بہت سے تجزیہ کا ر مولانا کے آزادی مارچ کو درست طور پر مکافاتِ عمل کا نام دیتے ہیں کہ چند سال پہلے ایک منتخب وزیر اعظم صاحب کے خلاف عمران خان صاحب جو کچھ کرتے رہے آج وہی سب کچھ ان کے خلاف ہو رہا ہے۔ وہ خود جتھے لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے اسی طرح آج ان کے مخالفین یلغار کر رہے ہیں، آج وہ مولاناکے آزادی مارچ کو ملک کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں تو مختلف چینلزکلک کرتے ہیں اور للکارتے ہوئے خان صاحب نمودار ہوجاتے ہیں کہ " ہم ڈی چوک ضرور جائیں گے نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے" آج مولانا نے وہی بات کہی کہ یہ لاکھوں کا مجمع اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ بنی گالہ جا کر وزیراعظم کوپکڑلے تو وہ اس پر سیخ پا ہوگئے اور اسے ریاست کے خلاف بغاوت قرار دینے لگے۔
ملک کا درد رکھنے والے وہ لوگ جو کسی غیر آئینی اقدام کو غلط سمجھتے ہیں وہ بھی مولانا کے دھرنے کے خلاف بات کرنے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ یہ دھرنا اُس شخص کے خلاف ہے۔ جو خود انھی راستوں پر گامزن رہا ہے، اور جس نے خود اسلام آباد پر چڑھائی کرکے وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کی ابتداء کی تھی۔
غیر جانبدار مبصّرجب اُس دھرنے اور اس دھرنے کا مقابلہ کرتے ہیں تو اِ س دھرنے کو ہر لحا ظ سے زیادہ نمبر دیتے ہیں۔ تما م مبصّرین اس پر منتفق ہیں کہ تعداد کے لحاظ سے یہ دھر نا اُس دھرنے سے بہت بڑا ہے۔ یہ زیادہ منظّم ہے، اس دھرنے کے شرکاء کے ہاتھوں کوئی معمولی سا نقصان بھی نہیں ہوا، ریاست کے اہلکار وں پر حملے نہیں ہوئے اور خواتین کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی نہیں ہوئی۔ اُس دھرنے میں موسیقی اوررقص و سرود نمایاں تھا جب کہ اِس دھرنے کے شرکاء نمازوں اوردرسِ قرآن کے علاوہ والی بال اور کرکٹ کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں۔
ٹی وی چینلز پر جب حکومتی وزراء ارشاد فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے دھرنوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے، اور اپوزیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا چائیے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ واہ بھئی واہ! اُس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہو جسے آپ نے تسلیم ہی نہیں کیا، اور اُس فیصلے کے خلاف آپ نے اپیل (ریویو) دائر کر رکھی ہے بلکہ اُس فیصلے پر تو آپ اسقدر مشتعل ہوئے کہ آپ نے فیصلہ دینے والے معززّ جج صاحب کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا، آپ تو فیصلہ دینے والے منصف کو اس کے منصب سے ہٹا نے کے درپے ہیں، آپ کس منہ سے اُس فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ دھرنے کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا مگرکچھ نتائج تو آچکے ہیں، حکومت کمزرو ہوچکی ہے اور وزیرِاعظم کمزور تر، مولانا فضل الرحمان کاسیاسی قد کاٹھ مزید بڑھا ہے۔ یہ تو ان کے مخالف بھی مانتے ہیں کہ اس وقت ملک کے سب سے ذہین اور مدّبر سیاستدان کا نام فضل الرحمان ہے کہ دلیل اس کے ہاتھ کی چھڑی ہے اور الفاظ کے چناؤ کا ھُنر اس سے بڑھکر کسی سیاستدان کے پاس نہیں ہے، جو بات کوئی اور نہیں کر سکتا وہ مولانا کر لیتے ہیں مگر ایک سلیقے کے ساتھ، حُسنِ بیان کے ساتھ، مناسب اور موزوں الفاظ کے ساتھ۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں (جوپوری قوم نے سنا) کہا کہ " ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے، ہم اداروں کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ادارے غیر جانبدار رہیں "دوسرے روز پاک فوج کے ترجمان نے اِسپر تبصرہ کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا تبصرہ بھی معقول تھا انھوں نے بھی مولا نا کے تجربے اور ذہانت کی تحسین کی، مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ’ اگر انھیں کچھ شکایات ہیں تو وہ اداروں کے پاس لے جائیں اور یہ کہ جلسوں میں اداروں کے بارے میں باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے،۔ یہ درست اور معقول بات ہے اس ضمن میں راقم کی تجویز یہ ہے کہ مولا نا اور دوسرے قومی راہنماؤں کو جن اداروں سے شکایات ہیں تمام قومی رہنما اکٹھے ہو کران اداروں کے سربراہان سے ملا قات کریں اور اپنے تحفظات سے انھیں آگاہ کریں۔ اس سے یقینا بہتر نتائج برآمد ہونگے۔ اداروں کے سربراہ قومی سطح کے راہنماؤں (جوکروڑوں ووٹروں کی نمایندگی کرتے ہیں )کی رائے کو اہمیّت دیں گے اور کچھ شکایات کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔
وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ نہ بھی مانا جائے تو بھی اپوزیشن کچھ اور مطالبات منواسکتی ہے۔ فریقین کے درمیان سخت ترین کشیدگی ہوتوبھی بالآخر بات چیت کا دروازہ کھولنا پڑتا ہے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ مگر مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق جو دونوں سے طاقتور ہو، بیچ میں بیٹھے اور معاملات طے کرائے، کوئی ثالث ہی دونوں فریقوں کی گارنٹی دے سکتا ہے۔ ہمارے موجودہ سیاسی بحران میں وہ تیسرا فریق کونسا ہو سکتا ہے؟کیا اسپیکرصاحب یا صدر علوی صاحب وہ کردار ادا کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ثالثی کا وہ کردار صرف طاقتور ادارے ہی اداکرسکتے ہیں لہٰذا مشترکہ اپوزیشن کی اُن سے ملاقات ہی مفید نتائج برآمد کر سکتی ہے۔
اپوزیشن کو وزیراعظم کے استعفے کے علاوہ بھی بہت سی جائز شکایا ت ہیں مثلاً احتساب کے نام پر بدترین انتقام کا سلسلہ جاری ہے اور اس ملک میں پہلی بار بہنوں اور بیٹیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
مریم نواز کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے اور جس طرح اُسے بلاوجہ گرفتار کیا گیا(ہائیکورٹ نے ضمانت کے فیصلے میں اسے بے گناہ قرار دیا ہے) اور پھر منشیات فروشوں اور اخلاقی قیدیوں والی بیرک میں رکھا گیا، جہاں وہ بغیر تکیے کے فرش پر سوتی رہیں اسے ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچا کر بھی توڑانہ جا سکا، حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز کی جرأت اور عزمِ صمیم نے ظالموں کے ہر حملے کو پسپا کر دیا اور ہر سازش کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں انتقامی کاروائیوں، میڈیا پر پابندیوں، اور ججوں کے خلاف ریفرنس پر بھی بات کی جا سکتی ہے، اور فارن فنڈنگ والے کیس کا ٹائم فریم طے کرایا جا سکتا ہے۔
کل ایک وزیرصاحب کہہ رہے تھے کہ ریل کے خوفناک حادثے کے تحقیقات ریلوے پولیس نہیں کسی اور ادارے سے کرائی جائے تاکہ وزیر ریلوے انکوائری پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اسی طرح رانا ثنا ء اﷲ کے خلاف جو کیس بنا یا گیا ہے، ایف آئی کے تین نیک نام افسر اس کی تفتیش کریں اور دس روز میں اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردیں تا کہ انصاف کے تقاضے پور ے ہو سکیں۔ اس شدید بحران میں حکومت کا عالم یہ ہے کہ 105 مہلک حادثوں کے باوجود ریلوے کے وزیر کو فارغ نہیں کیا گیا۔ موصوف بدستور قائم ودائم ہیں اور ریلوے کے علاوہ ملک کے ہر اشو پر طبع آزمائی کا شوق پورا کر تے رہتے ہیں وہ اس لیے قائم ہیں کہ شریف برادران کو گالیاں دینے کی ڈیوٹی بخوبی اداکررہے ہیں۔
اُدھر فواد چوہدری مخالفین پر زمین تنگ کر دینے کی بات کر ر ہے ہیں۔ اطلاعات کی مشیر صاحبہ بھی اپوزیشن کا غصہ ٹھندا کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیے جارہی ہیں، میں نے جب ایک اہم حکومتی شخصیّت سے اس مو قع پر ایسے نامناسب بیانا ت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ " اگر یہ ایسے بیان نہ دیں تو ان کی نوکری خطرے میں پڑجائیگی، خان صاحب ایسے بیان ہی پسند کرتے ہیں "۔ خان صاحب خود ایک ہی رَٹ پر قائم ہیں "میں این آر او نہیں دونگا " یہ بیانیہ دلیل سے عاری اور اثر سے محروم ہے کیونکہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلے کے بعد این آر او کوئی بھی نہیں دے سکتا، پھر یہ کہ اس مارچ کے سالارِ اعظم مولا نا فضل الرحمان کے خلاف نہ کوئی کیس ہے نہ وہ گرفتار ہیں، تیسرا یہ کہ اب یہ بات کُھل چکی ہے کہ نواز شریف کو باہر جانے پرمجبور کیا جا رہا ہے مگر وہ انکاری ہیں۔ وزیراعظم کی اس رَٹ پر ایک مراثی کا لطیفہ یا د آرہا ہے لیکن وہ پھر کبھی سہی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں، ایک سال میں کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں، معیشت اور ادارے برباد کر دیے گئے ہیں اور اپوزیشن کا احتجاج بلا جواز نہیں ہے مگر ان کے موقف سے اتفاق کے باوجود یہ نا چیز اس بات کا حامی نہیں ہے کہ دھرنوں کے ذریعے وزیراعظم سے استعفیٰ لیا جائے۔ یہ راستہ آئینی نہیں ہے اور جمہوری روایات میں اس کے لیے سندِ جواز تلاش کرنا مشکل ہے۔
وزیراعظم کے استعفے کے علاو ہ اپوزیشن کو کیا concesións دی جا سکتی ہیں، اور کونسا درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے، طاقتور ثالثوں کی موجودگی میں اگر مندرجہ ذیل امور طے ہو جائیں تو بھی اسے فریقین کے لیے فیس سیونگ سمجھا جانا چائیے۔
.1عمران خان صاحب 2014میں ڈی چوک پر ہونے والی یلغار کو غیر آئینی قرار دیں اور اس پر قوم سے معافی مانگیں۔
.2پی ٹی آئی کا وکیل الیکشن کمیشن کو لکھ کر دے کہ فارن فنڈنگ کیس کا دو ہفتوں میں فیصلہ کر دیا جائے۔
3 .حکومت جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لے لے تاکہ عدلیہ پر دباؤ ختم ہو۔
.4 اپوزیشن لیڈروں کے خلاف نیب کے بنائے گئے کیسز کی، نیب کے بجائے ایف آئی اے اور انکم ٹیکس کے نیک نا م افسروں کی ٹیم سے انکوائری کرائی جائے۔
اگر یہ مطالبات مان لینے سے ملک ایک بڑے بحران اور اس کے خوفناک نتائج سے بچ جائے تو وزیر اعظم کو یہ باتیں مان لینی چائیں اور مولانا کو دھرنا ختم کردینا چائیے۔