عید وں کے تہوار میں ہمیشہ اپنے آبائی گاؤں کٹھوڑ میں مناتا ہوں، اس بار عید الضحیٰ کے موقع پر میں اپنے گاؤں میں تھا جہاں سیالکوٹ کے ہمسایہ شہر سمبڑیال (سیالکوٹ کا ایئر پورٹ اور ڈرائی پورٹ دونوں اسی شہر کے مضافات میں ہیں )سے چند شرفاء ملنے آئے اورمجھے اپنے سالانہ جلسئہ تقسیمِ انعامات کے لیے مدعو کیا۔
میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ کچھ تعلیم دوست حضرات نے پاکستان کے قابلِ فخر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام پر ایسوسی ایشن قائم کر رکھی ہے جو تحصیل سمبڑیا ل میں میٹرک کے امتحان میں امتیازی پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلباوطالبات کو طلائی تمغے اور دیگر انعامات دیتی ہے۔ مقصد بڑا اَرفع تھا لہٰذا میں نے ان کی دعوت قبول کر لی اورکچھ عرصے بعد مقررہّ تاریخ پر اسلام آباد سے تین گھنٹے کا سفر کرکے وہاں پہنچ گیا۔
تقریب کے منتظمین اور شہر کے معزّزین کے علاوہ اساتذہ اور طلباء کا بہت بڑا اجتماع تھا۔ علاقے کی ممتاز شخصیّت اور ہمارے دوست میجر ڈاکٹر اقبال چیمہ(فیملی اسپتال کے چیف ایگزیکٹو) بھی موجود تھے۔ سمبڑیا ل کی نوجوان اسسٹنٹ کمشنر مرضیہ سلیم (جن کے بارے میں ہر طرف سے بہت اچھی خبریں ملیں )، بڑے تپاک سے ملیں اوربڑے عزّت واحترام کے جذبات کا اظہار کرتی رہیں۔ انھوں نے اپنی مختصر تقریر میں بھی یہی کہا کہ" آج کے مہمانِ خصوصی سے مجھے ہمیشہ بہتInspiration ملی ہے اورآج اُن سے ملاقات میرے لیے بے حد مسّرت اور اعزاز کا باعث ہے"۔
امتیازی پوزیشن لینے والے طلباو طالبات میں میڈل تقسیم کرنے کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی تو میں نے اپنی معروضات میں ماہِ ستمبر میں ہونے والے دواہم واقعات کا ذکرکیا۔ 6ستمبر1965 کو پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تھا اور 11ستمبر کا دن بانیء پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا یَومِ وفات ہے۔
دونوں پر بات ہوئی، آج کے نوجوان چونکہ 1965 کے جذبوں سے آگاہ نہیں ہیں اس لیے انھیں بتایا گیا کہ جب دشمن نے وطنِ عزیز کے خلاف جنگ چھیڑدی اور اس کی فوجیں لاہور کی جانب بڑھنے لگیں تو 6ستمبر1965 کی صبح صدرِ پاکستان نے ریڈیوپر (اُس وقت ابھی ٹی وی شروع نہیں ہوا تھا)قوم سے خطاب کیا کہ " دشمن نہیں جانتا کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کے سینوں میں لا الہ ا ِلاَ للہ محمد الّرسول اللہ کا مقدّس کلمہ موجزن ہے۔ مسلّح افواج کے شیرو آگے بڑھو اوردشمن کی توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردو"۔
صدر کی تقریر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ زندہ دلانِ لاہور بندوقیں، لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر محاذِ جنگ طرف دوڑپڑے تاکہ دشمن کو روکا جائے۔ پاکستان ایئرفورس کے شاہینوں نے چند روز میں ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور بَرّی اوربحری فوج نے دشمن کی پیش قدمی روک دی۔ پاکستان کی افواج اور قوم نے ملکر اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا۔
تقریر میں 6ستمبر 1965کے جذبوں اور ولولوں کا ذکر بھی ہوا اور نئی نسل کو بتایا گیا کہ کس طرح ہر شہر اور ہر قصبے سے ہر روز طلباء کے جلوس اور نوجوانوں کی ٹولیاں یہ پکارتے ہوئے نکلا کرتی تھیں کہ
اے وطن تونے پکاراتو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
یوں لگتا تھا کہ پورے ملک پر ایک نور اور تقدّس کی چادر تن گئی ہے۔ جرائم ختم ہوگئے، تاجروں نے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری چھوڑدی، ہر شخص مادرِ وطن کے دفاع کے جذبوں سے سرشار تھا۔ اب پھر ہم مودی اور اس کی فوج کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ناپاک سازشوں سے باز آجائیں ورنہ پھر ؎ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
بانی ٔ پاکستان کے کردار کی عظمتوں اور رفعتوں کا ذکر ہوااور اس سلسلے میں سامعین کوکئی واقعات سنائے گئے، کہ قائدؒ ملک کے چھوٹے سے چھوٹے سے قانون کا احترام کرنا ایمان کا حصہ سمجھتے تھے، موجودہ حکمرانوں کیطرح کے پروٹوکول اور کروفر کو ناپسند کرتے تھے اور اپنی ذات پر سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی خرچ کرنے کے روادار نہ تھے۔ وہ جو کہتے تھے کرکے دکھاتے تھے، فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے مگر جب فیصلہ کر لیتے تو اس سے انحراف نہیں کرتے بلکہ اُس پر ڈٹ جاتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ صرف تقریروں میں قائدِ اعظم کا نام استعمال کرنے کے بجائے ان کے نقشِ پا پر چلیں اور ان کی قائم کی گئی اعلیٰ روایات کی پاسداری کرنے کی کوشش کریں۔
ان دو موضوعات پر بات کرنے کے بعد کچھ تلخ باتیں بھی ہوئیں اور اس دلخراش حقیقت کا اعتراف کیا گیا کہ ہمارے معاشرے میں مجرمانہ سوچ نشوونما پاچکی ہے، ہم اخلاقی گراوٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ ہم سے بہت چھوٹے اور غریب ملکوں میں کھانے پینے والی اشیاء بالکل خالص ملتی ہیں اور ان میں ملاوٹ کا کوئی تصّور نہیں ہے مگرہمارے ہاں اب انسانی خوراک سے متعلق کوئی چیز کہیں سے خالص نہیں ملتی۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی اس احساس اور سوچ نے جنم لیا کہ دواؤں میں ملاوٹ کرنا یعنی جعلی اور غیرمیعاری دوائیں تیّارکرناغیر انسانی فعل اور سنگین ترین جرم ہے، لہٰذا انتہائی غریب معاشروں میں بھی جعلی دوائیں تیار کرنے کا کوئی تصورّ نہیں ہے مگر ہمارے ہاں اصلی دوا کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔
ہمارے نوجوان تلاشِ معاش کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں، بڑے دکھ کی بات ہے کہ وہاں بھی ان کی سرگرمیاں وہی ہیں جو وہ اپنے ملک میں رہ کر کرتے رہے یا دیکھتے اور سیکھتے رہے۔ بیرونِ ممالک میں جب ہمارے سفارتکار بتاتے ہیں کہ اس ملک کی جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہمارے لوگ منشیات کی اسمگلنگ کے ایسے ایسے شیطانی طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔
اس سنگین جرم میں جب سعودی عرب کے کسی چوک میں کسی پاکستانی کا سر اُترتا ہے تو دراصل پوری پاکستانی قوم سولی سے لٹک جاتی ہے۔ جب ہمارے نوجوان یورپ کے کسی شہر میں فراڈیا cheating میں پکڑے جاتے ہیں تو پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتاہے۔ اور یہ جان کر تو دل سیپارہ ہوجاتا ہے کہ ہمار ے ہی معاشرے کے، ہماری ہی قوم کے ہمارے ہی ہاتھوں کے پلے ہوئے، ہمارے ہی اسکولوں سے پڑھے ہوئے کچھ ایسے بد بخت بھی ہیں جنھوں نے حرمین شریفین کے تقدّس کو بھی پامال کیا اور مکّہ اورمدینہ میں بھی ایسے سنگین جرائم کا ارتکا ب کیا جن کا کوئی کلمہ گو ذکر بھی گوارہ نہیں کرتا۔
امریکا اور چند یورپی ممالک میں پاکستان کے ڈاکٹرز اور انجینئرز نے بلاشبہ اپنی قابلیّت اور اپنے اچھے طرزِ عمل اور اعلیٰ بودوباش سے اپنے لیے قابلِ رشک مقام حاصل کیا اور وطنِ عزیز کی عزتّ میں اضافہ کیا ہے۔ مگر باقی ممالک خصوصاً عرب ممالک میں پاکستانی باشندوں کی اکثریت نے اپنے پست طرزِ زندگی اور غیر اخلاقی حرکات سے ملک کے دامن پر سیاہ دھبّے لگا دیے ہیں۔
ترکی شائد دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے عوام بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے ٹوٹ کر محبّت کرتے ہیں۔ دو سال پہلے ترکی جانے کا اتفاق ہوا توپاکستان کے سفیر صاحب نے ظہرانے پر مدعو کیا۔ میں نے اُن سے ایک ہی بات زور دیکر کہی کہ آپ کوشش کریں کہ ترکی میں پاکستانی مزدور یا دکاندار نہ آئیں۔ اگر آئیں تو صرف اعلیٰ کوالیفائیڈ ڈاکٹر یا انجینئر آئیں تاکہ یہاں وطنِ عزیر کا image خراب نہ ہو۔
تقریب میں راقم نے اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے اُن پر زور دیا کہ امتحان میں زیادہ نمبر لینا اچھی بات ہے مگر تعلیمی درسگاہوں میں سب سے زیادہ زور نمبر بازی پر نہیں کردار سازی پر ہونا چاہیے۔ بچوں کو زیادہ نمبر لینے کے لیے سوالوں کے جواب رٹانے کے بجائے ان کا کردار مضبوط کیا جانا چاہیے، اسکولوں میں رزقِ حلال، اچھائی اور نیکی سے محبت طلباء کی رگ وپے میں ڈالنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو غیر قانونی اور غیر اخلاقی ترغیبات کی مزاحمت کر سکیں ان کے دل و دماغ میں ان برائیوں کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہو چکی ہو کہ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔
اِسے گلہ کہیں یا گالی، جسے میں پاکستانی قوم کی طرف سے بارہا سُن چکا ہوں، غیر ملکی دوستوں کی طرف سے بھی اور غیرملکی جیلوں کے وارڈنز کی طرف سے بھی کہ"تم پاکستانی اپنے بچوں کی تربیت کیوں نہیں کرتے؟ پاکستانی والدین اپنی ذمیّ داری کیوں نہیں ادا کرتے؟ پاکستانی ٹیچرز ٹین ایجر طلباء کی تربیت پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟وہ انھیں برائی اور جرائم کے بارے میں sensitiseکیوں نہیں کرتے؟ کہاں ہیں پاکستانی والدین اور کہاں ہیں پاکستان کے ٹیچرز؟ اور معاشرے کے رہنما؟ اگر آپ لوگ اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر سکتے تو پھر انھیں پاس رکھو، اپنے گھروں میں بند کر کے رکھو، انھیں ہمارے ملک میں بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے لیے کیوں بھیج دیتے ہو۔ تمہارے نوجوان ہر قسم کا فراڈ اور نوسر بازی کرتے ہیں۔ وہ گھٹیا سے گھٹیا جرائم میں ملوثّ ہیں، انھیں دیکھ کر ہمیں ذرابھی خوشی نہیں ہوتی بلکہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ مجرمانہ ذہنیّت کے لوگ کس ملک کی پیداوار ہیں؟"کیا اس سے زیادہ کسی میں سننے کی سکت ہے؟کیا کسی حساس پاکستانی کے لیے اس سے بڑی کوئی سزا ہو سکتی ہے؟کیا ہمارے ملک کے لیے کوئی اس سے بڑی گالی ہو سکتی ہے؟
میری والدین، اساتذہ، علمائے کرام اور معاشرے کے تمام رہنماؤں سے دست بَستہ اپیل ہے کہ وہ بھول جائیں نمبروں کو اور اپنی اصل ذمے داری کا احساس کریں اور وہ ذمے داری ہے، بچّوں، طلباء، اور نوجوانوں کی تربیت، اخلاقی تربیت، اِسی سے معاشرے میں حُسن پیدا ہوگا اور اسی سے ایک بہتر قوم کا ظہور ہوگا۔