وطن عزیز میں حادثات وسانحات کا ایک تسلسل ہے، جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔ قدرتی آفات پر توکسی کا زور نہیں چلتا، مگر مالی وجانی نقصانات میں کمی کرنے کی کوشش توکی جاسکتی ہے۔
حال ہی میں ایک درد ناک سانحہ ڈیگاری، کوئٹہ میں پیش آیا، کوئلے کی کان میں پھنسنے والے مزدوروں میں سے نوکی لاشیں جب کہ ایک کو زندہ نکال لیا گیا جس کی حالت تشویش ناک ہے۔ چند روز قبل دس مزدور زہریلی گیس بھرجانے سے 4500 فٹ گہری کان میں پھنس گئے تھے۔ مائنز حکام کے مطابق کوئلے کی کان کی گہرائی ہزاروں فٹ ہے۔
محنت کشوں کو نکالنے میں امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ حادثے کے خلاف مزدور سراپا احتجاج بن گئے۔ حادثے کی تحقیقات کرانے اور ذمے داران کوگرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ حکام کے مزدوروں سے مذاکرات ہوئے اور ان کے مطالبات پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کیا، مگر شاید اس بار بھی ماضی کی طرح وعدے وفا نہ ہوسکیں۔ بلوچستان کے اندر کوئلے کی کانیں بہت گہری ہوتی ہیں جن میں میتھین گیس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس گیس کی موجودگی میں برقی آلات کے استعمال کی وجہ سے اسپارک سے دھماکے ہوتے ہیں۔ جوکہ ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
مائینز سیفٹی ایکٹ 1923 کے نفاذ کی عدم موجودگی میں سیفٹی تدابیر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس ایکٹ کے تحت جہاں پر محنت کشوں کو کانوں کے اندر حفاظتی تدابیر کے آلات مہیا کیے جانے ضروری ہیں۔ کانوں کے حادثات تو تب سے جاری ہیں جب سے مزدورکوئلہ نکالنے لگے ہیں۔ جب کوئی سانحہ پیش آتا ہے توکسی کا بھائی، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا کان کے اندر ہزاروں فٹ گہرائی میں دم توڑ دیتا ہے جب کہ اس کے رشتے دار اورساتھی باہرکھڑے ہوکر احتجاجی نعرے لگاتے رہتے ہیں۔
بلوچستان کے کان کن ہو یا لاکھڑا کوئل مائنز ہو یہاں زیادہ تر شانگلہ کے ہی مزدورہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں کے دولت مند تو پھلوں کے باغات کے مالک ہوتے ہیں اور یہاں مل، کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے یہ مزدور دور درازعلاقے میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کان کے مالکان بھی دورکے مزدوروں کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے کہ وہ غربت اور افلاس کے مارے کم دہاڑی پر مزدوری کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔
مائنز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کوئلے کی کانوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جس سے بلا واسطہ ایک لاکھ سے زیادہ کان کن وابستہ ہیں۔ ان کانوں میں ہونے والے حادثات کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں کان کن ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ ان حادثات کو دیکھا جائے تو 2018 بلوچستان میں کان کنوں کے لیے سب سے مہلک ثابت ہوا۔
بلوچستان، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 0.217 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں (پاکستان کے کل ذخائر کے ایک فیصد سے کم)۔ اس کے باوجود پاکستان میں کوئلے کی کل سالانہ پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ ہے کوئلے کی کانوں میں اکثروبیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے تین مختلف حادثات میں 8 کان کن اور 011 2ء میں ایک کان کے اندر ہونے والے گیس کے دھماکے میں 50 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چار سالوں میں کان کے اندر گیس بھرنے اور دیگر وجوہات کے باعث دو درجن سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 48 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اکثرکوئلہ کانوں میں تازہ ہوا کے اندر آنے، کان کے دھماکہ ہونے یا آگ لگنے یا دیگر ہنگامی صورتحال میں متبادل راستہ نہیں ہوتا جو حادثات کی اہم وجوہات ہیں۔
اب کچھ ذکر ہوجائے محکمہ ریلوے کا، گزشتہ دس ماہ میں 80 سے زائد حادثات رونما ہوئے ہیں۔ ان حادثات میں مسافر اور ریلوے کے مزدور دونوں جان سے جاتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک حادثہ پیش آئے تو آیندہ کے لیے ہوشیار ہوجائیں۔ یہاں تو کسی کوکوئی پرواہ ہی نہیں، لوگ مر رہے ہیں مگر ریلوے کے وزیر کو کچھ احساس نہیں۔ ریلوے ٹر یک، سگنلز، جدید آلات اور ترجیحات کی غفلت کی وجہ سے یہ حادثات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا، ٹرینیں وقت پہ چلتی تھیں، کرایوں میں اس قدر اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور ٹرین کی بوگیوں کی مرمت بھی کی گئی تھی، نئے انجن بھی درآمد کیے گئے تھے۔ پاکستان ریلوے کے مزدور رہنما منظور احمد رضی کے مطابق اب ٹرینوں کے کرایوں میں خاصا اضافہ کردیا گیا ہے، تنخواہیں صرف اعلیٰ افسروں کی بڑھائی گئی ہیں، عام مزدوروں، پھاٹک والا، ٹریک پرکام کرنے والے، بتی کی دیکھ بھال کرنے والے، کلرکوں، ڈرائیوروں، الیکٹریشنز وغیرہ کے مزدوروں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
پہلے ریلوے کے ڈیڑھ لاکھ مزدور ہوا کرتے تھے اوراب پچاسی ہزار رہ گئے ہیں۔ نئی ٹرینوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے، وہ ناکافی ہے، صرف چار پانچ بوگیاں لگائی گئی ہیں جب کہ پندرہ بیس بوگیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت پر ٹرینیں نہ روانہ ہوتی ہیں اور نہ منزل مقصود پر پہنچتی ہیں۔ اس لیے ان پے در پے ریلوے کے حادثات سے بچنے کے لیے ریلوے کے موجودہ وزیرکو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
اب رہی بات بچوں اورخواتین کے اغوا، ریپ اور قتل کے واقعات۔ کوئی ایسا دن نہیں گذرتا کہ بچے( لڑکے اور لڑکیاں)اورعورتیں اغوا یا زیادتی کا شکار اور قتل نہ کی جاتی ہوں۔ اب تو زیادہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں، اس لیے کہ ٹی وی چینلز پر آئے دن ان کی فوٹیجز اور خبریں بھی دکھائی جاتی ہیں، مگر یہ افسوس ناک واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ہماری سیکیورٹی کے شعبے آج تک ان سانحات کو روکنے میں نا کام رہے ہیں۔
نوکر شاہی، ممبران اسمبلی، وزراء، مل مالکان، کانوں کے مالکان اورجاگیرداروں کو تو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، لیکن ان معصوم بچوں اور خواتین کی کیا سیکیورٹی ہے؟ خواتین پر تشدد، بچوں کے ساتھ زیادتیاں اور قتل جرم ہے، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، کچھ کو سزا بھی ہوجاتی ہے مگر یہ واقعات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجوہات کو دریافت کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد کروانا ہوگا۔ سیکیورٹی پر ہم اربوں رو پے خرچ کرتے ہیں مگر سیکیورٹی نہیں ہوتی۔ پھر یہ ادارے اور سیکورٹی کس کام کے۔ قتل اور زیادتی کے شکار ہونے والے بھی محنت کشوں کے بچے اور خواتین ہوتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ مردوں کے غلبے والا معاشرہ تو ہے ہی مگر یہاں بھی طبقاتی مسئلہ ہے۔ صاحب جائیداد طبقات کے بچے اور خواتین بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتی ہیں جب کہ محنت کشوں کے بچے اور خواتین پیدل یا بسوں میں سفرکرتی ہیں۔ بقول جون ایلیا۔
" یہ لڑکی بہت خوبصورت ہو تی / اگر فاقہ کش نہ ہوتی"۔ دنیا بھر میں تضادات قومی ہے اور نہ مذہبی۔ تضادات ہیں طبقاتی۔ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں پرگھریلو تشدد زیادہ ہوتا ہے۔ مرضی کی شا دی کرنے پرپورا گھر خلاف ہوجاتا ہے۔ اگر لڑکی کسی لڑکے ساتھ دیکھ لی جائے تو قیامت آجاتی ہے۔ کاروکاری کے فیصلوں کے نتیجے میں بھی زیادہ تر لڑکیاں ہی قتل کردی جاتی ہیں۔ طلاق دیکر خواتین کوگھر اور سماج سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔
اپنے مطالبات منوانے کے لیے چیف منسٹر ہاؤس سندھ کی جانب مارچ کرنے والی نرسوں پر لاٹھی چارج کیا گیا، واٹرکینن کا استعمال کیا گیا اور اب تک درجنوں نرسوں کوگرفتار بھی کیا گیا لیکن نرسز اپنے حقوق کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ تمام مسائل بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ کوئلے کی کانوں کو کانکنوں کے حوالے کردیا جائے، ریلوے کو ریل کے مزدوروں کے حوالے کردیا جائے اورخواتین کے مسائل کو خواتین کے حوالے کردیا جائے یہی فطرت کے قوانین ہیں، ان کے لیے محنت کش لڑتے ہیں۔
آج ایسا نہ کرنے سے دنیا بھر میں عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ روس اور چین میں بھی مل، کارخانوں کو مزدوروں کے حوالے نہ کرنے سے اور زمین زرعی کمیونٹی کے حوالے نہ کرنے سے ہی انقلاب ناکام ہوگیا ہے۔