کسی انسان کے پاس اگر زیادہ پیسے ہوں تو وہ پھول کا گملہ بھی خریدے گا، اگرکم پیسے ہوں تو پہلے رو ٹی خریدے گا، یہی صورتحال ملک کی بھی ہے۔ جہاں لو گوں کو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں وہ کہاں سے منرل واٹر خریدیں گے۔ عام آدمی کی کل ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے بھی نہیں ہے۔
اربوں کھربوں روپے اسلحے کی پیداوار پر خرچ کرنے کی بجائے ملک بھر کے لوگوں کو جراثیم سے پاک، صاف اور شفاف پانی سب سے پہلے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اگر بم بنانا چھوڑدیں تو سمندری پانی کی ڈی سیلی نیشن کر کے پینے کا پانی، کھاد اور میتھائن گیس کی پیداوارکر سکتے ہیں۔ اسرائیل پینے کا بیشتر پانی گٹر کے پانی کی واٹر ٹریٹمنٹ کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ سعودی عرب پینے کا پانی سمندری پانی کی ڈی سیلی نیشن کر کے حاصل کرتا ہے۔
پاکستان میں جہاں پچاس فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے سے بیمار ہوتے ہیں، جب کہ ایک میزائل بنانے میں اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اگر اپنی ضرورت کے لیے انسانوں، شہریوں اور پیداواری قوتوں کو بچانے کے لیے میزائل کی پیداوار بندکر کے صاف پانی مہیا کرنا شروع کر دیں تو ادویات کا استعمال کم کرنا پڑے گا، اس لیے بیماری بھی کم ہو جائے گی اور اموات بھی۔
کرپشن کے خلاف چھاپے مارے جاتے ہیں، اچھی بات ہے، یہ چھاپے سب اداروں پر مارنے چاہیئیں، لیکن سب سے زیادہ چھاپہ ملاوٹ کے خلاف مارنے کی ضرورت ہے ہر چندکہ یہاں ہر چیز میں ملاوٹ ہے لیکن سب سے زیادہ ملاوٹ تیل اور دودھ میں ہے۔
نوے فیصد ہوٹلوں میں چربی کا تیل استعمال ہو تا ہے، جو انتہائی مضر صحت ہے۔ صرف کراچی ابراہیم حیدری میں بارہ ایسے یونٹ ہیں جہاں سڑی چربی، ہڈیوں اورغلاظت سے بھرپور انتڑیوں سے تیل بنایا جاتا ہے، جو دیکھنے میں شفاف، صاف اور چمکدار ہوتا ہے، درحقیقت یہ زہر ہوتا ہے اور اسے لاکھوں، کروڑوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ فراہم کیے جانے والے کنستروں پر نام نہاد اسٹیکر بھی لگے ہوتے ہیں مگرکوئی درست اتا پتہ نہیں ہوتا اور نہ کسی کمپنی کا نام۔ یہ تیل کہاں بنتا ہے، کہاں ترسیل کیا جاتا ہے، کون کرتا ہے اورکہاں کہاں استعمال ہوتا ہے یہ سب کچھ نجی ٹی وی چینلز پر دکھایا بھی جا چکا ہے، لیکن اب تک ان پر بندش ہے اور نہ ترسیلات پر پابندی۔ ہر دکان، ہر ہو ٹل اور ہر ٹھیلے پر مضر صحت تیل دستیاب ہے۔
چربی کے تیل کی وجہ سے امراض قلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فوری طور پر اس چربی کے تیل کی تیاری اور ترسیلات کو روکیں۔ موٹر وے، اورنج ٹرین، گرین بسیں، ماڈل اسکول، ماڈل ٹاؤن، مرسیڈیز، قیمتی کاسمیٹک، درآمد شدہ کپڑے، جوتے، صابن، قیمتی الیکٹرونک کے سازوسامان، بلٹ پروف گاڑیاں درآمد کرنے اور استعمال کرنے کی بجائے دودھ میں لاکھوں گیلن روزانہ سات اقسام کا کیمیکل اور اجزا ء کی ملاوٹ کو روکا جائے جس میں یوریا کھاد بھی شامل ہے۔
بھینس کو انجکشن لگا کر مصنوعی اور جبراً ہارمونس پیدا کر کے زیادہ دودھ حاصل کیا جاتا ہے جو صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس کی تفصیلات ماہرین غذائیات اورکیمیائی سائنسدان بتا چکے ہیں۔ پھر بھی اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا، جب کہ غذا کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے محکمہ موجود ہے۔ اس کے ڈائریکٹرز، انسپکٹرز اور لیب بھی موجود ہیں۔ اس پرکروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، لیکن وہ انسپکشن کرنے کی بجائے رشوت خوری میں مصروف رہتے ہیں۔
ہم غیر پیداواری اخراجات، بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر اور عیش و عشرت میں لگے رہتے ہیں اس لیے کہ حکمران طبقات کو جراثیم سے پاک اور شفاف درآمد شدہ دودھ میسر ہے۔ ان کے پاس زیادہ پیسے ہیں، اس لیے وہ خرید سکتے ہیں لیکن ایک مزدور جس کی ماہانہ آمدنی صرف پندرہ ہزار روپے ہے وہ کہاں سے غیر ملکی شفاف دودھ خرید سکتا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ غیر ملکوں سے دودھ کی درآمد پر پابندی لگائی جائے اور ہم اپنا دودھ جراثیم اور ملاوٹ سے پاک صارفین کو فراہم کریں۔
شاہراہوں پہ اگرآپ کو دو سوکاریں ملیں گی تو بسیں صرف دو ہی نظر آئیں گی۔ بڑے بڑے میگا پروجیکٹ پر اربوں روپے لگانے کے بجائے ہم ڈبل ڈیکر بسیں، ٹرام گاڑی اور سرکلر ریلو ے چلا کر عوام کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ ایک ڈبل ڈیکر بس میں دو سو، ٹرام میں پانچ سو اور سرکلر ٹرین میں پانچ ہزار افراد سفرکر سکتے ہیں۔ اس سے ڈیزل کی بچت ہو گی اور رش بھی کم ہو گا اور غیر ملکی کاروں کی درآمد پر ہونے والے اخراجات بھی کم ہونگے۔ ان ملکوں میں بڑے بڑے میگا پروجیکٹ بنانا جائز ہے جو لوگوں کو بنیادی ضرورتیں پوری کر چکے ہیں۔
ہم تو ملاوٹ سے پاک غذا، پانی اور ٹرانسپورٹ تک عوام کو فراہم نہیں کر پائے۔ تعلیم اور صحت کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ہمیں بڑے بڑے اسپتال بنانے کے بجائے ہر محلے میں میٹرنٹی، ڈسپینسری، ایمبولینس اور نرس کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔ بیمار پڑنے کے اسباب کو روکنے کے لیے جوہڑوں، جھاڑیوں، نالے، آلا ئش اورکوڑے کرکٹ کی صفائی کرنی ہو گی۔ کوڑوں کی صفائی سے آ دھی بیماری خود ہی ختم ہو جائے گی۔ ایک انسان کو جینے کے لیے سات درختوں کی ضرورت ہے، جب کہ ہمارے ہاں درختوں کی شدید کمی ہے بلکہ خطرناک حد تک۔ درختوں کے لگا نے پر زیادہ خرچہ نہیں آتا، مگر ہمیں اونچی اونچی عمارات بنانے سے فرصت نہیں درخت کہاں سے لگائیں گے، اگر ہم ملک کو درختوں سے بھر دیں تو بھی بے شمار بیماریاں کم ہو جائیں گی۔
جب درختوں کے جنگلات ہونگے تو پھل، سبزیاں، پرندے، مچھلیاں اور جانوروں سے بھرجائے گا۔ جہاں جنگلات زیادہ ہیں وہاں کے لو گوں کی صحت بہتر ہے، بیماریاں ناپید ہیں۔ ملاوٹ سے پاک، جانوروں اور پرندوں کا گوشت، پھل، مچھلی اور سبزیوں کے حصول سے ویسے ہی انسان صحت مند رہ سکتا ہے، مگر مسئلہ ہے ترجیحات کا، اگر ہم لگژری گاڑیوں، قیمتی کاسمیٹک، درآمدی اشیاء، بلٹ پروف گاڑیوں، نجی ہوائی جہازوں، غیر ملکی پرفیومز اور روزمرہ کی امپورٹیڈ اشیاء کو ترجیح دیں اور ملاوٹ سے پاک پانی، تیل اور دودھ کی جانب توجہ نہ دیں، اس کے برعکس غیرصحت مند اور غیر پیداواری اخراجات پر توجہ دیں گے تو پھر یہی صورتحال ہو گی، جو آج ہے۔