کئی صاحبانِ علم و دانش اور بہت سے ریٹائرڈ اور سرونگ سول سرونٹس نے راقم سے با رہا کہا کہ "چند سال پہلے جب ہمارا پاسپورٹ کا محکمہ ایک شدید بحران کا شکار ہوا تو اُس وقت آپ کو اُس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس قومی بحران پر کیسے قابو پایا گیا اور کس طرح ایک ڈوبے ہوئے ادارے کو چند مہینوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا گیا؟ اس پر تفصیل سے لکھیں "۔ تو آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ تاخیر کی معذرت۔ تحریر حاضرہے۔
2013 کے مارچ کا آغا ز تھا، بہا ر چپکے سے نہیں بلکہ پوری سج دھج سے اپنی آمد کا اعلان کرکے آرہی تھی۔ موسم ایسا تھا کہ قدم خود بخود چمن (یاسیر گاہ) کی جانب اُٹھ جاتے تھے۔ لاہور کا سب سے بڑا پارک میری سرکاری رہائش گاہ کے بالکل قریب تھا جہاں میں پیدل ہی واک کے لیے چلا جاتا تھا۔ میرے قریبی دوست اور عزیز میری بڑی عیاشیوں سے بخوبی واقف ہیں۔" سردیوں کی دھوپ میں بیٹھ کر کنّو کھانا، گرمیوں میں ٹھنڈے تربوز سے دو دو ہاتھ کرنا اور واک کرنا"۔
اُس روز بھی میں پارک میں واک کر رہا تھا، جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی، دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے بیورو کریٹ ( پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر) تھے۔ خیرخیریّت پوچھنے کے بعد بولے "آپ کو پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کا ڈائریکٹر جنرل لگانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ "میں پاسپورٹ کے محکمے کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا تھا اس لیے میں نے کہا "سر! میری پاسپورٹ اور امیگریشن کی کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، اس لیے مجھے وہاں لگنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں (آئی جی کے رینک میں ) پروموٹ ہوچکاہوں اس لیے مجھے اگر پولیس اکیڈیمی کا کمانڈنٹ لگا دیاجائے تو میں بڑی خوشی سے نو جوان افسروں کی ٹریننگ کراؤںگا۔" اُدھر سے کہا گیا "مگر اِس وقت پاسپورٹ والی اسائینمنٹ زیادہ ضروری ہے، آپ ایک دن سوچ لیں اور مجھے کل تک بتا دیں "۔
دوسرے روز پھر پرنسپل سیکریٹری صاحب کا فون آیا۔ میرا جواب وہی تھا مگر انھوں نے معاملے کی سنگینی (جس سے میں ناواقف تھا ) کے بارے میں بتاتے ہو ئے کہا "دراصل ہمارا امیگریشن اور پاسپورٹ کا محکمہ بدترین بحران کا شکار ہوچکا ہے، آپ میڈیا پر خبریں سن رہے ہوں گے کہ لاکھوں لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں، انھیں پاسپورٹ نہیں مل رہے۔ بیرونِ ملک پاکستانی ہمارے سفارت خانو ں کا گھیراؤ کر رہے ہیں اور عالمی میڈیا پورے زورو شور سے پاکستان کو بدنام کر رہا ہے۔ میں نے اور سیکریٹری داخلہ نے کئی ڈی ایم جی اور پولیس افسروں کے ناموں پر غور کیا مگر ہم سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ اس چیلینج سے نپٹنے کے لیے آپ ہی موزوں آدمی ہیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ
We are facing a National Crisis and your services are required to resolve it
ان کے منہ سے قومی بحران اور ملک کی بدنامی کے الفاظ سنے تو میں نے ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا "سر!آپ پاکستان کے نام پر بلا رہے ہیں تو میرا سب کچھ حاضر ہے " اس کے ایک یا دو د ن بعد نوٹیفکیشن ہو گیا اور میں اُسی وقت اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگیا۔ پاسپورٹ کے ہیڈ آفس سے فون آچکے تھے اس لیے میں نے ڈی جی کے پی اے سے کہہ دیا کہ میں سیدھا دفتر آؤںگا، اسٹاف افسر اور پی اے دفتر میں موجود رہے تاکہ میں بحران کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکوں۔
میں فوری طورپر مسئلے کی نوعیت سمجھنا چاہتا تھا۔ اسلام آباد کے لیے روانگی میں تاخیر ہو گئی اور میں آدھی رات کے وقت امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے ہیڈ آفس پہنچا، ہیڈ آفس کے پورچ میں میر ی کار رکی تو مجھے جس شخص نے سب سے پہلے ریسیو کیا، اُ س سے میں نے اُترتے ہی پو چھا، آپ پی اے ہیں یا اسٹا ف افسر؟ اُس نے کہا "سرمیں پی آر او ہوں، فوٹو گرافر بھی حاضر ہے۔" یہ سن کر میرا موڈ خراب ہوگیا۔
میں نے کہا " میں نے نہ آپ کو موجود رہنے کو کہا تھا اور نہ ہی فوٹو گرافر کو۔ آپ جائیں اور جاکر آرام کریں "۔ دفتر پہنچ کر میں نے دوسرے اسٹاف کو بلایا اور ان سے محکمے کی ورکنگ اور بحران کی صورتحال سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ رات کے دو بجے میں پاسپورٹ آفس سے نکلا اور پولیس اکیڈیمی کے ریسٹ ہاؤس جا کر سو گیا۔ دوسرے روز صبح آٹھ بجے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ دفتر کی بیرونی دیوار کے ساتھ بیشمار لوگ ایسے چمٹے ہوئے تھے جیسے اُس کے اندر فٹ بال یا کبڈی کا میچ ہو رہا ہو۔ میں نے گیٹ پر کھڑے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا، یہ لوگ ایسے کیوں کھڑے ہیں؟
میرا تعارف ہونے پر اُس نے کہا " سر! یہ ہر روز اسی طرح آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ پاسپورٹ کے انتظار میں شام تک کھڑے رہتے ہیں اورگزشتہ روز پھر آجاتے ہیں، سرجی! یہ سلسلہ تو کئی مہینوں سے چل رہا ہے"۔ مجھے یہ منظر بہت برُا لگا۔ دفتر پہنچا تو پھر رات والے صاحب (جنھوں نے اپنا تعارف پی آر او کے طور پر کرایا تھا) داخل ہوئے اور کہنے لگے، سر کئی چینلوں کے نمایندے باہر کھڑے ہیں اور وہ آپ کا انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔"ان کی یہ بات مجھے بڑی ناگوار لگی اور میں نے کہا "او بھائی! میرا آج پہلا دن ہے ابھی تو میں مسئلے کو سمجھوں گا، حل تو بعد کی بات ہے۔ انٹر ویو کس بات کا؟ میرے پاس انھیں بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کم از کم دومہینے تک میرا میڈیا سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں " اُن صاحب کی پھرتیاں مجھے کچھ مشکوک لگیں لہٰذا کچھ دنوں بعدمیں نے ان کی خدمات وزارتِ داخلہ کے سپرد کر دیں۔
اگلے چھتیس گھنٹے میں دفتر کے مختلف افسروں کے ساتھ میٹنگز کرتا اور بریفنگز لیتا رہا اس دوران میں صبح آتا اور آدھی رات تک دفتر میں ہی رہتا۔ تین چار دن تک میں مسئلے کی نوعیت پوری طرح سمجھ چکا تھا۔ میں جان گیا کہ بحران کیا ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کے حل میں چھوٹی اور بڑی رکاوٹیں کیا کیا ہیں۔ انتظامی رکاوٹیں بھی تھیں اور اسٹے آرڈرز کی صورت میں قانونی رکاوٹیں بھی تھیں۔ نیچے سے اُوپر تک چھوٹوں اور بڑوں کی ہوس، لالچ، نااہلی اور بد انتظامی نے ملک کے انتہائی اہم اور حساس محکمے کو ایک سنگین بحران کی دلدل میں دھکیل دیا تھا جس سے وطنِ عزیز پوری دنیا میں بدنام ہو رہا تھا کہ یہ کیسا ملک ہے جو اپنے شہریوں کو بنیادی سفری دستاویز پاسپورٹ مہیّا نہیں کر سکتا۔
پانچویں روز پورے اسٹاف کولان میں اکٹھا کیا اور راقم پہلی بار اُن سے مخاطب ہوا۔" دیکھیں بحران بلاشبہ بڑا سنگین ہے مگرہم انشاء اﷲ اس پرقابو پالیں گے۔ بحران کو حل کرلینے کا مجھے اتنا ہی یقین ہے جتنا یہ کہ سامنے آپ کھڑے ہیں اور آسمان پر سورج چمک رہا ہے۔ انسان جب نیک نیتی سے کسی اعلیٰ مقصد کے لیے جدوجہد کرتاہے توکائنات کا خالق ومالک اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اُسکی مدد کرتا ہے۔ انشاء اﷲ ہم بھی اﷲ تعالیٰ کی مدد سے یہ قومی بحران حل کر لیں گے اور مجھے یقین ہے کہ اس میں سال نہیں لگیں گے، اس سے بہت تھوڑا وقت لگے گا۔ انشاء اﷲ
مجھے آپ سے یہ توقع ہے کہ آپ دن رات ایک کر کے قوم کو اس بحران سے نجات دلانے میں بھر پورکردار ادا کریں گے۔ آپ میں سے کون کون ہے جو چاہتا ہے کہ وہ ایک قومی جذبے کے ساتھ دن رات کام کر کے اس بحران کوختم کرنے کے مشن میں حصہ ڈالنے کا اعزاز احاصل کرے"۔ کچھ نے جوش اور کچھ نے سست روی سے ہاتھ کھڑے کیے۔
دراصل کسی بھی ادارے کے لالچی، بددیانت اور بے ضمیر ملازمین ہی اس کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں جو اسے دیمک کی طرح کھا نا شروع کر دیتے ہیں، پھر اسے فلو کی طرح چمٹ کر اسے اتنا کمزور کر دیتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ڈھانچا بن کر رہ جاتا ہے جو اپنے جوہر اور توانائی سے محروم ہو چکا ہو۔
یہاں بھی ایسا ہی تھا، ایک شخص پچھلے پانچ سال سے ڈائریکٹرجنرل چلا آرہا تھا، اُس کا کام صرف یہ تھا کہ ریجنل دفاتر RPOs) ( سے ماہانہ بھتہ (منتھلی) اکھّا کرے اُس "مالِ غنیمت" کے دیا نتداری کے ساتھ حصے بنائے۔ کچھ اپنی اپنی جیب میں رکھے اور کچھ اُوپر بھیجے تاکہ "امورِ مملکت و وزارت"بخوبی چلتے رہیں۔ یہ بندوبست فریقین کو سوٹ کرتا تھا اور دونوں گھر مطمئن اور خوش تھے۔ مگر ہوس کی کی تو کوئی حد نہیں ہوتی، وہ ہر وقت مزید کی خواہش میں رہتی ہے۔
لیمینیشن پیپر (پاسپورٹ کے صفحہ نمبر2 پر لگایا جانے والا چمکیلا پیپر )کا ٹھیکہ ختم ہونے والا تھا، اگلے پانچ سال کے لیے پرانی امریکی فرم 38 روپے فی پیپر دینے پر تیار تھی جب کہ وزیر صاحب کسی فرانسیسی فرم کو50 روپے فی پیپر ٹھیکہ دینے کے خواہش مندتھے۔ دارالحکومت کی مارکیٹ میں ایسی باتیں عام سننے میں آ رہی تھیں کہ فرانسیسی فرم ٹھیکہ ملنے کی صورت میں کروڑوں کا نذرانہ پیش کرے گی بلکہ پیشگی ادا کر چکی ہے۔
(جاری ہے)