کمانڈاینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ ملک کا وہ پر وقار ادارہ ہے جسمیں تعیناتی ہر فوجی افسر کے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی سول سرونٹ نے دیکھنا ہو کہ اعلیٰ معیار کی ٹریننگ کیاہوتی ہے تو وہ اسٹاف کا لج کوئٹہ یاپی ایم اے کاکول جاکر دیکھ لے۔
میں دیانتداری سے یہ سمجھتاہوں کہ سول سروسز اکیڈیمی، نیشنل پولیس اکیڈیمی، نیپا، فارن سروس اکیڈیمی اور دوسرے تربیتی اداروں کے سربراہان اور فیکلٹی ممبرز پر یہ لازم ہونا چائیے کہ وہ پی ایم اے اور اسٹاف کالج کا تفصیلی دورہ کریں وہاں ٹریننگ کے اعلیٰ معیار کے عوامل کا جائرہ لیں اور انھیں اپنے اداروں میں لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ مجھے یاد ہے کہ 1998میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف نے پولیس کالج سہالہ میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے اعلیٰ تعلیم یافتہ انسپکٹروں کی ٹریننگ پی ایم اے کے طرز پر شروع کی تھی ایک سال بعد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو ٹریننگ کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا اس کے بعد کسی سیاستدان یا آئی جی نے اس پر توجہ نہیں دی۔
اسٹاف کالج کے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کیطرف سے اقبالیات پرلیکچر کی دعوت ملی تو میں نے بخوشی قبول کرلی۔ لیکچر سے ایک رات پہلے میں اسٹاف کالج پہنچ گیا۔ کمانڈنٹ صاحب نے رات کو عشائیے کا اہتمام کیا تھامگر ناسازی ٔ طبع کے باعث میں شرکت نہ کرسکا۔ جنرل صاحب فون پر نہ صرف خیریّت دریافت کرتے رہے بلکہ انھوں نے رات کو ایک قابل ڈاکٹر بھی بھیج دیے۔ معالج کی دوائیوں سے فوری طورپر تکلیف میں افاقہ ہو گیا۔
کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کو قائم ہوئے سو سال سے زیادہ بیت چکے ہیں، 1905میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور 1907 میں یہاں باقاعدہ ٹریننگ کورسز شروع ہوگئے۔ سب سے پہلا بَیچ چَو بیس افسروں پر مشتمل تھا۔ دنیاکے نامور جرنیل یہاں سے تربیت حاصل کرنے یا اس ادارے میں انسٹرکٹر کے طور پر فرائض ادا کرنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں جنمیں برطانیہ کے فیلڈ مارشل آکن لیک (جو 1947 میں مشترکہ ہندوستان کی افواج کے کمانڈر انچیف تھے) فیلڈ مارشل ولیم سلم اور فیلڈ مارشل منٹگمری(دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی افواج کے کمانڈر انچیف ) بھی شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے تمام سپہ سالاریعنی جنرل ایوب خان، جنرل موسیٰ، جنرل یحییٰ، جنرل گل حسن، جنرل ٹکاّ خان، جنرل ضیاالحق، جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز جنرل وحید کاکڑ، جنرل وحید کرامت، جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ اس عظیم تربیتی ادارے میں انسٹرکٹر رہ چکے ہیں۔
اب تک چَو ّن ممالک کے ہزاروں فوجی افسران یہاں سے تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں بہت سے اپنے اپنے ملکوں میں کمانڈکی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچے ہیں۔
اس وقت بھی اٹھائیس ممالک کے 46افسران یہاں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ماضی میں انگریزوں نے اس ادارے کا نشانEmblem) )اُلّو رکھا ہو ا تھا جو مغرب میں حکمت اور دانائی کی علامت سمجھاجاتا ہے مگر 1979 میں اسے تبدیل کر دیا گیا اور اس کی جگہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کے پہلے لفظ اِقراء کوEmblem کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔
نشان میں دوتلواریں پاک فوج کا نشان ہے، اُسکے اُوپر فارسی کے عظیم شاعر شیخ سعدی ؒ کے ایک مصرعے کے الفاظ کندہ ہیں پر شوبیاموزسعدی (سعدی زندگی کے آخری حصے تک علم حاصل کرتے رہو)۔
صبح لیکچرسے پہلے جنرل ندیم انجم(جو ایک علمی اور ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک زیرک اور تجربہ کار جرنیل ہیں ) سے ملاقات میں جب میں نے پوچھاکہ آرمی افسروں کو فکرِ اقبالؒ سے روشناس کرانے کا آپکو کیسے خیال آیا اور اس سلسلے میں میرا انتخاب کیسے کیا گیا؟ تو کہنے لگے "ہم دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے مقاصدکی تکمیل کے لیے فکرِ اقبال کو سمجھنااور اس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔
اور پاکستانی فوج کے افسروں اورمستقبل کے جرنیلوں کو اقبالؒ کے فلسفہء خودی اور مردِمومن کے تصورّ سے آگاہ ہونا چائیے۔ ہماری میٹنگ میں یہ بھی طے ہوا تھاکہ لیکچر کے لیے علمی شخصیّت ) (Academician کے بجائے کسی عملی شخصpractitioner) (کو بلایا جائے کہ جس کے دامن میں کچھ کامیابیاں بھی ہوں "۔ یہ بتاتے ہوئے کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی یہاں تشریف لا چکے ہیں، کمانڈنٹ کا چہرہ مسّرت و افتخار سے تمتمانے لگا۔
لیکچر کے لیے میں جنر ل صاحب کے ساتھ کالج کے عالیشان آڈیٹوریم میں پہنچا تو ایک نوجوان افسر نے میرا تعارف کراکے مجھے خطاب کی دعوت دی۔ لیکچرسوا گھنٹے پر محیط تھا اور اس کے بعد راقم آدھے گھنٹے تک حاضرین و سامعین کے اعلیٰ معیار کے سوالات کے جواب دیتارہا۔ پی ایم اے کیطرح یہاں بھی آرمی افسر پوچھتے رہے کہ اقبالؒ کی شاعری اور پیغام تو میٹرک سے لے کر یونیورسٹی لیول تک تعلیمی نصاب میں شامل ہونا چائیے۔
مگر اسے نصاب سے کیوں نکالا گیا ہے؟بلاشبہ کلامِ اقبال کونصاب سے نکالنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اور اب اسے شامل کرنے سے احتراز کرنا حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ پونے دوگھنٹے کی نشست کے بعدمیں کمانڈنٹ صاحب کے ساتھ آڈیٹوریم سے باہر آگیا، جہاں مہمانوں کی کتاب پر اپنے ریمارکس لکھنے کے لیے کہاگیا، تحریر میں بھی راقم نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ کاش سول سروسز کا بھی اس معیار کا کوئی تربیتی ادارہ ہو، کاش وہاں بھی ٹریننگ کا معیار بلند کرنے کی خواہش اور جذبہ ہو۔ مگر آرزو اور ولولہ ہی نہ ہوتو ٹریننگ کا معیار اُسی طرح پَست اور غیر معیاری رہیگا جس طرح آجکل ہے۔
اُس روز اسلام آباد کے لیے فلائٹ نہیں تھی اس لیے ایک رات مزید اسٹاف کالج کا مہمان بننا پڑا۔ رَات کو کچھ کرنل صاحبان( انسٹرکٹرز) ملنے کے لیے آگئے، وہ صبح کے لیکچر سے خوش تھے کہ اپنے عظیم قومی شاعر کی شخصیّت اور ان کی فکر کے بارے میں کچھ نئی اور حوصلہ افزا باتیں سننے کو ملیں۔ پاک فوج کے کرنیلوں کی عالمی اور علاقائی حالات پر گہری نظر، ملک سے محبت اور دفاعِ وطن کا جذبہ دیکھ کر بڑا حوصلہ ہوا اور دل نے گواہی دی کہ قائدؒ کے پاکستان کا دفاع بڑے مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
بہت سے افسروں سے میں نے پوچھا کہ وہ کیا امتیازی اوصاف ہیں جن سے اس ادارے نے نام پیدا کیا ہے اور اسے دوسروں پر فوقیّت اورافضلیّت حاصل ہے؟سب نے اپنے اپنے انداز میں جواب دیے جنکا خلاصہ یہ تھا کہ بہترین افسروں کو چن کر یہاں انسٹرکٹر مقرر کیا جاتا ہے۔ ڈسپلن کی معمولی سی خلاف ورزی کرنے پر بھی اچھے سے اچھا افسر پورے کیریئر سے محروم ہوجاتاہے۔ ایک صوبیدار کے بیٹے او ر ایک جرنیل کے بیٹے میں یہاں کوئی امتیازروا نہیں رکھا جاتا اور مَیرٹ سے سرِ مو انحراف نہیں کیا جاتا۔
اسٹاف کالج کے بعد اسکول آف آرٹلری نوشہرہ میں لیکچر کے لیے جانا ہوا۔ آرٹلری ( توپخانہ) کسی بھی فوج کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے انڈین آرمی کی تربیت کے لیے ایک اسکول آف آرٹلری قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اس کے لیے پہلے کاکول کا انتخاب کیا گیا مگر کچھ سالوں بعد محسوس کی گیا کہ نئی توپوں کی رینج زیادہ ہے جب کہ کاکول میں لمبی ریج بنانا ممکن نہ تھا اس لیے اسے (موجودہ بھارت کے علاقے ) دیولالی کے مقام پر شفٹ کر دیا گیا 1947 میں بھارت کا اسکول وہیں رہا جب کہ پاکستان نے نوشہر ہ کے تاریخی مقام پر رائل آرٹلری اسکول کے نام سے تربیتی ادارہ قائم کرلیا۔
13اپریل1948 کا دن اس اسکول کی تاریخ میں ایک یادگاردن تھا کہ اُن روزبانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ یہاں تشریف لائے۔ قائد نے انسٹرکٹرز کا جذبہ اور ٹریننگ کے ساتھ ان کی لگن کی بہت تعریف کی جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ 1950 کی دھائی میں اس کا نام اسکول آف آرٹلری رکھ دیا گیا۔ 1957 میں پاک آرمی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدید خطوط پر اس کی تنظیمِ نو کی گئی 1958 میں کرنل امیر احمد کو اس ادارے کے پہلے پاکستانی کمانڈنٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس اعلیٰ پائے کے تربیتی ادارے میں جونیئر لیول، مڈل لیول اور سینئر لیول کے لیڈر شپ کو رسز کروائے جاتے ہیں، اس ادارے میں بھی کئی ممالک کے گَنرز (توپخانے میں تعینات افسران و جوانان) تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اسکول آف آرٹلری کے موجودہ کمانڈنٹ میجر جنرل طاہر گلزار ملک(جو ایک ذہین، شُستہ اور قابل سولجر ہیں ) نے لیکچرکے بعد ادارے کا تفصیلی راؤنڈ لگوایا اور فراہم کی جانے والی ٹریننگ کے ہر پہلوپر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ زیرِ تربیت افسروں کو پڑھائی جانے والی تھیوری اور پریکٹیکل میں کوئی خلاء نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے گنرز دشمن کی اہلیّت، صلاحیّت حتّٰی کہ ان کی توپوں کی پوزیشن سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ہمارا اسلحہ او رequipment دشمن سے کسی صورت کمتر نہیں، جب کہ ہمارے جوانوں اور افسروں کا جذبہ اور ولولہ دشمن سے کہیں افضل اور برتر ہے۔
نوشہرہ میں ہی دوماہ پہلے ایک اورشاندار ادارے اسکول آف آرمر میں بھی لیکچر کے سلسلے میں جاناہوا، اس ادارے کے کمانڈنٹ میجرجنرل احمد ملک خود بڑے اقبالؒ شناس ہیں کہ انھیں شاعرِ مشرق کے ساتھ عقیدت ورثے میں ملی ہے۔ پاک آرمی کے چاروں اداروں میں جونیئر، درمیانی سطح اور سینئر رینک کے فوجی افسران سے ملکر بہت خوشی ہوئی اور حوصلہ بلند ہوا، ان کے دل پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں، سمت درست ہے اور پوری توجّہ مادرِ وطن کے محافظوں کی صلاحیتیں نکھارنے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس پاکستان سرزمین اور اس کے محافظوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ اُدھرآجکل کے حالات دیکھ کر حضرتِ اقبالؒ یاد آتے ہیں جو فرماگئے کہ۔
پیرانِ کلیسا ہوں یا شیخانِ حرم ہوں
نَے حِدتِّ گفتار ہے نَے جدتِ کردار
ہیں اہلِ سیاست میں وہی کہنہ خم و پیچ
شاعراسی افلاسِ تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اُس مہدیء برحق کی ضرورت
ہو جسکی نگاہ زلزلہء عالمِ افکار