آج سے ہزاروں برس قبل شہروں کا وجود نہیں تھا، ساری دنیا جنگل تھی۔ ہمارے آباؤاجداد معصوم وحشی انسان تھے، مگر اچھی بات یہ تھی کہ ملکر شکار کرتے، ملکر مچھلی پکڑتے اور ملکر پھل توڑتے اور پھر ملکر بانٹ لیتے۔ کینسر ہیپاٹائٹس، چیچک اوردیگر مہلک بیماریوں کا وجود نہیں تھا۔
آج اس مہذب اور ترقی یافتہ سماج میں روزانہ صرف بھوک سے 75ہزار انسان جان سے جاتے ہیں اور چند لوگ دنیا کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بلوانوں نے اپنے اسلحے کے زور سے کروڑوں انسانوں کو قتل کر کے ان کے وسائل پر قبضہ جما کر مہذب اور ترقی یافتہ بن گئے۔ آج بھی ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ساڑھے چارکروڑ لوگ غیر انسانی حالت میں رہتے ہیں، لیکن وہ امراض قلب، ایڈز، امراض گردہ اور امراض تنفس سے محفوظ ہیں۔
ان کے سماج میں سب سے برا کام یا یوں کہہ لیں کہ جرم ہے کہ کوئی کسی کی مدد کرنے سے انکارکر دے۔ آلودگی کی متعدد وجوہات میں سے صنعتی، معدنیاتی، پلاسٹک، کچروں، انسانی اور جانوروں کے فضلوں، فضا میں کاربن کی بھرمار، آکسیجن کی کمی، برف کی چوٹیوں کا پگھلنا، سمندرکی سطح زمین کی جانب بڑھنا، عالمی طور پہ حرارت میں اضافہ، تیزابی بارش، سیلاب اور طوفان وغیرہ شامل ہے۔ صنعتی دھوئیں کے باعث اوزون کی سطح میں سوراخ ہورہے ہیں یہ سب کچھ انسانیت کے لیے انتہائی ہیبت ناک ہے۔ اس میں سب سے زیادہ صنعتی آلودگی ریاست ہائے متحدہ امریکا پیدا کر رہا ہے۔ دوسری آلودگی ایٹمی ہے۔ بھارت، بھوپال اور روس، چرنوبل میں ایٹمی پلانٹ میں لیکیج کی وجہ سے کتنی جانیں ضایع ہوئیں، ہیروشیما، ناگاساکی اور ویتنام میں آج بھی اپنے عضو سے مفلوج بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
اس وقت امریکا، روس، چین، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، پاکستان اور ہندوستان ہزاروں ایٹم بم لیے بیٹھے ہیں۔ صرف امریکا اور روس کے پاس ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جس سے اس کرہ ارض کو سیکڑوں بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف دو عالمی جنگوں میں پانچ کروڑ انسان جان سے جاتے رہے۔ کروڑوں ہیکٹر زمین پیداوار سے بانجھ ہوگئیں۔ کروڑوں انسان غذائی قلت سے تڑپ تڑپ کر اور بلک بلک کر مرگئے۔
یہ ہے ترقی یافتہ سائنسی ترقی اور تیکنیکی ترقی کے ثمرات۔ ویتنام، کمبوڈیا، لاؤس، کوریا، جنوبی افریقہ، انگولا، زمباوے، نومیبیا، موزمبیق اور انڈونیشیا میں عالمی سامراج نے کروڑوں انسانوں کو قتل کرتے ہوئے عالمی ماحولیات کی تباہی میں بے حد اضافہ کیا اور آج شام، عراق، یمن، کشمیر اور افغانستان میں تباہی مچائی ہوئی ہے، اس لیے آلودگی کو روکنے کے لیے سب سے پہلے اسلحے کی پیداوار پر پابندی لگنی چاہیے۔ معدنیات، گیس اورکوئلہ کو پگھلانے، ہیئت کو تبدیل کرنے اورکوئلے کی توانائی حاصل کرنے کے لیے کاربن سے فضا آلودہ ہوتی ہے۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا جو معدنیات کی ہیت کو نہ بدلنے سے متعدد مہلک بیماریوں سے محفوظ تھا وہ آج نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ بیماریوں اور قحط کا شکار ہے۔
اس طوفان بدتمیزی میں بھوٹان کی فضا کاربن سے پاک ہے، جب کہ چین میں کوئلے کے کاربن سے تیزابی بارش ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کی آلودگی چین اور پاکستان میں ہے جب کہ پلاسٹک کی آلودگی سب سے کم ہالینڈ اورہندوستان میں ہے۔ ہالینڈ نے کاربن سے پاک آلودگی کا اعلان کردیا ہے اور ہندوستان 2022 میں اعلان کرے گا۔ ہرسال ایک بلین میٹرک ٹن پلاسٹک سمندر میںجا گرتا ہے اور ہر روز اس میں دس ہزار ٹن کا اضا فہ ہو رہا ہے۔ دسیوں ہزار سال بعد پلاسٹک تحلیل ہوتا ہے وہ بھی ذرات کی شکل میں مچھلیوں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور پھر انسان مچھلیوں کوکھا کر خود بیمار ہو جاتا ہے۔ ایک انسان کے لیے سات درختوں کی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ آکسیجن نیم کے درخت چھوڑا کرتے ہیں اور ناریل کے پتے فضا کی آلودگی کو جذب کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ ہر ملک میں اپنے رقبے کے لحاظ سے کم ازکم 25 فیصد جنگلات ہونا لازمی ہے۔ سورینام میں 97فیصد، برازیل میں 90 فیصد، مڈا گاسکر میں 60 فیصد، کوریا میں 69 فیصد، امریکا میں 40 فیصد، ہندوستان میں 20 فیصد، بنگلہ دیش میں 16فیصد، یورپ اور لاطینی امریکا کے بیشتر ملکوں میں 33فیصد سے زیادہ یہاں تک کہ جنوبی اور مشرقی افریقہ میں 22 سے 34 فیصد جنگلات ہیں جب کہ پاکستان میں صرف 2.5فیصد جنگلات ہیں۔ اس سال کراچی میں مویشی منڈی میں منڈی کو سجانے کی خاطر 450 نیم کے درخت کاٹے گئے۔
روسو نے درست کہا تھا کہ" دنیا کو جنگل سے بھر دوکوئی بیمار ہوگا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا "وہ تو اجناس کی پیداوارکے بھی خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دنیا جنگلات سے بھر دیے جائیں گے تو دریاؤں میں مچھلیوں کی بھرمار ہوگی، ہر سو پرندے نظر آئیں گے۔ جانوروں سے جنگل بھرا ہوا ہوگا۔ علاج معالجے کے لیے جنگلات کی جڑی بوٹیوں سے جنگلات لدے ہونگے۔ نہ شفاف پانی کی کمی ہوگی، ملاوٹ سے پاک غذا، نہ کیمیکل کھاد اور نہ پیسٹی سائیڈ اور نہ تیزابی بارش اور کاربن کی آلودگی بھی نہیں ہوگی۔
ہوائی جہاز اور ریل گاڑیوں کے دھوؤں سے دنیا کی فضا آلودگی سے پاک ہوجائے گی پھر ہر جگہ شفاف آکسیجن ملے گی۔ تھرڈ ورلڈ میں توکچرے، سیوریج کے فضلے اورگندے نالوں کی صفائی، غذائی ملاوٹ، دودھ، تیل اور پانی کی ملاوٹ کو شفاف بنانا ہوگا۔ سب سے پہلے صنعتی آلودگی، کوئلے کی آلودگی اور پلاسٹک کی آلودگی کو تو فوری طور پر روکنا ہو گا ور نہ دنیا تباہی کی جانب جائے گی۔ پاکستان میں ہرگلی، ہر چوک، ہرگھر، ہر سڑک، ہر بس اسٹاپ اور ہر اسٹیشن پر درخت لگانا ہوگا بلکہ جو اپنے گھر پرکم از کم ایک درخت نہیں لگائے گا خواہ وہ گملے میں ہی کیوں نہ ہو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے۔ حکومت سارے بجٹ کوکم کرکے درخت لگانے کے بجٹ میں اضافہ کرے۔ درخت کاٹنے والے کوکم ازکم چھ ماہ کی قیدکی سزا دی جائے۔
ماحولیات کو بگاڑنے میں بنیادی کردار عالمی سرمایہ داری کا ہے، اس لیے کہ وہ منافع کی ہوس میں دنیا کو تباہ کرنے میں ذرا سا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اس لیے اس سرمایہ داری کی منافع خور سماج کو یکسر انقلاب کے ذریعے بدلنا ہوگا اور وہ بھی انارکوکمیونزم کے سماج کے قیام کے ذریعے۔ مگر سماج کی مکمل تبدیلی سے قبل مندرجہ بالا تجاویز پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا کو بچایا جاسکتا ہے، ورنہ یہ دنیا بہت جلد جہنم میں بدل جائے گی۔