Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Muhammad Khan Ahmedani, Aik Sachey Inqilabi

Muhammad Khan Ahmedani, Aik Sachey Inqilabi

محمد خان احمدانی کو میں تقریبا 30 برس سے جانتا ہوں۔ ویسے تو میں سابق مشرقی پاکستان میں جنر ل یحییٰ خان کی فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا جب کہ محمد خان احمدانی پاک فوج میں رہتے ہوئے بنگال میں فوج کشی کر رہے تھے۔ وہ ہندوستانی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر ہندوستان لے جائے گئے۔ جیل میں ان کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (عرف عام میں نکشال باڑی ) کے ایک کارکن کے ساتھ قربت بڑھی اور انقلابی خیالات سے آشنا ہوئے، جب رہائی ملی تو وہ پاکستان آ کر وطن دوست انقلابی پارٹی میں شامل ہو گئے، جس کے رہنما ڈاکٹر ارباب علی کہواڑ اور اقبال رند ہوا کرتے تھے۔

وطن دوست انقلابی پارٹی کے کارکنان پہلے سندھی قوم پرست تھے، بعد میں ترقی پسند اور آخر کارکمیونسٹ خیالات کے حامل ہو گئے۔ جب اس پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو احمدانی طبقاتی جدوجہد (آئی ایم ٹی ) میں شامل ہو گئے اور میں بھی۔ اس سے قبل قومی انقلابی پارٹی جب بنی تھی تو محمد خان نے ریڈیکل گروپ کا ساتھ دیا جب کہ کمیونسٹ پارٹی ہی کا ایک دھڑا قوم پرستی کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد ازاں طبقاتی جدوجہد میں جب دھڑے بندی ہوئی تو احمدانی، لال خان یا منظور چوہدری کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار رہے۔

بعد میں سوشلسٹ موومنٹ سندھ جس کے رہنما حامد چنا (دادو کے ہیں) کے ساتھ کام کرنے لگے اور تادم مرگ انھیں کے ساتھ رہے۔ ہر چند کہ وہ سیاسی طور پہ وطن دوست انقلابی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے، لیکن ان کی سرگرمی زیادہ تر ٹریڈ یونین میں تھی۔ وہ وطن دوست مزدور فیڈریشن کے رہنما تھے۔ یہ اس وقت سندھ کی سب سے بڑی فیڈریشن تھی شاید اب بھی ہے۔ بیڑی ورکرز یونین، ٹھٹھہ سیمنٹ فیکٹری، ٹھٹھہ شوگر مل اور متعدد مزدور یونینوں کے فعال اور باشعور رہنما تھے۔

میں خود ان کے ساتھ لاڑکانہ، دادو، ٹھٹھہ، بدین اور متعدد مل فیکٹریوں کے جلسے جلوس میں شرکت کرتا رہا۔ جب قومی انقلابی پارٹی سندھ کا کنونشن کراچی میں منعقد ہوا تو ڈپٹی جنرل سیکریٹری کے عہدے کے لیے (راقم الحروف) امیدوار تھا۔ میرے مد مقابل قوم پرستی کا رحجان رکھنے والے دھڑے کی جب شکست ہوئی تو چند افراد نے جلسہ گاہ میں "بہاری نہ کھپن" کے نعرے لگائے، اس وقت محمد خان احمدانی ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ بعد ازاں ان میں سے بیشتر افراد قوم پرست پارٹیوں میں چلے گئے یا موقع پرستی کے شکار ہوئے، جب احمدانی طبقاتی جدوجہد میں تھے، اس وقت بھی پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپن کی مرکزی کمیٹی کے فعال رہنما تھے۔ مزدوروں کی یہ جدوجہد آج بھی عالمگیریت میں پنہاں ہے۔ فرانس سے لے کر ہندوستان اور کوریا تک محنت کش اپنے مسائل کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی کہیں زیادہ فعالیت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے تو کہیں کم تر فعال ہے، مگر طبقاتی لڑائی جاری ہے۔ کہیں بھی محنت کشوں، پیداواری قوتوں یا شہریوں کا استحصال ہو گا تو اس کا رد عمل بھی ہو گا۔

آج پاکستان میں عوام دشمن بجٹ کے نفاذ سے اور آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کرنے سے اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مختلف سطح پہ مختلف طبقات اپنے رد عمل کا اظہارکر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پشاور سے کراچی تک شہری سراپا احتجاج ہیں۔ تاجروں نے ہڑتال کی کال دی، ریلوے کے مزدور بھی احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ نرسیں بھی احتجاج کر رہی ہیں، جن پر بے دردی سے تشدد کیا گیا، گرفتار کیا گیا، کہیں ماربل کے تاجر ہڑتال پہ ہیں، کہیں ڈاکٹرز، گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کے مالکان اور مزدور ہڑتال کر رہے ہیں، مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ وہ تو صرف آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری میں لگی ہوئی ہے۔

جن طالبان کو امریکی سامراج نے پالا پوسا اور افغانستان کے بائیں بازو کی انقلابی حکومت کے خلاف ڈالر جہاد کروایا، پھر ان ہی طالبان کو دہشت گرد قرار دیا اور ایک بار پھر امریکا افغان طالبان کو 2.2 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہا ہے، جس میں ٹینک اور راکٹ بھی شامل ہیں۔ اب ذرا کوئی یہ بتائے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ درحقیقت یہی ریاستی جبر، سامراجی استحصال اور سرمایہ داری کا وتیرہ ہے۔ اس کا واحد حل، ذاتی ملکیت کا خاتمہ، مبہم عقیدے ا ور خاندانی جبر کو ختم کر کے دنیا کو ایک کرنا ہے۔ تب ہی دنیا سے اسلحے کی پیداوار اور جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے اور اسی وقت محمد خان احمدانی کا کمیونسٹ سماج کے قیام کا خواب پورا ہو گا۔ جہاں تک ریاست کی بات ہے تو اب اس پر زیادہ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس کی مثالیں ٹرمپ کا امریکا، مودی کا انڈیا، میخرون کا فرانس، السیسی کا مصر، سوڈان، الجزائر، روس چین ہر جگہ ریاست اپنی بد ترین شکل لے کر کھڑی ہے۔

اب نئے پاکستان کو لے لیں۔ موجودہ برسراقتدار جماعت پی ٹی آئی کا کون سا ایسا رہنما ہے جو ماضی کے رہنماؤں سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ سب مرکزی رہنما، دوسری سرمایہ دار جماعتوں سے ہی گھونسلے بدلے ہیں، اگر ان تین کو دیکھا جائے جو اس ملک کے عوام کا خون چوسنے میں پیش پیش ہیں، وہ تینوں گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آر اور مشیر وزیر خزا نہ سامراج کی مرضی سے درآمد کیے گئے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی اہم مسئلے پر وزیراعظم کی بجائے ان کی چلتی ہے۔ جیسا کہ وزراء کی تبدیلی، برطرفی اور بھرتی میں نمایاں نظر آئے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ سرمایہ داری ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کو ختم کر دیں تو دنیا محبتوں اور خوشحالی کی بو سے معطر ہو جائے گی جس کا ہم نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔

جہالت، خرافات کے بت ٹوٹیں گے

کھلیں گے حقیقت کے مقفل باب