کشمیر کے عظیم مجاہد سیّد علی گیلانی کے روحانی مُرشد علامہ اقبالؒ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں کہ شعور کی بیداری اور دل کی حضور ی کے ساتھ خالقِ کائنات کے وجود اور ذاتِ اقد س کا اقرار اتنی قوّت اور طاقت بخشتا ہے کہ نَو آسمان اس کے کو ُچے کا طواف کرنے لگتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں:
؎وائے درویشے کہ ہوئے افرید
بازلب بربست ودم درخودکشید
افسو س اس ظاہر ی درویش پر جو اللہ ہُوکی آواز تو لگاتا ہے لیکن اللہ کا حکم بلندکر نے اور اس کی زمین پر اس کی حاکمیّت کا حق منوانے کے فرض سے غفلت برتتا ہے۔
؎خانقا ہے جست واز خیبر رمید
راہبی ور زید و سلطانی ندید
اِس ظاہر دار عابد و زاہد نے خانقاہ کی راہ اپنالی اور خیبر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ یعنی بے عملی اختیار کر لی اور جدوّ جہد اور جہاد کا مشکل راستہ اختیار کرنے سے گھبرا گیا۔ مسلمان تو دنیا پر حکمرانی کے لیے آیا تھا مگروہ غلامانہ زندگی پر قناعت کر بیٹھا ہے اور اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دینے لگا ہے۔ اگر تو اللہ کی بندگی کا حقیقی نقش اور نظام قائم کر یگا تو ساری دنیا تیر ے زیرِنگیں آجائیگی۔ اقبالؒ نے ایک اور جگہ کہاہے
؎ ستیزہ کا ررہا ہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
یعنی اسلام کے ساتھ ابلیسی تہذیب کی جنگ، ازل سے ہے اور ابد تک رہیگی۔ اسلام دشمنی، لادین تہذیب کے پیروکاروں کی سرشت میں گندھی ہوئی ہے، اسی لیے اقبالؒ نے افغانستان کے بادشاہ کو پیغام دیا تھا کہ "برخور ازقرآں اگر خواہی ثبات" قرآن سے راہنمائی حاصل کریں۔ افغان حکمران کو نصیحت کرتے ہوئے علامہؔ نے مزید کہا کہ
؎لیکن ازتہذیب لادینے گر یز
زاں کہ اُوبااہل حق داردستیز
تجھے لا دین تہذیب کو اپنے ملک کے سیاسی اور اجتماعی نظام سے دور رکھنا چاہیے، کیونکہ یہ تہذیب اور نظام ہر دور اور ہر زمانے میں اہلِ حق کے ساتھ بر سرِ پیکاررہی ہے۔ افلاک کے سفر میں اقبال اور رومی کی منصور حلاّج سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ اس میں حلاّج زندہ رود، (اقبالؒ) سے کہتا ہے کہ دُنیا کی لو حِ قَلب پر اللہ کی حا کمیّت اور اس کے دین کی عظمت اور غضب کا نَقش پیدا کرنے کی ذّمے داری انجام دو۔ زندہ رود استفسار کر تا ہے۔
؎نَقش حق رادر جہاں اندا ختند
من نمی دا نم چسا ں اندا ختند
زندہ رُود نے پوچھا کہ ربّ کائنات کے دین کو قائم کیسے کیا جائے؟ اوریہ کہ ہمارے اسلاف نے دین ِحق کو کیسے قائم اور غالب کیا۔ حلاّج جواب دیتا ہے:
؎ یا بز ورِ دلبری انداختند
یا بزورِ قاہری انداختند
زانکہ حق در دلبری پیداتراست
دلبری از قاہر ی اُو لیٰ تراست
پہلا طریقِ کا ر اور طرزِ عمل تبلیغ اور تعلیم کا ہے۔ ہمارے اجداد نے سب سے پہلے اپنے حسن اِخلاق، حکمت وتدبرّ، شفقت و محبت اور اپنے اعلیٰ سیرت و کردار سے دین حق کو پھیلایا، اگرکہیں یہ غیرمّوثر ثابت ہوا تو قاہری سے بھی کا م لیا۔ مگر دلجوئی، دلبری اور حکمت سے تعلیم و تبلیغ کا طریقہ ہی سب سے بہترہے۔
مجاہد کی کتا ب کے اگلے باب کا عنوان ہے "صحبت ِ آدم سے عاجزابلیس کی فریاد" جو جاوید نامہ کے ایک باب کا عنوان بھی ہے۔
افلاک کے مسافر مُشتری پرپہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں نالہء ابلیس سنایا جارہاہے جس میں ابلیس بتا رہا ہے کہ میں نے اللہ کے ان بندوں کو، جن کے سامنے سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں مجھے راندۂ درگاہ بنا دیاگیا کیسا پایا۔ یہاں دانائے راز کے خیالات کی رفعت و رعنائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔
ابلیس خود ربّ ِ کائنات کے سامنے شکایت کر رہا ہے کہ اے نیک وبد اور خیروشر کے خالق ومالک! میں دنیا میں بنی آدم کی صحبت میں خراب ہو گیا ہوں۔ اس آدم زاد (انسان) نے کبھی بھی میرے حکم سے سر تابی نہیں کی، اپنے وجود سے اس نے آنکھیں بند کر رکھّی ہیں یعنی وہ خود شناسی سے محروم ہے، اُسکا خاکی وجود انکار کے ذوق اور لذّت سے بیگانہ اور محروم ہے، یہ انسان تو میری فرمانبرداری میں کوئی کمی نہیں چھوڑرتا۔ یہاں تو صورت ِ حال یہ ہے کہ
؎صید خود صیّادراگوید بکَیِر
الاماں ازبندہء فرماں پذیر
شکار خود اپنے آپ کو شکاری کے حوالے کر رہا ہے۔ ابلیس ربّ ذوالجلال سے فریاد کررہاہے کہ میں ایسے شکار سے پناہ مانگتا ہوں۔ اس کم ہمّت، کم حوصلہ بندۂ نفس سے تو خود میر ا حوصلہ بھی ٹوٹ رہاہے، میر ی ہمّت اور غیرت بھی برباد ہورہی ہے۔
؎فطرتِ او خام وعزم ا ِو ضعیف
تابِ یک ضربم نیا رد ایں حریف
اے اللہ! تیر ے اس شاہکار انسان کی فطر ت خام اور اس کا عزم وارا دہ بہت ہی کمزور اور ضعیف ہے۔ افسوس کہ میر ایہ حریف میری ایک ضرب بھی برداشت نہیں کرتا۔ مجھے تو کوئی ایسا حریف چاہیے جو صاحب ِنظر ہو، باعزّت، با ہمّت اور مضبوط اراد ے کا مالک ہو جو میری گردن مروڑ دے جسکی نظر سے میر ے وجود میں لرزہ طاری ہو جائے۔
یہ آدم کی اولاد، اس کی حیثیّت تو گھاس کے تنکوں کے برابر ہے جسے جلانے کے لیے میر ی ایک چنگاری ہی کافی ہے۔ اگر دنیا میں میر ے مقابلے میں گھاس کے تنکوں کے سوا کچھ نہیں تھا تو اے ربُّ العالمین! مجھے اتنی طاقت اور آتش تپاں دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ابلیس دورِ جدید کے مسلمان کا ضعف دیکھ کر نالاں ہے کہ اتنے کمزور حریف کے ساتھ پنجہ آزمائی تو ابلیس کی شان کے شایاں نہیں ہے۔ اے خدا! مجھے آپ کے بندوں میں سے کسی ایسے مردِ حق پرست کی تلاش ہے جو مجھے شکست دے دے تاکہ مجھے ہارنے کی لذّت نصیب ہو سکے۔
"قلزم خونیں سے غدّار کی فریاد" کے عنوان سے جاوید نامہ میں اقبالؒ ملّت کے غداّروں کی حالتِ زار بیان کرتے ہیں کہ افلاک پر برّصیغر پاک وہندکے غداّر میر جعفر اور صادق کی پکارسنائی دے رہی ہے کہ " نہ ہم کو ماضی قبول کرتا ہے اور نہ حال۔ ہم نے مشرق و مغرب کو چھان مارا۔ اب ہم دوزخ کے دروازے پر دردوکرب میں مبتلا پہنچا دیے گئے ہیں۔
دوزخ کو بھی ہمارے ساتھ اتنی نفرت اور بیزاری ہے کہ اس کا کہنا ہے کہ ان دو بدروحوں کو جلانا بھی میر ی تو ہین ہے۔ میرا شعلۂ آتش ان بد بختوں سے زیادہ پاک اور بہتر ہے۔ ان ناپاک جسموں کو نیست ونابود کرنا بھی مجھے گوارا نہیں، مطلب یہ کہ غدّاروں کی روحوں کو موت سے بھی نجات نہیں مل سکتی۔ ملّت کے غدّاروں کے جُرم کو جنھوں نے وطن اور آزادی کے محافظوں کے مقابلے میں سامراجی قوتوں کا ساتھ دیا، علاّمہ اقبال سب سے سنگین جرم سمجھتے تھے۔
سیّد صاحب نے اپنی کتاب میں اُمّت کے حکیم کے ساتھ برّصیغیر کے معروف اسکالر مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ ندوی صاحب نقوشِ اقبالؒ میں فرماتے ہیں "ہندوستان میں اسلام کی تجدید واحیاء کی بات نکلی تو شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، سلطان، محی الدّین عالمیگر کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہو ں کہ اگر ان کا وجود اور ان کی جدوّجہد نہ ہوتی تو ہندو تہذیب اور فلسفہ اسلام کو نگل جاتا۔ جو قوم اپنا ملک نہیں رکھتی وہ اپنے مذہب اور تہذیب کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی "
ربّ کاِئنات نے فرمایا ہے " دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسان کو ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بد ی سے روکتے ہو اور اللہ پر یقین رکھتے ہو"۔
ایسا ہی کوئی بندۂ حق اللہ کا منظورِ نظر ہو سکتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر بھی ایسے ہی مردان ِ حق تیارّ کرتے رہے اور ایسے ہی کسی بندۂ حق کی تلاش اقبال کو ہے۔
؎بندۂ حق وارثِ پیغمبر اں
اونہ گنجد درجہانِ دیگراں
ایسا بندۂ حق جواپنے دین اور اپنی تہذیب کے مطابق اپنی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ جو اللہ کے دین کو غالب کر کے اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارتاہے۔ خیروشرکی کشمکش سے جس کے قدم اور مستحکم ہو تے ہیں۔ اللہ کی یاد اور ذکر اس کے لیے شمشیر اور اس کی فکر ڈھال ثابت ہوتی ہے۔
خالق و مالک نے فرمایا، "اے ایمان کا دعوٰی کرنے والو! جب تمہاری کسی گروہ کے ساتھ رزم آرائی ہو تو ثابت قدم رہو۔ اللہ کو کثر ت سے یاد کرو، شایدکہ تم فلاح پا جاؤ۔ علامہ اقبال کہتے ہیں بندۂ حق کی صبح اذانِ سحرگاہی سے شروع ہوتی ہے جس میں انقلاب آفریں قوّت ہوتی ہے، بندہ ٔ حق ایک ایسا ذرّہ ہے کہ آفتاب جس کے راستے کی گرد ہے۔ پھر کہا کہ انسان کا ہدف اور عز م بلند ہونا چاہیے، ہماری آرزو ہی ہمیں ہماری پہچان اور شناخت دیتی ہے۔ آرزو آگ کی چنگاری کی طرح ہمارے جسم سے بلند ہو تی ہے اور ایک خاک کے ذرّے کو بیکراں و سعتوں سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ (جاری ہے)