چھو رہے تھے ظالموں کے سر میرے پاؤں کے ساتھ
کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد
دس اگست 1980ء صبح نو بجے جب راقم الحروف نے سندھ ہائی کورٹ کی دوسری منزل کی سیڑھیوں پہ قدم رکھا تو بیرسٹر سید عبدالودود نے شام کا اخبار "اسٹار" پیش کرتے ہوئے کہا کہ "دیکھو نذیرکو مار دیا " جنرل ضیا الحق کے بد ترین مارشل لاء کے دور میں نو اگست انیس سو اسی کو کراچی میں نذیرعباسی کو شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کر دیا گیا تھا۔ نذیرعباسی اس وقت کوئی چوبیس سال کے تھے اور جام شورو یونیورسٹی میں علم سیاسیات ایم اے سال آخر کے طالب علم تھے۔
وہ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر، پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے نائب صدر اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سندھ کے سیکریٹری تھے۔ اس وقت راقم بھی کمیونسٹ پارٹی کراچی کا سیکریٹری تھا۔ نذیرعباسی ایک غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ تعلیمی اخراجات پوری کرنے کے لیے چنے بیچا کرتے تھے اور اس میں سے کچھ پیسے بچا کر گھر والوں کو بھی دیا کرتے تھے۔ پھر بعد میں جام شورو چنگی ناکے پر ایک نوکری لگ گئی تھی۔ وہ جب بھی مجھے ملا کرتے تھے توکاندھے پر ہاتھ مار کر پوچھتے تھے کہ "شادی کب کر رہے ہو" ان کی شہادت سے چند ماہ قبل کراچی کمیٹی کا ایک خفیہ اجلاس ناظم آباد گول مارکیٹ میں منعقد ہوا۔ جس میں راقم الحروف، نذیرعباسی، جاوید شکور، پروفیسر جمال نقوی، جبار خٹک اور عزیز الرحمن نے شرکت کی تھی۔
انھوں نے اپنے بال چھوٹے کیے ہوئے تھے اورکرتا، پاجامہ میں ملبوس تھے۔ نذیر عباسی کوکراچی سے گرفتاری سے قبل جب گرفتار کر کے کوئٹہ لے جایا گیا تھا توایک افسر نے انھیں اس وارننگ کے ساتھ رہا کیا تھا کہ آیندہ اگرسیاست کرو گے تو برا حشر ہو گا، مگر نذیر عباسی کو حد سے زیادہ اپنے نظریے سے پیار تھا۔ انھیں پیپلز کالونی، کراچی کی کمیونسٹ پارٹی کے خفیہ دفتر سے نکلتے ہوئے پاک کالونی کے پاس سے گرفتارکیا گیا۔ گرفتاری کے بعد مختلف مقامات پر رکھا گیا۔ آخرکار جناح اسپتال کے نزدیک ایک عقوبت خانے میں شدید جسمانی اذیت کے دوران وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ تفتیشی افسران ان سے پارٹی کے دیگر ارکان کی سرگرمیوں اور ان کے اتے پتے کی معلومات کے لیے پوچھ گچھ کرتے تھے اور جسمانی اذیت دے کر جھوٹی سچی باتوں کو اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کہلوانے کی ناپاک کوششیں کرتے رہے۔ آخرکار نذیرعباسی نے اپنی جان تو گنوا دی مگرکسی اور ساتھی کوگرفتار نہیں کروایا۔
یہ خبر سنتے ہی دس اگست کو مزدور طلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ریگل، صدر کراچی میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ گیارہ اگست کو ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیراہتمام ایک با وقار احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں طلبہ کا سمندر امنڈ آیا تھا۔ وہ بڑی زوروں سے یہ نعرے لگا رہے تھے ’ نذیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں، نذیر عباسی امر ہے، نذیر عباسی کا راستہ، ہمارا راستہ " وغیرہ وغیرہ۔ اس جلسے کے چند دنوں بعدکراچی نشتر پارک میں نماز عید کے بعد نمازیوں نے ایک پرجوش احتجاجی جلوس نکالا جس میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ " نذیر عباسی کے قاتلوں کو پھانسی دو، پھانسی دو، نذیر عباسی کے وارث زندہ ہیں۔ "
نذیر عباسی اپنی سوچ کی گہرائیوں تک ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ ان کے قتل کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں بیرسٹر سید عبدالودود مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ودود کا تعلق بھی کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔ نذیر عباسی کا غسل جنازہ معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی نے کرایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نذیر عباسی کے جسم پر جا بجا زخموں اور چوٹوں کے نشانات تھے، مگر عدالت میں ان کی نام نہاد جو میڈیکل رپورٹ آئی جس میں درج تھا کہ نذیر عباسی کی حرکت قلب بند ہونے سے موت واقع ہوئی۔
عدالت نے بھی یہی پڑھ کرفیصلہ سنایا، جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا اس وقت بیرسٹر سید عبدالودود نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ " جناب اس ملک میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ اس سے قبل بھی شہید حسن ناصرکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، پھر عدالت میں جج کی موجودگی میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ " امر ہے، امر ہے نذیر عبا سی امر ہے، نذیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں" نذیر عباسی دنیا کے ان عظیم شہید کمیونسٹوں اور انارکسٹوں کے صف میں شامل ہو گئے جس صف میں جیولیس فیوچک، الیکزینڈر، چی گویرا، بھگت سنگھ، پاولو نرودہ، دادا میر داد، راج گورو اور سکھ دیو شامل تھے۔
نذیر عباسی کا کمیونسٹ نظریہ دنیا بھر میں زندہ و تابندہ ہے۔ اٹھارہ نومبر، دو ہزار اٹھارہ سے اب تک فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک (ا نارکوکمیونسٹ تحریک) تاریخ رقم کر رہی ہے بلکہ اپنے مطالبات بھی منوائے ہیں۔ ادھر ہانگ کانگ کی پیلی چھتری تحریک بھی آزا دی کے لیے رواں دواں ہے۔ پاکستان میں بھی بلوچستان، وزیرستان اور ہنزہ میں عوامی تحریک ابھر رہی ہے، جب کہ کراچی، پشاور، سکھر، کوئٹہ، لاہور، فیصل آباد اورگجرانوالہ میں نرسز، مزدور، ڈاکٹرز، طلبہ، کسان اور وکلاء اپنے مطالبات کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ عوام کو اب سمجھ آ رہی ہے کہ ان کے مسائل کا حل سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت میں نہیں ہے بلکہ غیر طبقاتی کمیونسٹ نظام ان کی نجات کا ذریعہ ہے، وہ جلد ہی اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں گے۔