پہلے اجارہ داری سرمایہ داری تھی، جس نے بعد میں عالمی سامراج کی شکل اختیارکر لی۔ اسی سامراج کا نمایندہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہے۔ یہ اپنے سرمائے سے کسی بھی ملک کو دست نگر بناتا ہے پھر قرضہ دیکر سود لیتا ہے، مزید قرضہ دیکر مستقل اپنا گاہک بنا لیتا ہے، یہی صورتحال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔
1948 میں تین روپے کا ایک ڈالر تھااور اب161 روپے کا ایک ڈالر ہوگیا ہے، جو جتنا قرض لے گا اس کا گھیرا اتنا ہی تنگ ہوتا جائے گا۔ ایسے ممالک دنیا میں اب بھی ہیں جو قرض نہیں لیتے اور نہ سود یا قرض کی ادائیگی کرتے ہیں، جیسا کہ سوشلسٹ کوریا، کیوبا، کوسٹا ریکا اور بھی متعدد ہیں۔ کوریا اورکیوبا میں شرح تعلیم سو فیصد ہے جب کہ کوسٹاریکا میں ستانوے فیصد شرح خواندگی ہے۔
پاکستان کا اپنا بجٹ 1981 تک خسارے کا بجٹ نہیں ہوتا تھا، 1982 سے ہمارا بجٹ خسارے کا ہونا شروع ہوا۔ ہماری موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے قبل ہی سے درپردہ ان کے احکامات پر عمل درآمد شروع کردیا تھا۔ خاص کر ایندھن کا تیل، بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا تھا اوراب تو ہر ہفتہ ہر چیزکی قیمت میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ سامراج نے ہمیں قرضے دے کر پہلے گھیرا تنگ کیا اور بعد میں خطے کی صورتحال اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے احکامات جاری کیے۔ خاص کرکشمیر اور افغانستان کے مسائل پر۔
افغانستان کی بائیں بازوکی حکومت کوگرانے کے لیے طالبان کی تخلیق کی گئی، بعد میں امریکا نے خود طالبان کو دہشت گرد قرار دے دیا، اس لیے کہ اپنا کام نکال لیا اوراب دوسرے کام لینے کے لیے میدان ہموارکیا جا رہا ہے۔ امریکا کو یوکرائن، عراق اور شام سے بھاگنا پڑا۔ اب وہ افغانستان سے کم بے عزتی سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس لیے پاکستان سے رجوع کیا کہ اس کے کاندھوں پر قدم رکھ کر اپنا کام نکال لے۔
دوسرا مسئلہ کشمیر کا ہے۔ کشمیر میں سیاسی اور سماجی بے چینی سے خطے کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ اس سے سامراجیوں کی تجارتی اور اجارہ داری قائم رہے گی اور استحصال کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں نکلے گا۔ کشمیرکے مسئلے پر انڈیا اور چین کے مفادات الگ الگ ہیں۔ اس لیے انڈیا کشمیر کو ایک خود مختار علاقے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ ایران کے ساتھ روس اور چین بھی کھڑا ہوا ہے، اس لیے دوسرا فریق اتنا بہ آسانی ایران کے خلاف بولنے سے احتیاط سے کام لے گا۔ ہر چندکہ اس میں چین اور روس کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ خارجی حالات کا عکس داخلی حالات پہ پڑتا ہے اور داخلی حالات کا عکس خارجی حالات پہ پڑتا ہے۔ کیوبا اورکوریا میں اگر طبقاتی نظام نہیں ہے تو آئی ایم ایف سے قرضہ بھی نہیں لیا ہوا ہے۔
قرضہ لے کر ملکی سرمایہ دار اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر سرمایہ دار ہی نہیں تو پھر قرضہ کس بات کا۔ اندورون ملک بھی لوٹ مارکا ایسا ہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہماری حکومت کرپشن، کرپشن اورکرپشن کا راگ الاپ رہی ہے۔ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا نا گزیر نتیجہ ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں ہر ادارہ کرپشن سے اٹا پڑا ہے۔ ہاں اس کی نوعیت اور طریقہ واردات الگ الگ ہیں۔
پاکستان میں ٹریفک پولیس کے ادارے کو لے لیں، یہاں روزانہ ہزاروں روپے کی کرپشن ہوتی ہے، جوکہ بر ملا سب کو نظر آتی ہے۔ اسمگلنگ کو روکنے کے بجائے متعلقہ سرکاری افسران سہو لت کار بنے ہوئے ہیں۔ پولیس کے محکمے کو لے لیں، کون سا ایسا تھانہ ہے جو عوام کی خد مت کرتا ہے، وہ تو ایف آئی آرکاٹنے اور شکایات درج کروانے کے لیے بھی رشوت وصول کر تے ہیں۔ کے الیکٹرک آج کل میٹر ریڈنگ کے تقریبا دس روز بعد بل بناتے ہیں اور یہ دس دن پھر اگلے مہینے میں لگ کر عوام پر مصیبت ڈھاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے کنٹری ڈائریکٹر کا بیان ہے کہ پاکستان میں سب سے کم کرپشن تعلیم کے شعبے میں ہے اور اس کی شرح پچانوے فیصد ہے۔
اب آپ سوچیں کہ اگرکم شرح کرپشن پچانوے فیصد ہے تو باقی شعبوں کا کیا حال ہوگا۔ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ پینے کا صاف پانی، نالے اورگٹر کی صفائی، ملاوٹ سے پاک غذا، بجلی، گیس، تعلیم اور روزگار کی فراہمی ہے، جب کہ ہم میگا پروجیکٹ بنانے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں۔ ہم عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈبل ڈیکر بسیں، ریلوے سرکلر ٹرین اور ٹرام گا ڑی چلادیں تو بڑے شہروں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوسکتے ہیںَ۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں کو اعلیٰ تعلیم کے بجائے ٹیکنیکل اور پانچویں تک لازمی تعلیم کو ضروری قرار دیا جائے۔ ہمارے حکمران ستر سال گذرنے کے بعد بھی پانی اورگٹرکا مسئلہ حل نہیں کر پائے۔ ہم ساری رقوم میگا پروجیکٹ اور اسلحے کی پیداوار اور خرید وفروخت پر لگا دیتے ہیں۔
دنیاکا ایک اور بڑا مسئلہ ماحولیات کا ہے جس میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ یو این اوکا یہ فیصلہ ہے کہ ہر ملک کے زمینی رقبے کا کم ازکم پچیس فیصد جنگلات ہونا چاہیے۔ برازیل کے جنگلات نوے فیصد، سورینام میں ستانوے فیصد، امریکا میں چالیس فیصد، یورپ اور جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں تیس سے پینتیس فیصد، انڈیا میں بیس فیصد، بنگلہ دیش میں سولہ فیصد اور کوریا میں انہتر فیصد۔ جب کہ بھوٹان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی فضا آلودگی سے پاک ہے۔
پلاسٹک کی آلودگی سب سے کم ہالینڈ اور انڈیا میںہے جب کہ سب سے زیادہ آلودگی چین اور پاکستان میں ہے۔ پاکستان کے کل رقبے کا دوعشاریہ پانچ فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ ان تمام مسائل کا مکمل حل ایک غیرطبقاتی اور بے ریاستی سماج کے قیام میں ممکن ہے، مگر فی الحال اس نظام میں رہتے ہوئے ہم اسلحے کی پیداوار اور غیرضروری اشیا کی پیداوار میں کمی لا کر اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔