دنیا کی 40 فیصد غربت برصغیر میں پلتی ہے۔ برصغیرکی تقسیم در تقسیم میں 60 لاکھ انسان جان سے جاتے رہے۔ خاص کر1947اور1971میں۔ مگر ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کے قتل ہونے کے باوجود افلاس، غربت، بھوک، خودکشیاں، جہالت، بے روزگاری، بیماری اور مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے زچگی کے دوران ساڑھے چار سو خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ ریڈ ہیموگلوبین کی کمی (غذائی قلت ) ہوتی ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 34 کروڑ اور پا کستان میں ساڑھے چارکروڑ لوگ بیروزگار ہیں۔ ان دونوں ملکوں کی 80 فیصد آبادی کے لیے سینٹری کا معقول انتظام نہیں ہے۔ یہاں 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بیشتر لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے درکار کیلوریزکی ایک چوتھائی کیلوریز بھی نصیب نہیں۔ ہزاروں مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر۔ صرف دمے کے امراض میں ہندوستان میں روزانہ دس ہزار انسان اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
پاکستان میں ہر ماہ سو سے زیادہ بچے غذائی قلت اور عدم علاج ومعالجے کی وجہ سے جان سے جاتے ہیں۔ روزانہ پاکستان میں کم ازکم دس بچے اور ہندوستان میں سو بچے اور بچیاں ہوس کا شکار ہوکر قتل کردیے جاتے ہیں۔ برصغیر میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سب سے زیادہ دہلی میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کاروکاری، غیرت، ونی، اغوا، تبدیلی مذہب اورکم عمری کی شادی عام ہے۔ غذائی قلت، بچوں کی بیماریاں، قلت آب، جہالت، راجستھان اور سندھ میں یکساں ہیں۔
بد ترین سماجی، معاشی اور معاشرتی صورتحال کے باوجود دونوں ممالک کھربوں روپے کا اسلحہ کی پیداوار اور تجارت کرتے ہیں۔ غربت اور افلاس میں ہم یوم آزادی مناتے ہیں۔ اب بھلا یہ بات کیا غور طلب نہیں ہے کہ ہم "جشن آزادی" کس بات کی مناتے ہیں؟ بے روزگاری کی، مہنگائی کی، بھوک کی، افلاس کی، یا جہالت کی۔ کراچی کو لے لیں کہ نالوں اور ٹرانسپورٹ کی جو بد ترین صورتحال ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ شاید پاکستان بننے کے بعد سے نالوں کی صفائی ہی نہیں ہوئی۔ نالے کے گندے پانی، کیچڑ اورکچروں سے میتھائن گیس کی تعفن سے پورا شہر بد بو دار ہوگیا ہے۔
آکسیجن کی کمی، سانس کی بیماریاں اور پینے کے پانی میں گندے پانی کی ملاوٹ سے پیٹ کی بیماریاں عروج پہ ہیں۔ پلوں، باغوں، سڑکوں، عمارتوں اور رنگ وروغن پر ہم اربوں روپے خرچ کرتے ہیں، ان کی بھی ضرورت ہے مگر سب سے پہلے نالے کی صفائی کی ضرورت ہے۔ ابھی چودہ اگست کو آزادی کا دن منانے کے بہانے چند دنوں سے وفاق نے نالوں کی صفائی شروع کردی ہے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ نالے صاف کرکے چھوڑیں گے۔ کرلیں تو اچھی بات ہے، مگر ایسے نعرے تہتر سال سے سنتے آ رہے ہیں۔
سرکاری دفاتر اور پوش علاقوں میں پھولوں کے باغات نظر آتے ہیں اور اس میں لاکھوں گیلن پانی بھی استعمال ہوتا ہے، مگر محنت کش بستیوں میں لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں۔ یہ تو ایسا ہی مثال ہے کہ مہینوں سے نہایا نہیں اور میک اپ کیے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے کام چھوڑکر ندی، نالوں کی صفائی ہونی چاہیے اور یہ کام کرنے میں دنوں نہیں بلکہ مہینوں کی ضرورت ہے۔
اب ایک نظرکراچی کی ٹرانسپورٹ پر۔ کراچی میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹ کا نظام بحال نہ ہوسکا۔ سڑک پر اگر دو سوکاریں اور دو ہزار موٹر سائیکلیں گزرتی ہیں تو آپ کوکوچیں، منی بسیں اور بسیں صرف ایک ہی نظر آئے گی۔ اب بھلا بتائیںکہ ڈھائی کروڑکی آبادی والے شہر جس کی آبادی روزانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے تو پھر محنت کشوں کے شہر میں محنت کش کیسے سفرکریں گے اورکرایہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
یہاں مختلف حکومتیں کبھی اومنی، کبھی کے ٹی سی، کبھی فیئٹ، کبھی ایئرکنڈیشن کوچیں اورکبھی گرین بسوں کا اعلان کرتی رہتی ہیں اور چند دنوں کے لیے کچھ بسیں سڑکوں پہ آبھی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر۔ بڑے شہروں لندن، نیویارک، دلی، ڈھاکہ، جکارتہ، تہران، کلکتہ وغیرہ میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی ہیں۔
کراچی شہر میں ایک ہزار ڈبل ڈیکر بسیں چلائی جائیں تو ایک چوتھائی بھیڑکم ہوجائے گی۔ اسی طرح سے ٹرام گاڑی بھی چلائی جاسکتی ہیں۔ کراچی شہرکا رقبہ نو لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ یہاں کورنگی کراسنگ سے لانڈھی 89 تک۔ نرسری سے ملیر ہالٹ تک، ٹاور سے مزار قائد تک، چیل چوک لیاری سے لی مارکیٹ تا ڈینسو ہال تک، گلستان جوہر، گلشن اقبال، نیوکراچی سے سہراب گوٹھ تک وغیرہ میں ٹرام ٹرین باآسانی چلائی جا سکتی ہے۔ اس میں روزانہ لاکھوں لوگ سفرکرسکتے ہیں۔
سرکلر ٹرین کو اگر چالوکردیا جائے توکراچی کا آدھا رش کم ہو جائے گا، مگر ٹرانسپورٹ مافیا ان سب معاملات میں حائل ہے۔ پہلے سندھ حکومت، وفاقی حکومت سے سرکلر ٹرین چلانے کا مطالبہ کر رہی تھی اور اب وفاق نے کچھ کام شروع کیا ہے تو سندھ حکومت نے اسے مسترد کردیا۔ مسئلہ سیدھا سا ہے کہ جن اسٹیشنوں پر کچھ مکین قابض ہیں انھیں فوری طور پہ لیاری ایکسپریس کی طرح متبادل مکانات الاٹ کیے جائیں اور اسٹیشنوں کو خالی کروا کر سرکلر ٹرین کو فعال کیا جائے۔
وفاقی حکومت کہتی ہے کہ سرکلر ٹرین کی انکروچ منٹ کا بیشتر حصے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جب کہ سندھ حکومت اس کے برعکس اعلان کیا ہے کہ ستائس اسٹیشنوں پر لوگ قابض ہیں، ہم انھیں خالی نہیں کراسکتے۔ توکیا وفاق اور سندھ حکومت ہزاروں ایکڑ زمین ایک بلڈر کے حوالے کرسکتی ہے لیکن اسٹیشنوں پر قابض چند سو مکینوں کو متبادل مکانات نہیں دے سکتی ہے؟ ضرور دے سکتی ہے اور ریلوے سر کلر ٹرین رواں دواں بھی ہوسکتی ہے مگر اس کی راہ میں ٹرانسپورٹ مافیا، آئل مافیا اور ایمپورٹرز آڑے آ رہے ہیں۔
سرکلر ٹرین چلنے سے تیل (ایندھن) کے تاجروں، کاروں کے ایمپورٹرز، گاڑی بنانے والے سامراجی ممالک، ان سب کی لوٹ میں کمی آئے گی۔ اس لیے یہ کبھی وفاق اورکبھی سندھ حکومت کے ذریعے بہانے بنوا کر اس عمل میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، غیر ریاستی، انارکوکمیونزم میں ہی ممکن ہے، مگر اس سے قبل اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مندرجہ بالا تجاویز پر عمل درآمد کرنے سے ایک حد تک مسائل حل ہوسکتے ہیں۔