شاہی بازار میں قریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد ہم ایک بہت بڑے گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور صفدر نے نعرہ لگادیا "نقشِ جہاں۔ آگیا نقشِ جہاں" میں نے چاروں طرف دیکھا تو ایک خیرہ کن نظارہ تھا، نظریں کسی ایک جگہ ٹِک ہی نہیں رہی تھیں۔
کبھی یہ میدانِ نقشِ جہاں کہلاتا تھا مگر اب اسے میدان نہیں کہا جا سکتا، یہ ایک مستطیل شکل کا وسیع وعریض اسکوائر ہے ( جو رات کو بقعہء نور بنا ہو ا تھا) جو سیر گاہ بھی ہے، پکنک پوائنٹ بھی ہے، شاپنگ سینٹر بھی ہے اور تاریخ کا ایک شاندار نقش بھی ہے جو واقعی نقشِ جہاں کہلانے کا حقدار ہے۔
اس کے چاروں طرف دکانیں ہیں اور اس کے اندر فٹ پاتھ بھی ہیں، روشیں بھی ہیں، سبزہ زار بھی ہیںاورچھوٹی سی جھیل بھی ہے، ہم نے دیکھا کہ ہزارہا لوگ گھومنے پھرنے اور پکنک منانے اور اس جگہ کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے کے لیے موجود ہیں، سیکڑوں فیمیلیز سبزہ زاروں پر صفیں اور دسترخوان بچھاکر گھروں سے لائے ہوئے کھانے کھا رہے ہیں۔
بچے بھاگتے پھر رہے ہیں، بڑوں کے قہقہے گونج رہے ہیں، لڑکے سائیکلوں کی ریسیں لگا رہے، کچھ فیمیلیز سجی سجائی بگھیوں پر سیر کر رہی ہیں، بہت سے لوگ دکانوں سے خریداری کر رہے ہیں اور ہم جیسے سیاح اس حیرت کدے کو چاروں طرف گھوم پھر کر دیکھ رہے ہیں۔ بلا شبہ رات کو دن کا سماں تھا، میں نے صفدر سے کہا میں نے بڑی دنیا گھومی ہے یورپ کے بڑے ملکوں کی سیر کی ہے، بڑے بڑے اسکوائر دیکھے ہیں مگر ایسا دلفریب اور ایسا شاندار اسکوائر کہیں نہیں دیکھا جس نے بھی اس کا نام نقشِ جہاں رکھّا ہے درست رکھا ہے۔ اس کے حسن وجمال اور عظمت وشکوہ کے باعث اسے یونیسکو کی world Heritage Sites میں شامل کر لیا گیا ہے۔
نقشِ جہاں کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 1598 میں جب صفوی حکمران شاہ عباس ثانی نے دارالحکومت قضوین سے اصفہان منتقل کیا تو اُس نے اسے دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنانے کا پروگرام بھی بنا لیا۔ اس کے لیے اس نے ایک ماہرِ تعمیرات شیخ بہاؤالدّین کی خدمات حاصل کیں۔ اُس نے نقشِ جہاںکے نام سے اَیسا Land mark تعمیر کیا۔ جس نے اصفہان کے حسن کو چار چاند لگادیے۔
نقشِ جہاں کی مشرقی جانب شیخ لطف اللہ مسجد ہے، مغربی حصّے میں علی کاپو محل ہے جہاں شاہ عباس رہائش پذیر ہوتا تھا۔ شمالی کونے میں قیصریا گیٹ ہے جوشاہی بازار میں کھلتا ہے۔ جب کبھی یہ صرف میدان تھا اس وقت یہ پولو کھیلنے کے لیے بھی استعمال ہو تا تھااور صفوی حکمران محل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر پولو اور گھڑ دوڑ دیکھا کرتے تھے۔
شاہ عباس نے طاقت کے مختلف مراکز کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا، یعنی تاجر، مذہبی لیڈر اور بادشاہت، لہٰذا شاہی بازار اور جامع مسجد کو شاہی محل سے متصل کردیاگیا۔ یاد رہے کہ اُس زمانے میں اصفہان دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا اور صفوی سلطنت دنیا کی سُپر پاور ز میں سے ایک تھی، احساسِ کمتری کا شکار ہونے والے ہمارے آجکل کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چائیے کہ اُسوقت دنیا میں تین سپر پاورز تھیں اور تینوں مسلمانوں کی تھیں۔ سلطنتِ عثمانیہ جس کا حکمران سلیمانِ اعظم تھا، صفوی سلطنت کا حکمران عباسّ اعظم اور مغلیہ سلطنت کا اکبر اعظم۔
یورپ کے سفیر اور سیاّح جب اصفہان آتے تھے تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے تھے اور نقشِ جہاں تو دیکھنے والے ہر شخص کے دل پر ایک نقش چھوڑ دیتا ہے۔ اُس وقت کی عظیم سلطنت ِروم کے سفیر نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ "نقشِ جہاں کی شان وشوکت روم کے پیازہ نادونااسکوائر سے کہیں زیادہ ہے"۔ آجکل یہاں نوروز اور دوسری مذہبی اور سیاسی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔
علی کاپو محل چھ منزلوں پر مشتمل ہے جو ستر سال میں مکمل ہو ا۔ محل کے دربار ہال میں شاہ عباس غیر ملکی سفیروں سے ملا کرتا تھا، محل کی دیواریں اور چھت پینٹنگز سے مزیّن ہیں اور ستونوں پر شیشے جڑے ہو ئے ہیں اس کی تعمیر کو صدیاں بیت چکی ہیں۔ یہ کئی بار موسمی شدتّ اور عوامی شورشوں کی نذر ہوا، مگر آخری صفوی حکمران شاہ سلطان حسین نے اس کی مرمت کرائی اوراسے اصلی حالت میں بحال کیا۔
ہم کبھی فٹ پاتھوں پر پھرتے کبھی سبز گھاس کی روشوں پر چلتے، کبھی مغربی جانب آتے تو کبھی مشرقی سمت کاچکر لگا تے۔ نقشِ جہاں کے مناظر نے ہمیں اسقدر مسحور کر دیاتھا کہ دل کرتا تھا کہ رات وہیں گزار دیں۔ لیکن فاطمہ کا مشورہ یاد آگیاکہ رات خاجو پُل پر جانا نہ بھولیں۔ لہٰذا وہاں سے نکل کر ایک قریبی ریستوران سے جلدی جلدی کھانا کھایا اورٹیکسی لے کر خاجو پُل پر پہنچ گئے۔
اصفہان شہر کے بیچوں بیچ بہنے والے دریا زیاندے رُود پر بنایا گیا یہ مضبوط اور خوبصورت پُل 133میٹر لمبا، اور 12میٹر چوڑا ہے۔ اس میں 23محرابیں بنائی گئی ہیں، یہ پُل بھی شاہ عباسّ دوم نے 1658میں تعمیر کرایا تھا اور اس کے بعد1873 میں اس کی دوبارہ مرمت کرائی گئی۔ ایک انگریز مورّخ آرتھرپوپ کے مطابق خاجوپل تین چیزوں یعنی افادیّت، خوبصورتی اور مضبوطی کے امتزاج کا حسین شاہکار ہے۔
ہم پُل پر پہنچے تو وہاں بھی ایک عجیب نظّا رہ تھا، رات گئے بھی ہزاروں لوگ پُل پر چہل قدمی کررہے تھے۔ اور سیکڑوں پانی میںاُترتی ہوئی سیڑھیوں پر بیٹھے تیز پانی میں پاؤں لٹکائے حسین موسم اور سحر انگیز ماحول سے لطف اٹھا رہے تھے، کہتے ہیں کہ شاہ عباس بھی کبھی کبھار آکر ان سیڑھیوں پر بیٹھا کر تاتھا۔ کچھ نوجوانوں نے محرابوں میں موسیقی کی محفلیں سجارکھی تھیں۔
صفدر بار بار مجھے کہہ رہے تھے آپ نے ایران آکربہت سے لوگوں سے پابندیوں اور صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا ردِّ عمل پوچھا ہے۔ اب آپ نے خود دیکھ لیا ہے اپنی آنکھوں سے۔ یہ زندہ دل اور بہادر قوم ہے، انھیں کوئی پریشانی نہیں۔ میں نے کہا اس لیے کہ یہ کبھی غلام نہیںرہی یہ اعلیٰ اور ارفع روایات کی حامل قوم ہے۔ دراصل غلامی قوموں کو بزدل اور ان کی ذہنیّت کو پَست اور ادنیٰ بنادیتی ہے۔
وہاں سے نکلے تو صفدر نے کہا دریا پر آکر سی او سی (Si-o-Si) پُل نہ دیکھاجائے تو یہ بھی زیادتی ہوگی ہم نے کہا " ٹھیک ہے مگر نقشِ جہاں اور خاجو پل پر مسلسل چلنے سے تھک گئے ہیں، وہاں تک ٹیکسی پر ہی جا سکیں گے"۔ صفدر نے کہایہ ساتھ ہی تین چار منٹ کی تو واک ہے، خیر ہم پیدل چل پڑے۔ دریا کے دونوں کناروں کو بہت اچھا developکیا گیا ہے، یہ سیرگاہ بھی ہے اور نوجوانوں کی ورزش کے لیے جگہ جگہ مشینیں بھی نصب کی گئی ہیں، رات ڈھل چکی تھی پھر بھی دریا کے کنارے سبزے پر سیکڑوں لوگ چادریںاور چاندنیاں بچھاکر بیٹھے ہوئے تھے اور بہتے ہوئے پانی کا نظارہ کررہے تھے۔
راستے میں پانچ چھ جگہوں پر ہم نے لوگو ں سے پوچھا کہ سی او سی پل کتنی دور ہے تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ "آپ پانچ منٹ میں پہنچ جائیں گے" خیر سب کے پانچ پانچ منٹ ملاکر ہم تیس منٹ پیدل چل کر سی او سی پل پر پہنچ گئے۔ دریائے زیاندے رود پر کل گیارہ پل ہیں اور سی۔ او۔ سی تمام پلوں سے زیادہ طویل اور سب سے زیادہ معروف ہے، کیونکہ یہ اصفہان کی نائٹ لائف کا بھی مرکز ہے، لوگ یہاں شام کو آکرواک کرتے ہیں، یہاں مختلف تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں اور موسیقی کی محفلیں بھی جمتی ہیں۔
یہ پُل تین سو میڑ لمبااور 14فٹ چوڑا ہے اور اسمیں 33محرابیں ہیں۔ یہ بھی شاہ عباس کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا: صفدر کا خیال تھاکہ ہم پوری کی پوری تینتیس محرابیں دیکھ کر جائیں، مگر ہمارا اب تھکاوٹ سے بُرا حال تھا۔ لہٰذا میں نے کہا " بھائی صفدر !ساری محرابیں نظر آرہی ہیںلیکن پھر بھی اگر آپ کو ان کی پیمائش مقصودہے تو کل صبح فیتہ لے کر آجائیں گے اور ناپتے رہیںگے "صفدر نے سمجھ لیا کہ اب انھیں تھکاوٹ زیادہ تنگ کر رہی ہے۔
خیر ہم نے محرابیں ناپے بغیر پل کو خیر باد کہا اور ہوٹل کی جانب چل پڑے پھر خوشخبری ملی کہ " تین چار منٹ کی واک پر ہی ہمارا ہوٹل ہے"، خیر دس بارہ منٹ چلنے کے بعد ہم بالآخر ہوٹل پہنچ گئے۔ میں فوراً اپنے کمرے میں پہنچ کرلباس تبدیل کرتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگیا اور جلد ہی نیند کی وادیوں میں جا پہنچا۔
صبح اُٹھے تو بالکل تازہ (Fresh)تھے ناشتے کے لیے طَعام گاہ میں داخل ہوتے ہی تربوز نظر آگیا جسے دیکھتے ہی تروتازہ ہوگئے اور طبیعت نہال ہوگئی۔ اپنی دیرینہ روایت (یہ کہ بیرونی دوروں میں فروٹ پر زور رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ ہوٹل کا کم از کم آدھا کرایہ فروٹ سے نکالا جائے )برقرار رکھنے کی کوشش کی، کچھ صفدر نے بھی ساتھ دیا مگر سعدبالکل ساتھ نہ دے سکا اور اُس نے نوجوانوں والا ناشتہ ہی کیا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم لابی میں آگئے۔
گوکہ ہم تینوں نے ہی اصفہان کے تعارفی پمفلٹ پکڑرکھے تھے مگر پھر بھی خانم فاطمہ کی رہنمائی کو ضروری جانا اور اسی سے رجوع کیا۔ پوچھنے لگی" نقشِ جہاں کیسالگا؟"ہم نے بے اختیار کہا "superb، حُسن اور فن کاشاہکار ’Simply matchless، فاطمہ مسکراتی رہی۔ پھر ہم نے کہا " آپ بلا شبہ بہترین گائیڈ ہیں رات کو بھی آپ نے ہماری صحیح رہنما ئی کی ہم نے آپ کو اپنارہنما مان لیا ہے" ہنستے ہوئے کہنے لگی "سیاست میں بھی؟"ہم نے کہا، "اس میں تو ہم پہلے ہی ضرورت سے زیادہ خود کفیل ہیں صرف آج کے لیے آپکی رہنمائی درکار ہے۔
آج ہمیں کونسے تاریخی مقام دکھانا چاہیں گی؟ "کہنے لگی، "دیکھنے توآپ نے خود ہی ہیں مگر میں مشورہ دونگی کہ چہل ستون پیلس ضرور دیکھیں"۔ وہیں لابی کے شوکیس میں سجائے گئے کچھ بے حد خوبصورت سوونئیرز مجھے پسند آگئے، قیمت بھی زیادہ نہ تھی، اس لیے وہیں خرید لیے اور پیک کروا کے فاطمہ کے پاس رکھوا دیے۔ کچھ دیر بعد ٹیکسی آگئی اور ہم منزل کی جانب چل پڑے۔
(جاری ہے)