ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
پاکستان میں جس قسم کی جمہوریت ہے اس میں ووٹر آزاد نہیں اس پر اتنے دباؤ ہیں کہیں جاگیرداری، کہیں نوابی، کہیں زمین داری، کہیں صنعت، کہیں دولت، کہیں قبیلہ، کہیں وڈیرہ شاہی اور ان سب چیزوں کے باوجود میں نے خود الیکشن کی آخری رات اپنی زندگی میں دو بار غریب اور سفید پوش خاندانوں میں نقد پیسے دے کر شناختی کارڈ جمع کرتے دیکھا ہے اس لئے عمران خان صاحب آپ اس جمہوریت کے جتنے جی چاہے گن گا لیں میں اسے حقیقی جمہوریت اس لئے نہیں مانتا کہ ہمارے ہاں ستر فیصد، 80 فیصد ووٹر آزاد نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ضلع میں چند خاندانوں کی حکمرانی ہے۔ وہی بار بار منتخب ہو کر آتے ہیں اور جمہوریت کی آئس کریم کھاتے ہیں۔
پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر یعنی 1947ءسے لے کر 1958ءتک یعنی صرف 10 سال بعد ایوب خان کا مارشل لا لگا اور دس سال تک جاری رہا حتیٰ کہ مغربی پاکستان سے ایوب خان جیت گیا لیکن مشرقی پاکستان سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں۔ ایوب خان کا دور پاکستان کا بہترین دور انتخاب کیا جاتا ہے خوشحالی آئی حالانکہ جمہوریت کی بجائے آمریت تھی۔ زراعت میں ترقی ہوئی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور سے گوجرانوالہ سے شیخوپورہ تک بے شمار صنعتیں قائم ہوئیں۔ ایوب نے تربیلا ڈیم بنوایا جو آج تک بجلی دے رہا ہے اس کے باوجود کہ ووٹ لینے کے لئے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں کے ساتھ سرگرم عمل رہا اور حبیب جالب کے شعر پڑھتا رہا۔ ایوب خان نے بیماری کے بہانے استعفیٰ دیا تو یحییٰ خان نے ان کی جگہ سنبھالی میں نے لاہور میں اپنے ہفت روزہ اخبار کے ٹائٹل کے علاوہ دیواروں پر پوسٹر لگوا دیئے کہ صرف حکومت سے ہٹنا کافی نہیں ایوب خان کو سزائے موت دینی چاہئے یہ دراصل معروف قانون دان ایم انور بارایٹ لاءکی کمپنی کا مشہور جملہ تھا۔ میرے دوست کنور دلشاد جو آج تک گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایوب خانی مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر تھے کہ ایوب خان نے ان سے پوچھا یہ پوسٹر کس نے لگوائے ہیں کنور دلشاد جو بعد میں الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بنے اس نے کہا کہ ایک نوجوان طالب علم ہے جو ساتھ صحافت بھی کرتا ہے۔ ایوب خان کو غصہ آیا۔ انہوں نے کنور دلشاد سے کہا اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ شروع میں میں ڈرا لیکن کنور دلشاد نے مجھے تسلی دی میں ان کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد پہنچا اور اسلام آباد میں چھوٹی سی پہاڑی پر ایوب خان کے گھر میں داخل ہوا یہ واقعہ میں اپنی کتاب میں بھی لکھ چکا ہوں اور کنور دلشاد اس کی تصدیق میں میرے ہی اخبار میں کالم لکھ چکا ہے۔ معیشت کے بارے میں ایوب خان کی باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا مگر میرے ایک سوال پر ایوب خان چپ ہو گئے اور دیر تک خاموش رہے اور بار بار کہتے رہے میں آپ کے ان جمہوریت پسند سیاستدانوں کی طرح غدارِ پاکستان شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا 6 نکات پاکستان کو توڑنے کی سازش تھی اور میں اس میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا تھا مجھے ایوب خان کی باتوں کا ایک ایک لفظ یاد ہے ہماری ملاقات دو گھنٹے سے زیادہ رہی ایوب خان نے کہا کہ آج تم نوجوان بھٹو کے دیوانے ہو رہے ہو یاد رکھنا جب وہ اقتدار چھوڑے گا تو تم اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رو رہے ہو گے۔ سب سے زیادہ تنقید ایوب نے بھٹو صاحب پر یہ کی کہ میں نے جو معیشت بنائی تھی وہ نیشنلائزیشن سے بھٹو تباہ کر دے گا اور ہم پھر آنے والی جگہ پر پہنچ جائیں گے۔
ایوب کے بعد بھٹو آئے اور واقعی ان کے قومیانے سے ساری معیشت تباہ کر دی اور خود بھٹو کی بیٹی اور آج تک کے حکمران ہر دور میں دوبارہ صنعتیں اور ادارے بیچنا چاہتے ہیں ایوب کے دور میں شہری خوشحال تھے کیا ہمیں جمہوریت کو چاٹنا ہے صرف ایک غلطی تھی جس کا ایوب جواب نہیں دے سکا پاکستان کے دو حصے تھے دس سال تک اقتدارا یک ہی حصے میں مرتکز رہنے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک پیدا ہو گئی مگر بھٹو صاحب جس طرح اقتدار سے گئے اس پر پوری کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں بھٹو صاحب کے 5 برسوں کے مقابلے میں ایک بار پھر نام نہاد جمہوریت ختم ہوئی اور دس سال تک جنرل ضیاءالحق حکومت میں رہے ایوب خان کی طرح انہوں نے بھی جمہوریت کے بنیادی ادارے بنائے پاکستان کی معیشت ایک بار پھر بحال ہوئی یہ نیم مارشل لاءکا دوسرا سنہری دور تھا ضیاءالحق کا دور بھی خوشحالی کا دور تھا۔ زراعت ہو یا صنعت، معیشت ہو یا مہنگائی ہر طریقے سے یہ دور بھی مثالی رہا مگر انگریز کی پٹی یعنی جمہوریت ہمیں بھولی نہیں تھی جس کے نام پر برسراقتدار لوگ لوٹ مار کرتے تھے جنرل ضیاءالحق کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ عوام کی بڑی تعداد اس کے ساتھ ہے پھر بینظیر بھٹو دوبارہ جمہوریت لے کر آئی ایک بار نہیں دو بار انہیں موقع ملا لیکن ان کا کوئی دور مثالی نہیں سمجھا جاتا مال روڈ پر کلاسک والے آغا امیر حسین نے سردار فاروق خان لغاری کا طویل انٹرویو کتابی شکل میں چھاپا ہے جس میں بہت سے واقعات درج ہیں کہ زرداری صاحب کس طرح بینظیر بی بی سے معاشی بدحالی کے راستے پر باقاعدہ کچھ دے دلا کر بڑی تقرریاں کرواتے تھے پھر نوازشریف دوبارہ آئے اس دور کو بھی مثالی نہیں کہا جا سکتا لیکن جنرل پرویز مشرف کے 8 سال تو معیشت کے اعتبار سے مثالی تھے ہر طریقے سے جانچ لیجئے اعداد و شمار دیکھ لیجئے ایوب کے 10 ضیاءالحق 10 اور پرویز مشرف کے 8 سال لٹیرا شاہی کی جمہوریت سے نسبتاً بہتر تھے عام لوگ بھی خوشحال تھے اور کوئی بڑی مشکل بھی پیدا نہیں ہوئی۔
میں جمہوریت کا مخالف نہیں ہمارے ملک کی وڈیرہ شاہی کی دولت کے بل پر شناختی کارڈ کے بل پر خریدی جانے والی جمہوریت کے خلاف ہوں صرف آخری الیکشن میں فوج نے رگڑا دیا اور شناختی کارڈ نہیں چلنے دیئے اس لئے وڈیرے ہوں یا پٹواری دھڑا دھڑ ہار گئے۔
آج ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کی واہ واہ ہو رہی ہے۔ عمران خان حکمران ہے لیکن جو کرنا چاہتا ہے کر نہیں پاتا نظام ایسا ہے کہ وہ مجبور محض ہے۔ اس لئے میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جمہوریت کوئی کستوری نہیں یورپ اور امریکہ میں جمہوریت میں صنعتی پیداوار سامنے لائی جب عام آدمی کو برابر کے حقوق ملے لیکن کیا برطانیہ اور امریکہ میں بھی پارٹیاں دولت مندوں سے چندہ نہیں بٹورتیں اور ظاہر ہے کہ جن سے چندہ لیا جاتا ہو گا حکومت ملتے ہی ان کی جھولی بھی بھرنا ہوتی ہو گی۔
اسلام مکمل دین ہے لیکن جمہوریت اتنی آفاقی چیز ہوتی تو اس کے لئے اسلام کوئی نظام ضرور وضع کرتا۔ نہیں جناب اسلام وہ نظام لے کر آیا جس میں واقعی زکوٰة لینے والا نہیں ملتا تھا اور عرب کے بدوؤں نے روم اور فارس کے شہنشاہوں کو شکست فاش دی اسلام جو وضو کرنے کا طریقہ بتلاتا ہے کیا وہ سیاسی نظام وضع کرنے کے ناقابل تھا نہیں جناب اسلام نے صرف مشاورت کے اصول قائم کئے تھے اور اصل حاکمیت خدا کے وضع کردہ اصولوں کی رکھی تھی یاد رہے اسلامی مشاورت میں آپ کسی عہدے کے لئے کھڑے نہیں ہو سکتے آج کل مولوی صاحبان کو مطمئن کرنے کے لئے مغربی جمہوریت کے ساتھ جو مرد کی مرد سے شادی کو بھی جائز قرار دیتا ہے اسلام کا لفظی تڑکہ لگا کر 1973ءکا آئین بنایا گیا ہے اور کیا واقعی اس ملک میں اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں یہ سارا نظام باطل کن خطوط پر چل رہا ہے۔ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کی کوئی ویلیو ہے اور کیا اس کی سنی جاتی ہے کیا نظام انصاف صرف بڑوں کو انصاف مہیا نہیں کرتا جو زیادہ فیس دے کیا آپ کو پتہ ہے کہ آج کل بڑے وکیل کی فیس کتنی ہے اور سارا میڈیا کس طرح پیسے والوں کے حق میں منہ پھیر لیتا ہے۔ میں نے ایک بار ایس ایم ظفر کی کتاب ڈکٹیٹر شپ کے بارے میں مولانا ظفر احمد انصاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسلام میں خروج یعنی حکمران سے بغاوت کب جائز ہے اور انہوں نے کہا صرف اس وقت جب حکمران نماز پڑھنا چھوڑ دے اور اسلام کے اصولوں سے روگردانی کرنے لگے۔ بلوچستان کے وڈیروں، مساجد کے علماءملک بھر میں پھیلے ہوئے گدی نشینوں پر براجمان پیر صاحبان، زمیندار، جاگیردار، صنعت کار، کرپٹ بیورو کریٹ کے سوا کیا موجود نام نہاد جمہوریت میں کوئی مائی کا لعل حلقہ سیٹ جیت سکتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے کیوں نہ ہو وہاں بھی جہانگیر ترین کامیاب ہوتا ہے اور علیم خان کے ڈنکے بجتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس واقعہ کا علم ہے کہ جب جہانگیر ترین کے طیارے پر عمران خان اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھا تو تو کسی نے جہانگیر ترین سے پوچھا آپ نے تو خان صاحب کو قریب سے دیکھا ہے اگر آپ کا بھی کوئی مسئلہ ان کے قابو میں آ گیا اور وہ حکمران ہوئے تو کیا آپ کو کچھ نہیں کہیں گے جہانگیر ترین بولے جتنا میں عمران خان کو جانتا ہوں اگر کبھی واقعی میں اس کی پکڑ میں آ گیا تو وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔
بس یہی میری آخری اُمید ہے یہ کام عمران خان نے کر لیا تو رسول پاک کے قول مبارکہ کے مطابق ہم تباہ ہونے سے بچ جائیں گے کہ حضور پاک نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا حالانکہ وہ تو خاتون جنت ہیں اور یہ بات تو رسول پاک نے مثال دیتے ہوئے کہی تھی لہٰذا جمہوریت کا بھی ڈھانچہ پسند ہے تو اول تو پارٹیوں کو شناختی کارڈ نہ خریدنے دیں دوم پیروں کو، مولویوں کو، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، نوابوں، صنعت کاروں اور دولت والوں کو جمہوری نظام میں داخل نہ ہونے دیں بڑے بڑے جلسے اور بھاری اخراجات کی بجائے ٹیلی ویژن پر سب امیدواران کے مابین مباحثے کروا لیں ایسی اسمبلی آ جائے جو پیسے کے اثرورسوخ سے آزاد ہو تو شاید ہم مدینے کی ریاست کی طرف چند قدم بڑھا سکیں موجودہ جمہوریت تو لوٹ مار کرنے والوں کا گروہ ہے جو پیسے لگاتی ہے اور پھر غیر ملکی قرضوں سے ایسے منصوبے بناتی ہے جس سے پیسہ کمایا جا سکے اور پوری دنیا میں پاکستانی امیر ہیں اور پاکستان کے اندر عام پاکستانی غریب ہے۔