کشمیر کی انتہا ئی سنگین صورتِ حال کے پیشِ نظر ایران کا سفر نامہ موّخر کر رہا ہوں۔ پاکستان کے عوام خصوصاً نئی پود اگر جاننا چاہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کا کیا رشتہ ہے؟ اور کن وجوہات کی بناء پر کشمیرہمیں اتنا عزیز ہے تو سن لیں کہ اس وقت پوری وادی کشمیر صرف ایک نعرے سے گونج رہی ہے کہ
پاکستان سے رشتہ کیا
لَااِ لہ ا لاّ للہ
کشمیر کے بیٹے ہوں یا بیٹیاں، بھارتی فوجیوں کو دیکھتے ہی باآواز بلند یہ نعرہ لگا کر پاکستان سے اپنے لازوال رشتے کا اعلان کرتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کو معلوم ہونا چایئے کہ کشمیر کی مائیں اپنے شہید ہونے والے جوان بیٹوں کے لاشے اپنے ہاتھوں سے پاکستانی پرچم میں لپیٹتی ہیں اور انھیں قبر میں اتارنے سے پہلے اپنے شہید بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہیں اور پھر پاکستانی پرچم کو چومتی ہیں۔ دنیا کے غیرجانبدار صحافیوں کے مطابق کشمیر کے مسلمانوںنے وادی کے ہر کھمبے اور درخت پر پاکستان کے جھنڈے لہرادیے ہیں۔
پاکستانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کے ہر گھر سے ہر روز کسی نہ کسی خوبرومسلم نوجوان کا جنازہ اٹھتا ہے، ہر روز کسی مسلم گھرانے کی بیٹی کی عزتّ لٹتی ہے، اور ہرروز بھارتی درندوں کی پَیلٹ گنوں سے معصوم کشمیری بچوں کے چہرے مسخ ہوتے ہیں اور ان کی آنکھیں ضایع ہوتی ہیں، مگر کشمیر کے مظلوم مسلمان اپنے دکھ درد بھول کر ہر نماز میں پاکستان کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ کشمیر کی ہر مسجد میں پانچ وقت پاکستان کے استحکا م اور ترقّی کے لیے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔
اپنی پوری زندگی، اور تما م صلا حیتیں اور توانائیاں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کے لیے وقف کر دینے والے سب سے بزرگ اور مقبول رہنما سیّد علی گیلانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ہے تو یقینا بات ہی ایسی ہے۔ وہاں کی صورتِ حال غیر معمولی ہے۔
اگر پاکستانی قوم کشمیری مسلمانوں کی SOS کال پر لاتعلّق رہی، تو ہم رب ذوالجلا ل کو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ اورشرمندگی کے مارے آقائے دو جہاںﷺ کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔
کیا ہم اپنے خالق ومالک کا یہ فرمان بھول گئے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی مظلوم مسلمان مد د کے لیے پکاریں تو ان کی مدد کرنا تمہارا فرض ہے۔ اور کشمیر تو وہ خِطّہ ہے جسے بانی پاکستان نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے، کیا جسم اپنی شہ رگ سے لاتعلّق رہ سکتا ہے؟ اگر شہ رگ لہو لہان ہو تو کیا جسم چَین اور سکون سے رہے گا؟
بھارتی درندوں نے کشمیر یوں پر ہر قسم کے ظلم ڈھاکر دیکھ لیا کہ اب وہ آزادی کے علاوہ کوئی بات سننے کے لیے تیا ر نہیں، اب وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں، بھارت اب ان کے لیے صرف غاصب ملک ہے۔ لہٰذا اب مودی اور بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے جو دونوں ہندوتوا فلسفے(یعنی جو بھی بھارت میں رہنا چاہتا ہے وہ ہندو بن کر رہے ) کے علمبردار ہیں، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو ہمنوا بنا کر1947سے تسلیم شدہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے، انھوں نے اپنے آئین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35-A (جو 1954سے نافذ العمل ہے) منسوخ کرکے وادی کشمیر کواس کے اسپیشل اسٹیٹس سے محروم کر دیا ہے۔
جو اہرلا ل نہرو کے دور سے یہ دفعات بھارتی آئین میں شامل کی گئیں جن کے تحت کوئی بھی شخص باہر سے جاکر وادیء کشمیر میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا اور شہریّت نہیںلے سکتا۔ وہاں کی زمین اور جائیداد کا حق صرف وہاں کے اصلی باشندوں کو حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی یہ دفعات تبدیل کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اس کے حق میں قرار داد پاس کرے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی ہائیکورٹ اور بھارت کی سپریم کورٹ بھی فیصلے دے چکی ہیں کہ یہ دفعات ناقابلِ تنسیخ ہیں۔
مگر اب بی جے پی کی کٹّر انتہاپسند قیادت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے یہ دفعات منسوخ کر کے وہ خطر ناک اقدام اٹھایا ہے جو اس سے پہلے کوئی بھارتی حکومت نہ اٹھا سکی، کیونکہ کوئی بھی اس انتہاتک جانے کے لیے تیا ر نہ ہوا۔ لہٰذا اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مودی حکومت کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے اور باہر سے ہندو انتہا پسند وں کو کشمیر میں جائیدادیں اور زمینیں لے کر دینے، وہاں آباد کرنے اور مسلمانوں کو اقلیّت میں بدلنے کا خوفناک منصوبہ بنا چکی ہے جِس پر عملدرآمد شروع کردیاگیاہے۔ اس صورتِ حال میں ہماراکیا فرض بنتاہے؟
پوری دنیا کے مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے باشندوں (چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں)کا فرض ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انھیں واضح پیغا م بھیجیں کہ "ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم آ پ کو genocide کا شکا ر نہیں ہونے دیں گے"۔
٭ملک کی سیاسی اور عسکر ی قیادت کھل کر اعلان کرے کہ ہم کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام نہیں ہو نے دیں گے اور ان کی حفاظت کے لیے سب کچھ کر گذریںگے۔
٭ اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، (ایک اطلاع کے مطابق مشترکہ اجلاس بلالیا گیاہے) اپنے تما م تر اختلافات بھلاکر تمام سیا سی قائدین متحّد ہو کر کشمیریوں کے قتلِ عام کے خلاف زوردار قراردار پاس کرکے اقوامِ متحدہ اور اہم ملکوں کے سربراہوں کو بھیجیں۔
٭پاکستان فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلوائے اوربھارت کے خلاف اس کھلی دہشت گردی پر Sanctions لگوانے کی کوشش کرے۔
٭ وزیراعظم عمران خان صاحب خود امریکا، برطانیہ، چین، روس، ترکی، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، یواے ای اور ملائشیا کے حکمرانوں کو فون کرکے حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ان پر زور دیں کہ وہ بھارت کو اس بربریّت سے روکیں، اور اسے مجبور کر یں کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت قائم رکھے۔
٭ امریکا اور برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر فوری طورپر وہاںکے بااثر پاکستانیوں اور کشمیریوں کی میٹنگز بلائیں اور انھیں moblise کریں کہ وہ اُن ملکوں کے اہم حکّام سے ملکر انھیں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کریںتا کہ وہ بھارت کو اس شیطانی منصوبے سے باز رکھنے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔
٭ کشمیر کا مقدمّہ بہتر طور پر پیش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے (جو انگریزی لکھنے اور بولنے پر عبور رکھتے ہوں) افراد پر مشتمل وفود فوری طور پر اہم ملکوں میں بھیجے جائیں تاکہ وہاں کے حکمرانوں کو کشمیر کے حالات کی سنگینی اور مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار سے آگاہ کیا جائے۔
وزیر اعظم صاحب امریکا کے دورے سے ابھی لَوٹے بھی نہیں تھے کہ یہاں اُن کے ترجمانوں نے دورے کی کامیابی کے دعوؤں سے آسمان سر پر اٹھالیا۔ کئی ترجمانوںنے سیّد علی گیلانی کا جعلی بیان اُن سے منسوب کیا کہ "تاریخ میں پہلی بار پاکستانی قیادت نے اتنے موثر طریقے سے کشمیر کا مقدمہ لڑاہے"، کئی وزیروں نے یہ تاثر دیا کہ عمران خان صاحب نے صدر ٹرمپ کو اس طرح قائل کیا ہے کہ سمجھ لیں کہ کشمیر کامسئلہ تو حل ہوہی گیا۔ ایک دو وزیر وں نے تو عمران خان صاحب کو فاتحِ کشمیر کا خطاب بھی دے دیا تھا، اور" فاتحِ کشمیر"کی حیثیت سے ہی ان کا استقبال کیا گیا۔ مگر حقائق ان سب دعوؤں کے برعکس نکلے۔ امریکی صدر نے ثالثی کی بات پاکستانی قیادت کے زور دینے پر نہیں کی بلکہ واشنگٹن میں ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں کی تھی۔ جس سے بھارتی حکومت نے انکار کر دیا۔ مگرابھی امریکی ثالثی کی یکطرفہ بات پر حکومتی جشن کی تھاپ بھی مدہم نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی حکومت نے چالیس ہزار فوجی کشمیر میں اتار دیے ہیں اور عالمی اداروں کی قراردادیں روندتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی تبدیل کر دی ہے۔
کیا بھارتی حکومت کے اس انتہا پسند انہ اقدام سے کشمیریوںکی تحریک دب جائے گی؟بالکل نہیں بلکہ اس نے کشمیر کے بھارت نواز لیڈروں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی کو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ "دوقومی نظریہ درست تھا اور ہمارے بزرگوں نے اسے تسلیم نہ کرکے اور بھارت کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی۔
شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب آتش چنار میں لکھّا ہے کہ جنا ح صاحب نے اُسے کہا تھا کہ" دیکھو میں انھیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں، کانگریس پر کبھی اعتبار نہ کرنا"۔ شیخ عبداللہ کا پوتا عمر عبداللہ بھی اب ایسی ہی بات کر رہا ہے اور بھارتی حکمرانوں پر اعتبار کرنے کی غلطی پر پچھتا وے کا اظہار کر رہاہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے تما م مسلم قائدین متحد رہتے اور ان میں سے کچھ ذاتی مفاد کا شکار نہ ہوتے یا بھارتی حکمرانوں کے بہلاوے میں نہ آتے تو اب تک کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ میر ے خیال میں ہندو انتہا پسندوں کا یہ اقدام Blessing in disguise ثابت ہوگا۔ اس سے کشمیری مسلمانوں کی سیاسی قیادت متحد ہو جائے گی، اور آزادی کی منزل قریب آئیگی۔
کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کو سلا م کہ آج بھی یاسین ملک تہاڑ جیل میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے، شبیر شاہ پسِ دیوارزنداں ہے، عمر فاروق بند ہے اور کشمیر کا بوڑھا شیر سیّد علی گیلانی پچھلے ستّر سال سے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہندو درندوں سے پنجہ آزماہے۔
کیا کشمیریوں کی لازوال قربانیا ں ضایع جائیں گی؟ ہرگز نہیں؟ کیا فرانس، الجزائر کو اپنا صوبہ بنانے کے باوجود غلام رکھ سکا؟کیا اِیسٹ تیمور آزاد نہ ہوا! تاریخ کی دیوار پر لکھّا نظر آرہا ہے کہ لاکھوں کشمیر ی مسلمانوں کی جدوجہد سے غلامی کی زنجیریں کٹ جائیں گی اور آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔