مزدوروں پر جبرکی انتہا ہوگئی ہے۔ کہیں کوئلے کی کانوں میں دھنس کر لقمہ اجل بن رہے ہیں تو کہیں فیکٹریوں میں آگ لگنے اور بوائلر پھٹنے سے مر رہے ہیں۔ کہیں سرکاری ملازمین مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، ان پر ربڑکی گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ حکومت ان کے مطالبات نہ ماننے پر اڑی ہوئی ہے۔
ٹھٹھہ میں کوئلے کی کان میں پھنس کر متعدد مزدور شہید اور زخمی ہوگئے۔ اس لیے بھی کہ کان کنان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ مچھ بلوچستان میں تو سوئے ہوئے کان کنان کو داعش والے اٹھا کر لے گئے اور 11 مزدوروں کو ذبح کردیا۔
یہ تو مذہبی فرقہ پرستی اور سامراجیوں کی پراکسی وارکا نشانہ بنے مگر اسی روز بلوچستان کے دوسرے علاقے میں کان میں دھنسنے سے کچھ کان کنان شہید ہوئے، کچھ زخمی ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں ٹھٹھہ میں واقعہ رونما ہوا۔ 2011 میں بلدیہ ٹاؤن میں آتش زدگی سے 268 مزدور جھلس کر شہید ہوئے تھے جن کے لواحقین کو NTUF نے جرمنی کی عدالت سے مقدمہ لڑکے 52 کروڑ روپے دلوائے۔ چند دنوں قبل یعنی 10 فروری 2021 میں بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے پھر ایک بار 3 مزدور جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔
بلدیہ ٹاؤن میں دھاگا بنانے کی فیکٹری میں آگ لگنے سے 3 مزدورشہید ہوئے۔ ایک مزدور نوجوان نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے دوبارہ عمارت میں گیا اور زندہ واپس نہ آسکا۔ یہ ہے مزدور طبقے کا طبقاتی مفاد۔ واقع میں ایک امدادی رضاکار اور ایک فائر فائٹر بھی زخمی ہوگئے۔ فائر بریگیڈ نے 5 گھنٹے کے بعد آگ پر قابو پایا۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب بلدیہ ٹاؤن کے علاقے مدینہ کالونی میں مواچھ موڑ کے قریب دھاگا بنانے کی فیکٹری میں آگ لگ گئی جس کے باعث مزدوروں میں بھگدڑ مچ گئی اور زیادہ تر مزدور فیکٹری سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
3 مزدور فیکٹری کے اندر پھنس گئے تھے۔ فائر فائٹرز کو آگ بجھانے میں دقت پیش آئی۔ شہید ہونے والے 25 سالہ علی شیر حیدر، 20 سالہ فیاض اور 21 سالہ کاظم تھے۔ ایک مزدور کا کہنا ہے کہ وہ کسی کام سے فیکٹری سے باہر گیا تھا واپس آیا تو فیکٹری آگ میں جھلس رہی تھی۔
پھر اس نے اپنے چھوٹے بھائی جو چند دن قبل روزگار کے لیے راجن پور سے بلدیہ کام کرنے کے لیے آیا تھا کو فون کیا تو فون بند تھا۔ تیسری منزل پر آگ کے اتنے شعلے بھڑک رہے تھے کہ اوپر نہ جا سکا اور اس کا چھوٹا بھائی جھلس کر شہید ہو گیا۔ رکن سندھ اسمبلی سہیل انور سیال موقع پر پہنچ گئے اور کہا کہ جو بھی اس آتش زدگی کا ذمے دار پایا گیا اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ یہی صورتحال کراچی اور ملک بھر کی فیکٹریوں اور مال کارخانوں کی ہے جہاں ہنگامی حالات سے نمٹنے اور اخراجات کے متبادل راستے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سرکاری ملازمین نے (مزدور) اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اسلام آباد میں بھرپور احتجاج کیا۔ مزدوروں کی پولیس سے جھڑپ ہوئی۔ پاک سیکریٹریٹ چوک، کوہسارکمپلیکس چوک سمیت ریڈ زون میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ربڑ کی گولیاں برسائیں۔
مزدوروں کی طرف سے پولیس پر جوابی پتھراؤ کیا گیا جس سے کئی ملازمین اور پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے۔ دھرنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جانے کی کوشش کرنے والے ایک سو سے زائد مظاہرین گرفتارکر لیے گئے۔ بدھ کو ہونے والے احتجاج میں صوبوں سے آنے والے ملازمین کو شرکت کرنا تھی اور اعلان کیا گیا تھا کہ سرکاری امور ٹھپ کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ ملازمین نے پاک سیکریٹریٹ کے باہر شاہراہ دستور پر سیکریٹریٹ چوک پر احتجاج اور دھرنا دیا۔ مظاہرین کے احتجاج میں شدت آنے پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔
اس آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ابھی حال ہی میں 1.95 فی یونٹ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا حکومت نے اعلان کیا ہے۔ اس بدترین صورتحال میں نہ صرف سرکاری ملازمین بلکہ مل کارخانے فیکٹریوں دکانوں اور دھاڑی دار مزدوروں، کسانوں، کھیت مزدوروں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔