بہت سے مورّخین اور اصحابِ دانش نے معلوم انسانی تاریخ کی معرکتہ االآراء تقریروں کو یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے۔ ایسی کتا بیں دنیا کی ہر زبان میں چھپ چکی ہیں۔
عظیم ترین تقریروں میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران افواج اور عوام کے حوصلے بلند کرنے والی اُسوقت کے برطانوی وزیراعظم و نسٹن چرچل کی اُس تقریر کو خصوصی مقام حاصل ہے جسمیں وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ " ہم لڑیں گے۔ میدانوں میں، سمندروں میں، جنگلوں میں، صحرائوں میں، خون کے آخری قطرے تک ہر جگہ لڑ کر ہم اپنی تہذیب کا دفاع کریں گے۔ "
امریکا کے سیاہ فام باشندوں کے حقوق کے لیے جدوجّہد کرنے والے رہنما مارٹن لوتھر کنگ1964 میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ خطاب کے دوران سامعین میں سے ایک سیاہ فام لڑکی نے بآواز بلند کہا "مارٹن! اپنے خواب والی وہ بات کریں جو آپ کیا کرتے ہیں " پھر مارٹن نے اپنی تقریر چھوڑ کر وہ تقریر کی جو اَمر ہوگئی، "I have dream کہ میرا ایک خواب ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ "سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی تقریروں کی بھی بڑی تحسین کی جاتی ہے۔
ایک اورامریکی صدر جان ایف کینیڈی کی وہ تقریر بھی دنیا کی عظیم تقریروں میں شامل کی جاتی ہے جسمیں انھوں نے کہا تھا
"Think not what America can do for you
Think what you can do for America"
(امریکا نے آپکو بہت کچھ دیا ہے اس لیے)اب یہ نہ سوچوکہ امریکا آپکو کیا دے سکتا ہے۔ یہ سوچو کہ آپ امریکا کو کیادے سکتے ہیں۔
ہٹلر بڑا آتش بیاں مقرر تھا، اُس کی بھی چند تقاریرکا ذکر کیا جاتا ہے، مگر یہ سب تقریریں کسی ایک واقعہ، کسی ایک ملک یا خطے کے متعلق تھیں۔ چرچل کے پیشِ نظر ایک ملک کا دفاع تھا اور مطمعِ نظر محدود تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ امریکا میں بسنے والی ایک انسانی آبادی اور خاص رنگ و نسل کی ایک community کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔ ہٹلر نسلی تفاخر کا شکار تھا جسکے جارحانہ عزائم تھے۔ صدر کینیڈی کے پیشِ نظر امریکی نیشنلزم کو اجاگر کرنا تھا۔
مگر میں جس تقریر کا ذکر کرنے لگا ہوں اُس نے کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کی زندگیاں بدل ڈالیں، نہ مقرر آتش بیا ن تھا اورنہ خطاب اشعار اور حکایتوں سے مزین تھا۔ مگر تقریر کا ایک ایک لفظ سننے کے لیے سامعین ھمہ تن گوش رہے۔ اُس مختصر تقریر نے انسانوں کا دامن اُن خزانوں سے بھر دیا جسکا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مقرر کے خطاب نے پوری انسانیت ) (Humanity پرہمیشہ کے لیے تحفظ اور رحمت کا سائبان تان دیا، چشمِ فلک نے ایسا اجتماع نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ اس کے بعد کبھی دیکھے گی۔ انسانی کانوں نے نہ اس سے پہلے کبھی ایسی تقریر سنی نہ اس کے بعد سنیں گے۔
صدیوں پہلے یہ تقریر سرزمینِ حجاز کے میدانِ عرفات میں ہوئی تھی، سامعین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ اجتماع حیرت انگیز تھا اور مقرر بے مثال کہ جسے دیکھنے کے لیے ہر سامع بیتاب تھا کہ وہ کائنات کے سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل انسان اور ربِّ ذوالجلال کے آخری نبی حضرت محمدﷺ تھے۔
چند روز پہلے ٹی وی کے کسی چینل پر کسی مردِخدا نے بڑے جذبے اور عقیدت کے ساتھ حضور نبی کریمﷺ کی حجتہ الوداع کے موقع پرکی جانے والی وہ پوری تقریر پڑھی تو ذہن اُس عظیم الشان جلسے کی جانب چلاگیا اور یوں لگا میں خود اُس مقدس اجتماع کے کسی کونے پر کھڑا ہوں اور انسانوں کے محسنِ اعظمﷺ کے منہ سے وہ تاریخ ساز الفاظ سن رہا ہوں۔ جتنی دیر خطبے کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہے، آنکھوں سے آنسو نہ تھم سکے۔
خطاب کیا تھا، انسانیت کے تحفظ، بقاء اور نشوونما کا عظیم ترین چارٹر تھا۔ ہر فقرہ انسانوں کی تقدیر بدل رہا تھا۔ فقرے کیا تھے دُنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کو ملنے والے عظیم تحفے تھے۔ ہرفقرہ ختم ہو نے پر محسوس ہوتا کہ انسانیت کے دامن میں ایک اور گرانقدر ا تحفہ ڈال دیا گیا ہے۔ یوں لگتا تھا دورانِ خطاب حضرت جبرائیل مسلسل محوِ پرواز رہے اور خدائے رحمان و رحیم اپنے مقرّب فرشتے کے ذریعے انسانوں کی فلاح وبہبودکے پیکیج بھیجتا رہا جو اللہ کے خصوصی نمایندے یا وائسرائے (نبی کریمﷺ)انسانوں میں بانٹتے رہے۔
اس حیر ت انگیزاجتماع کے بے مثال مقرر کی آواز گونجتی ہے " اے انسانو! اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو قوموں اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ تم پہچانے جائو۔ یادر کھّو!کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ باعزتّ وہ ہے جو سب سے زیادہ پرھیز گارہے"۔ مجمعے میں موجود صاحبانِ دانش کے دل شاد ہوئے کہ ایک فقرے سے انسانوں کے درمیان اونچ نیچ ختم کر دی گئی ہے۔ اور یہ کہہ کر پوری انسانیت کو عظیم الشان تحفہ عطاکر دیا گیا ہے کہ’ تما م انسان برابر ہیں،۔ رنگ، نسل، خاندان اور مال و دولت کی بناء پر صدیوں سے قائم فضیلت اور امتیاز پائوں تلے روند دیے گئے۔
اتنا عظیم تحفہ وصول ہونے پر سامعین ابھی مسّرت و انبساط ( excitement)میں سرشار تھے کہ پھر آواز پھر گونجی۔
"اے انسانو! جاہلیّت کے تما م رسومُ وقواعد کو میں اپنے قدموں سے پامال کرتاہوں، جاہلیّت میں بہائے گئے تما م خون باطل ہیں۔ تمہاری جانیں اور تمہارا خون ایک دوسرے کے لیے اسطرح حرام ہیں جسطرح یہ دن (جمعہ) یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکہ مکرمہ) تمہارے لیے قابلِ حرمت ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے قبیلے کے فرد ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرتا ہوں۔ یاد رکھو تمہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور تم کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے"۔ اس ایک فقرے سے قیا مت تک کے لیے انسانی جان کی حرمت قائم کر دی گئی، انسا نیّت کو ایک اور عظیم تحفہ موصول ہوگیا جس نے انتقام کی جاہلانہ روایات کا خاتمہ کردیا اورانسانی جان کو تحفظ عطاکردیا۔
جبل الرحمت پر اپنی اونٹنی پر سوار خطاب کرنے والے انسانیت کے عظیم ترین محسن کی آواز پھر گونجی، اے انسانو! جانوں کی طرح تمہارے مال بھی ایک دوسرے کے لیے حرام ہیں، سوجس کے پاس کسی کی امانت ہو اُسے چاہیے کہ حقدار کو ادا کر دے۔ بچہ جسکے بستر پر پیدا ہواہو اسے دیا جائے، زناکاروں کے لیے پتھر ہے، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر ما ل صرف نہ کرے۔ قرض ادا کیے جائیں اور ضامن تاوان ادا کرنے کا ذمّے دار ہے۔
سامعین کے کانوں میں پھر آواز پڑی، اے انسانو! (جسکا مطلب واضح ہے کہ مقرر کا مخاطب صرف سامعین نہیں، صرف اہلِ عرب نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان ہیں )یقینا تمہارے تمہاری بیویوں پر کچھ حقوق ہیں اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں۔ تمہارا حق ہے کہ تمہاری بیویاں اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں۔ مگر تم اپنی عورتوں سے نرمی کا برتائو کرو کیونکہ یہ تمہاری مددگارہیں، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ اللہ نے انکو تمہاری حفاظت میں دیا ہے۔ کرئہ ارض کی تمام عورتوں کوپہلی بار انسانی شرف عطاہوا۔ عورتوں کو وراثت کے حقوق پہلے عطاکر دیے گئے تھے اب اُن پر تحفظ اور احترام کی چادر تان دی گئی۔
محسنِ انسانیت کی آواز پھر گونجی
اے انسانو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تجارت حلال اور سود حرام کردیا ہے۔ آج کے بعد جو شخص سود لے گا (یعنی کسی مالی مشکل ضرورت یا پریشانی کا شکا ر قرضہ لینے والے کسی انسان کی مدد کرنے کے بجائے اس کا استحصال کریگا اور اصل رقم سے زیادہ وصول کریگا) وہ گناہ کا مرتکب ہوگا۔ ہر سود باطل ہے۔ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے، اس سلسلے میں آج میں عباس بن عبدالمطلب کا پورا سود منسوخ کر تاہوں۔ اُسوقت معاشرے میں فساد اور خون ریزی کی دو بڑی وجوہات تھیں، سود کا مطالبہ اور مقتول کا انتقام۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے فساد کے ان دونوں اسباب کو بیخ وبُن سے اکھاڑ دیا۔
سامعین محوِ حیر ت تھے۔ ایک لاکھ انسانوں کا مجمع حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ مقرر کا سراپا انسانی ہے مگر آواز ملکوتی اور پیغام خدائی ہے۔
ایسے حقوق جو اُس روز روئے زمین کے انسانوں کو عطاہوئے انسانیت ان سے صدیوں تک محروم رہی۔ ایسے عظیم الّشان تحفے جو اُن چند منٹوں میں انسانیت کو عطا ہوئے اس سے پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کائنات کی اُس ہستی کو، جسکی وساطت سے انسانوں کو یہ لازوال حقوق حاصل ہوئے، ربِّ کائنات نے ایک عظیم ایوارڈ اور بے مثا ل خطاب سے نوازا، اوراُسے رحمت اللعالمین کا لقب عطا کر دیا۔ بلاشبہ نبی کریمﷺ جہانوں کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ بلاشبہ حضرت محمدﷺجوانسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں، اسی خطاب کے حقدار تھے۔
پھر آواز آئی اے انسانو! جو یہاں موجود ہیں میرا یہ پیغام اُن لوگو ں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں حج کے لیے دوبارہ نہ آسکوں اور میر ی آپ سے پھر ملاقات نہ ہو سکے۔ یہ سنکر ہزاروں افراد کی داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں کہ وہ سمجھ گئے کہ رحمتوں سے لبریز یہ ا ٓواز وہ پھر کبھی نہ سن سکیں گے۔
انسانی تاریخ کے اس بے مثال خطاب میں روئے زمین کے تمام انسانوں کو سات بار مخاطب کیا گیا، مختلف زبانوں کی کتابوں میں جتنی بھی عظیم ترین تقریریں درج ہیں، یہ غیر معمولی خطاب ان میں سب سے مختصر ہے مگر انسانوں پر جتنا impact اس تقریر کا ہوا ہے اور انسانیت جتنی اس تقریر سے فیضیاب ہوئی ہے، آج تک کسی اور تقریر سے نہیں ہوئی۔
لَوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب۔۔۔ گنبدِ آبگینہ رنگ تیر ے محیط میں حباب
انسانوں پر ان کے اِحسانات کے بدلے کائناتوں کے خالق و مالک نے اپنے آخری نبی ﷺ کا مقام و مرتبہ اسقدر بلند کر دیا کہ دنیا کے ہر ملک ہر خطے اور ہر کونے میں ہر وقت خدا کے ساتھ محمد مصطفی ﷺ کا نام گونجتاہے۔
چَشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ورَفَعْنَا لَکَ ذِکرَْک، دیکھے