردوں کی بڑی تعداد نے بھی اس پر لعنت پھٹکار کی اس قسم کی تحریکوں کے پیچھے وہ غیر ملکی ذہن کام کر رہا ہوتا ہے جو ہمارے مشرق کی اخلاقیات اور تہذیبی قدروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے "آنٹی کا دیوانہ" قسم کی تصویری مہم بھی ہمارے ہاں لبرل سے لبرل لوگوں میں بھی ماں، بہن، خالہ، پھوپھی کا تقدس جو ہوتا ہے اس کا احترام کیا جاتا ہے جو مغرب کے ان ذہنوں کو پسند نہیں۔
فیس بک دوستی کے لئے میرے خیال میں پاکستانی خواتین جن کا میں بہت احترام کرتا ہوں ان کے خلاف ایک سازش ہے کہ اچانک ہی بنگلہ دیش، جاپان، ملائیشیا، ایران، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے علاوہ مغربی ملکوں سے بے شمار عورتیں فیس بک فرینڈ شپ کے بہانے اپنی جو تصاویر بائیو ڈیٹا بھیج رہی ہیں وہ سنسر شپ کے باوجود اس قابل نہیں اور ایسا کلچر پھیلایا جا رہا ہے جس میں ہماری خواتین کی اکثریت جو باحیا اور محتاط لباس اور صاف ستھری زبان استعمال کرنے والی ہیں اس کے مقابلے میں پاکستانی مردوں کو یہ غیر ملکی لڑکیاں اور عورتیں جو درس دے رہی ہیں ان میں وہ صاف صاف لکھ رہی ہیں کہ انہیں کیا پسند ہے میں معافی چاہتا ہوں کہ محض مثال کے لئے لکھنے پر مجبور ہوں کہ مجھے معلوم ہے اور کتنے واقف کاروں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں اکثر طلاقیں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ غیر ملکی عورتوں کی گفتگو ان کی پوسٹیں دیکھنے کے علاوہ گندی ویڈیو فلمیں دیکھ کر مردوں نے کچھ ایسے تقاضے کرنا شروع کئے۔ جنہیں لبرل سے لبرل پاکستانی خاتون بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی حتیٰ کہ شادی ختم ہو گئی طلاقوں کی اور بھی بڑی وجوہات ہوتی ہیں لیکن فیس بک فرینڈ شپ کے حوالے سے غیر ملکی لڑکیوں کا جو سیلاب آیا ہے جس میں بائیو ڈیٹا کے ساتھ جو تصاویر ویڈیوز کے نمونے اور پیغامات کا جو تبادلہ دکھانے کی پیش کش کی جاتی ہے میں مولویانہ بات نہیں کر رہا بلکہ انتہائی سنجیدگی سے سمجھتا ہوں یہ ہماری محترم پاکستانی خواتین کے خلاف سازش ہے آخر سعودی عرب سمیت ان ملکوں سے صرف خواتین ہی کیوں فیس بک فرینڈ بننا چاہتی ہیں ایسے میٹر کے ساتھ جو ویڈیو فلمیں ہوتی اور جنہیں اکثرسنسر کچھ حصہ کاٹ بھی دیتا ہے ان کا حملہ پاکستانی مردوں پر کیوں ہے جبکہ ہماری خواتین کی 99 فیصد تعداد فیس بک فرینڈ شپ کیلئے بھی صاف ستھری اور سماجی قدروں کے مطابق اپنی تصاویر بھجواتی ہیں لیکن مجھے کئی دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ یار پاکستانی لڑکیوں کو چھوڑو غیر ممالک کی لڑکیوں سے میسجز کے ذریعے رابطہ یا پوسٹ کے ذریعے یا فون یا ویڈیو کال کے ذریعے تعلق عام ہو گیا جیسا کہ ہو رہا ہے تو ہماری پڑھی لکھی اور ماڈرن مشرقی آداب کا خیال کرنے والی عورتوں کے مستقبل کا کیا بنے گا میں اشاروں میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں بجا طور پر اسے اپنی قابل احترام پڑھی لکھی اور معزز خواتین کے مستقبل کے خلاف ایک سازش سمجھتا ہوں کہ پاکستانی مردوں کے ذہنوں کو بالخصوص نوجوان لڑکوں کو اس حد تک "باغی" کر دیا جائے کہ وہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہ رکھیں میں معافی چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ تفصیل میں جانے کی اجازت صحافت ادب اور اخلاق نہیں دیتے حکومت کو چاہئے فوراً فیس بک فرینڈ شپ کے لئے آنے والے غیر ملکی عورتوں کے پیغامات پر کڑی سنسر شپ کرے۔ بیہودہ سکیچ نگاری کا خاتمہ کرے تا کہ ہماری تہذیبی اور انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیوں کا مستقبل داؤ پر نہ لگے میرا خیال ہے میں نے اپنی بات بیان کر دی ہے سمجھنے والے رات کو غیر ملکی لڑکیوں کی تصاویر لباس ویڈیوز پر لائک یا پوسٹ کریں یا مسینجر استعمال کی دعوت دیکھ کر خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کے خاندانی نظام کو اس وقت کتنا شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے برسوں پہلے جب بلیو فلموں کی کیسٹ کی وبا عام ہوئی تو مجھے یاد ہے حکومت نے اس کی انتہا سے تنگ آ کر پولیس کو ویڈیو فلموں کی دکانوں پر چھاپے شروع کرائے تھے اور پھر شہر میں ایسی فلموں کو ضبط کر کے جلایا جاتا تھا پھر ویڈیو کیسٹ زمانہ ختم ہوا اس کی جگہ CD آ گئی پھر انٹرنیٹ آیا جس نے ساری دیواریں توڑ دیں اور ملک کا سنسر منہ دیکھتا رہ گیا اور اب نئی ایجاد فیس بک نے فرینڈ شپ کے بہانے پورا مغرب اور مراکش اور مصر سمیت اسلامک ممالک سمیت کی عورتوں کے ذریعے پاکستان پر جو یلغار شروع کی ہے کیا اس پر ہم خاموش رہیں گے افغانستان، برما اور سری لنکا سے مراکش اور عراق تک اس جنگ میں شامل ہے ویسے کوئی پوچھے ان ممالک کے مردوں کو فیس بک پر پاکستان سے فرینڈ نہیں چاہے یہ غیر ملکی عورتوں کا سیلاب کس لئے شروع ہوا ہے کسی بھی رات کو 2، 4 گھنٹے لائک کریں اور اپنے موبائل ٹیلیفون سے جو میں کہہ رہا ہوں اس کا جائزہ لیں اور پاکستان کی معزز خواتین سے میری درخواست ہے کہ کل کو جب یہاں کے مردوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان غیر ملکی عورتوں کو دیکھ کر بدل گئی تو مستقبل کس کا خطرہ میں ہو گا اس کا فیصلہ ہماری قابل احترام خواتین خود کر سکتی ہیں۔