فروری کے مہینے میں پاکستانی عوام اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں مگر یہ ریلیوں، تقریروں اور تصویروں کی روایتی قسم کی کارروائی ہوتی ہے۔ کیا وزیراعظم یا حکومت کا کو ئی ذمے دار شخص ہندوستان کی ان کو ششوں سے واقف ہے کہ وہ کشمیری مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت تک ختم کرنے پر تلا ہواہے، حتی کہ کشمیر کے بے مثال پکوان وازوان کے خاتمے پر بھی اُتر آ یا ہے۔
ہندوستانی حکومت کی تما م کمینگیوں کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا فریضہ وہاں کے بہادر اور با ضمیر صحافی افتخارگیلانی بڑی حکمت اور جرأت سے نبھا رہے ہیں جب کہ کشمیر کے مقتل میں ان کے سُسر سید علی گیلانی پوری استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 2021کا ماہِ فروری بے مثال استقامت اور جرات انگیز جذبوں کے پیکر سید علی گیلانی کے نا م ہے، اِس میں اُنکی شخصیت، فکر اوراُن کی ایک شاہکار کتا ب کے بارے میں بات ہوگی۔
جب بھی غیر جانبدارمورخ تاریخ لکھیں گے تومقبوضہ کشمیر کے سب سے بزرگ، بلندکردار اور سب سے طویل قید کا ٹنے والے عظیم رہنما سید علی گیلانی کا نام سب سے اوپر لکھا جائے گا۔ مطالعہ کسی بھی انسان کے لیے امکانات کے نئے نئے جہان دریافت کرتا ہے اور اسے پختہ فکرکی بنیاد اور استقامت فراہم کرتا ہے۔ سید علی گیلانی ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ وہ ایک اسکالر بھی ہیں، قرآن و حدیث کے مفہوم سے بھی آشنا ہیں اور سات سو سالہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے مسلم تھنکر اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی فکر اور فلسفے کے حافظ اور اس کا مکمل ادراک بھی رکھتے ہیں۔
پورے ایشیا اور پورپ میں کوئی ایک بھی سیاسی رہنما ایسا نہیں ہے جو تین دہائیوں سے جبر اور استبداد کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہو اور اس کے پا ئے استقامت میں ذر اسی بھی لرزش نہ آئی ہو۔ نیلسن منڈیلا کو قیدمیں رکھنے والے حکمرانوں کی نہ سو چ پست تھی اور نہ ظرف چھوٹا تھا اور پھر برطانیہ کے خلاف پوری دنیا کی ہمدردیاں اور سپورٹ منڈیلا کے ساتھ تھی۔ کشمیر کی صورت ِ حال بالکل مختلف ہے، بھارتی حکمران ایسے ہیں کہ جبراور کمینگی کو یکجا کر دیا گیا ہے اور مظلوم کشمیریوں کو دنیا کے کسی کونے سے امداد تو کیا ہمدردی تک نہیں ملی۔
اس لیے کہ کشمیری مسلمان ہیں اور سید علی گیلانی اُس اسلام کا پیروکار ہے جس میں عظمت، شکوہ اور جلال ہے اور جس میں مسکینی اور محکومی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کئی سالوں سے سید صاحب دل اور کینسر جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہیں مگر کوئی بیماری اور کوئی ظلم اس عظیم مجاہد کو نہ جہاد سے روک سکا ہے اور نہ اس کے جذبوں ارادوں کی حرارت میں کمی لاسکا ہے۔ مجاہد کا کمال ہے کہ مشکل ترین جدوجہد میں بھی انھوں نے کتاب اور قلم سے اپناناتا قائم رکھا ہے۔
سید علی گیلانی کی کتاب " اقبال… روحِ دین کا شناسا" میرے ہاتھوں میں ہے۔ علامہ اقبالؒ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے اپنی جس تخلیق کے لیے سب سے زیادہ ذہنی اور جسمانی توانائیاں صرف کیں وہ ان کی فارسی شاعری کی کتابجاوید نامہ، ہے۔ کئی فارسی دانوں کا ماننا ہے کہ "جاوید نامہ" کا اصل پیغام سمجھنے کے لیے سید علی گیلانی کی اس تصنیف سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہو سکتی۔ اقبالؒ کے پیغام کی اصل روح کو مجاہد ہی سمجھ سکتے ہیں۔
سید علی گیلانی نے نوجوانی کا کچھ حصہ لاہور میں گزارا، اُن کے اپنے بقول" میں مزار اقبال ؒپر جاتا جس کی مٹی ابھی تازہ تھی تو مجھے ان کی تربت کے پاس اتنا قلبی سکون اورروحانیت حاصل ہوتی کہ میں گھنٹوں مزار کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتاتھا"۔ آہستہ آہستہ امت کے حکیم سے اس کشمیری نوجوان کا تعلق اتنا مستحکم ہوگیا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں اُسے سب سے زیادہ Motivation اقبال ؒ ہی کی فکر اور شاعری سے حاصل ہوئی۔ سید علی گیلانی علامہ اقبالؒ کو ایک درخشاں آفتاب قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ " فروغِ انسانیت کی راہ میں جتنی بھی مرئی اور غیر مرئی رکاوٹیں حائل ہیں، اس نابغہ روزگار مفکر اور شاعر نے ان کے ازالے کے لیے رہنمائی کی ہے۔"
سیدعلی گیلانی ایک ایسے قافلے کے سالار ہیں جو ظالم حکمرانوں سے برسرِ پیکار ہے، وہ ایک ایسے محکوم کشمیر کی آزادی کے خواب دیکھ رہے ہیں جس کے ہر گھر سے نوجوانوں شہیدوں کے جنازے اٹھے ہیں اور آئے روز جس کی پہاڑیاں مجاہدوں کی للکار سے کا نپ اٹھتی ہیں۔ ملت اسلامیہ کی زبوں حالی سے خصوصاً کشمیر کی خوں چکانی پر اپنے احساسات کے اظہار کے لیے سید علی گیلانی فکرِ اقبالؒ کو ایک وسیلہ گرہ کشا سمجھتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی با زیافت کی اُمنگ بیدار کرنے، تنِ مردہ میں تازہ خون دوڑانے، لادین تہذیبی جارحیت کے سیلاب کو روکنے اور مسلمان نوجوانوں کو خود آشنا اور خدا آشنا بنانے کے لیے، کتاب اﷲ اور سیرت ِرسولؐاﷲ کی صورت میں جو نسخہ کیمیا مسلمانوں کے پاس موجود ہے اُس کی روح کو سمجھنے کے لیے کلامِ ِاقبالؒ شاہِ کلید کی حیثیت رکھتاہے۔
اسی لیے سید علی گیلانی اس کو دین کی اصل روح کا شناسا اور اپنا روحانی مرشد سمجھتے ہیں۔ حضرت اِقبالؒ ساری عمر مردِ مجاہدکے متلاشی رہے، وہ آج زندہ ہوتے تو انھیں خطہ کشمیر میں علی گیلانی اور برہان وانی کی صورت میں اپنے مردِ مجاہد نظر آجاتے۔ کشمیر کا یہ عظیم مجاہد سمجھتا ہے کہ آج مایوسی، شکست خوردگی، مرعوبیت، مغرب زدگی، دنیاپرستی، آخرت فراموشی اور تن آسانی کی شکار ملت اسلامیہ کو ان امراض سے بچانے کے لیے کلام اِقبال ؒ سب سے موثر نسخہ ہے۔ اقبالؒ کی یہ فکر کیسے تشکیل پائی؟ مجاہد نے وہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ اقبالؒ ایک بار قرآن پڑھ رہے تھے، اُن کے والد پاس سے گزر ے تو انھوں نے کہا، "بیٹا! قرآن ایسے پڑھا کرو کہ جیسے یہ تم پر نازل ہو رہاہے " اس نصیحت نے اقبال ؒکی زندگی کا رُخ درست کر دیا، بعد میں انھوں نے یہی بات ایک شعر میں بیان کی:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہیں نہ رازی نہ صاحب ِکشاّف
ایک اور جگہ انھوں نے مسلم نوجوانوں کو یہ تاکید اور تلقین کی کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں بزرگ مجاہد لکھتا ہے کہ دل کی دنیا میں انقلاب لانے کی صلاحیت کسی فلسفہ، سائنس یا منطق کو حاصل نہیں ہے، یہ صلاحیت اور قوت صرف اور صرف رب کائنات کے کلام کو حاصل ہے۔ اسی لیے اﷲ نے اس کو نصیحت اور بیماریوں کے لیے شفاء قرار دیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے "لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے " (القرآن)اقبالؒ جب لندن میں تھے تو وہاں بھی ان کی سحر خیزی اور نماز تہجد کی عادت برقرار رہی۔ وہ خود فرماتے ہیں۔
زمستانی ہو ا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی
مجاہد نے کتاب کا آغاز اقبال ؒاور رومی کے مکالمے سے کیا ہے جس میں اقبالؒ ملت کی زبوں حالی پر نوحہ کناں ہے۔
چشم بِینا سے ہے جاری جوئے خوں
علم حاِضر سے ہے دیں زاروزبوں
صاحبانِ بصِیرت یہ دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں کہ آج کے نوجوان جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ خدااور آخرت کے تصور سے بیزار کردیتی ہے۔ وہ صرف روزی روٹی کمانے میں مدد کرتی ہے۔ لہٰذا ایسا علم تو صرف شکم پر ستی کی ترغیب دیتا ہے۔ مرشد رومی کہتے ہیں۔
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یا رے بود
اگر آپ محض جسم کو پالنے کے لیے علم پڑھیں گے تو یہ آپ کے دین، اخلاق، انسانیت، شرم وحیا، دیانت داری اور عدل و انصاف کی قدروں کے لیے سانپ کی حیثیت اختیار کر لے گا اور تجھے ڈس کر ہلاک کر دے گا اور اگر علم کے ذریعے دل یعنی روحانی دنیا بھی آباد کرنے کی راہ اختیار کر لے گا تو علم تیرا دوست بن کر تیری رہنمائی کر ے گا۔ جب اقبالؒ نے مرشد رومی سے کہا کہ
پڑھ لیے میں نے علوم شرق وغرب
روح میں باقی ہے اب تک دردوکرب
تو انھوں نے جواب میں کہا کہ " نا اہل ہاتھوں سے توامراض میں مبتلا ہو گا، تجھے اپنی ماں (قرآن وسنت کی تعلیمات) کی طرف آنا چاہیے، اسی میں تیرا اور تما م انسانوں کا علاج موجود ہے"۔ پھر اقبالؒ کی آواز گونجتی ہے
بیا نقش دِگر ملت بہ ریزم
کہ ایں ملت جہاں رابارِدوش است
اے محمدﷺکے پیروکارو! موجودہ اُمت مسلمہ تو (اپنی کمزوریوں اور بداعمالیوں کے باعث) دنیا کے لیے ایک بوجھ بن گئی ہے، آؤایک نئی اور تازہ دم ملت کی بنیاد ڈالیں۔ (جاری ہے)