سرمایہ داری کی ہیرا پھیری، منافقت اور دوغلا پن ساری دنیا میں عیاں ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی متضاد موقف اور اندورن ملک آئے روز اسی قسم کی الٹ پھیر، تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اس لیے بھی کہ اس نے جدید سائنسی آلات کے طلسماتی کارناموں کے جن کو بوتل سے نکال تو لیا ہے لیکن اب یہ جن بوتل میں واپس جانے سے انکاری ہے۔
آج کی سرمایہ داری کا بحران غذائی قلت کا بحران نہیں ہے بلکہ زائد پیداوار کا بحران ہے۔ ساڑھے سات ارب لوگوں کی بجائے دس ارب لوگوں کی ضروریات زندگی کی اشیاء موجود ہیں مگر عوام کے پاس قوت خرید نہیں ہے۔ ایک جانب دولت کا انبار اور دوسری جانب قحط۔ اس صورتحال میں سامراجیوں کا آپس کا تضاد، اندورن ملک مفادات کا تضاد اور پارٹیوں کے مابین نظریات اور مفادات کے تضادات اس حد تک بے نقاب ہو گئے ہیں کہ اب یہ باتیں میڈیا پر بھی بر ملا آنے لگی ہیں۔
اب تو سامراجیوں کے مراکز دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، مگراس تقسیم نے عوام کی بھلائی کے بجائے مزید افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ایک جانب چین کے سب سے بڑے تجارتی مراکز امریکا اور جاپان ہیں تو دوسری طرف تجارتی جھگڑے بھی انھیں کے مابین سب سے زیادہ عروج پہ ہیں۔ فرانس جو کہ امریکا کا اتحادی ہے اور اس کا صدر میکرون امریکی صدر ٹرمپ سے کم رجعتی نہیں۔ اسی لیے اکتالیس ہفتے ہو گئے کہ بلاجماعت اور رہنما کے عوام نے سرمایہ داری کو للکارا ہوا ہے۔
اب تک محنت کشوں، شہریوں اور پیداواری قوتوں نے اپنے بارہ مطالبات منوائے بھی ہیں اور اب پیلی جیکٹ تحریک صدر میکرون کا استعفیٰ، نیٹو سے علٰحیدگی اور غیر ملکوں سے فرانسیسی فوج کی واپسی کے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ تحریک سیاسی اور معاشی طور پہ فرانس کو مفلوج کرتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات صرف یورپ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پڑ رہے ہیں۔
اسی سے ملتی جلتی تحریک ہانگ کانگ میں پیلی چھتری تحریک آب و تاب سے جاری ہے، وہاں بھی کوئی جماعت اور لیڈر نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہ لیڈران اور جماعتیں ہی تو انقلاب کو روکا کرتی ہیں۔ کشمیرکے مسئلے پر دنیا کی تقریبا سبھی بڑی سامراجی طا قتیں لگ بھگ ایک ہی رائے کی نظر آتی ہیں مگرکچھ کرنا بھی نہیں چاہتی ہیں جب کہ وینزویلا کے معاملات میں تقسیم ہیں۔
ایران بظاہر امریکا کے خلاف ڈٹا ہوا نظر آتا ہے لیکن اندرون ملک دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی کارکنان کو رگڑا دیا جاتا ہے۔ حقیقی سامراج مخالف، سوشلسٹ، کمیونسٹ یا انارکسٹ آزادی سے سیاسی سرگرمی نہیں کر سکتے اور اب بھی مسلسل پابندیاں ہیں۔ ایرانی عوام کو بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، قحط اور فاقہ کشی کے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔
اس وقت وہاں ایک روٹی 300 روپے کی دستیاب ہے۔ آج کل بظاہر امریکا مخالف ترکی کے حکمران کچھ اقدامات کرتے ہیں اس لیے بھی کہ ان کا ایندھن کے تیل کا انحصار روس پر ہے۔ پھر بھی ترکی نیٹو کا رکن ہے اور نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔ استاد اور دانشور بھی ترکی کے جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ گزشتہ دنوں دو شہروں کے میئروں کو ترکی کی حکو مت نے برطرف کر دیا۔
ایسی ہی صورتحال کیٹالونیہ، اسپین کی ہے۔ عوام نے 80 فیصد ووٹ دے کر ریفرنڈم میں یہ ثابت کیاکہ وہ اسپین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، وہ انارکوکمیو نسٹ نظریات اور بے ریاستی سماج قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن میڈرڈ کی سپریم کورٹ اورحکومت اسپین نے ان کی شفاف ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیا، ان کمیونسٹوں کے خلاف قوم پرست اور علیحدگی پسند ہونے کا دنیا بھر میں پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔
جب کہ انھوں نے کہیں بھی اپنے آپ کو قوم پرست کہا اور نہ علیحدگی پسند۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو خود مختار انارکوکمیونسٹ کہتے ہیں۔ 21 اگست کو ایک نجی ٹی وی چینیل پر بریگیڈئر عابد سعید نے بڑا حقیقت پسندانہ جملہ استعمال کیا کہ " ہم نے مشرقی پا کستان پر فوج کشی کرنے کی جو حماقت کی اس سے بڑی حماقت ہندوستانی سرکار نے کشمیر پر فوج کشی کر کے کی ہے۔ "
ہماری حکومت کرپشن اور بیرونی سرمایہ کاری کا نعرہ دیتی آ رہی ہے اور انھی دو نکات پر ملک کی معیشت کو راہ راست پر لانا چاہتی ہے اور ان کا موقف ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل ان اقدامات سے حل ہو جائیں گے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ملک کی بہتری اور خوشحالی کے لیے، بیروزگاری اور مہنگا ئی کے خاتمے کے لیے دو بنیادی اقدام کرنے ہونگے، اس سے کم از کم 50 فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اور وہ ہیں ملک بھر میں کارخانوں کا جال بچھانا اور ہر قسم کی سرکاری یا نجی جاگیروں، کچے، تحفے اور بنجر زمینوں کو بے زمین اورکم زمین رکھنے والے کسانوں میں تقسیم کرنا ہے۔
اس سے مل کارخا نوں میں جب لو گوں کو ملازمت ملے گی تو وہ دو نہیں تو ایک روٹی کھا ہی لے گا۔ جب پانچ دس ایکڑ زمین بھی کسانوں کو ملے گی تو اسے جینے کا آسرا تو مل جائے گا۔ یہ کام ہم 73 برس میں نہیں کر پائے۔
اس کام کے لیے غیر ملکی درآمدات پر پانچ سو سے ایک ہزار فیصد ڈیوٹی لگانی ہو گی اور سو ایکڑ سے زائد زمین رکھنے وا لوں کی زمین ضبط کرنی ہو گی۔ ہرچندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر ریاستی انارکوکمیو نسٹ یا امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے، مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک تجویزکردہ مندرجہ بالا پروگرام پر اگر عمل کر لیا جائے تو پھر ایک حد تک عوام کے روزگارکے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔