Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Passport Bohran Par Kaise Qabu Paya Gaya (3)

Passport Bohran Par Kaise Qabu Paya Gaya (3)

میں نے اپنی حکمتِ عملی کے چیدہ چیدہ نقاط صدر صاحب کو بتائے۔ زداری صاحب نے لیمینیشن پیپر کی سپلائی کی تفصیل نہ پوچھی ورنہ ان کے وزیر صاحب کا بھی ذکر آ جاتا۔ زرداری صاحب عملی اور باخبر آدمی تھے اس لیے انھوں نے مجھ سے ایک سوال خاص طور پر پوچھا کہ "یہ جو ایجنٹ تمہارے محکمے کو ہائی جیک کر چکے ہیں۔

ان سے کیسے چھڑاؤ گے۔" میں نے کہا "سر! میں ایک پویس افسر ہوں اور ایسے مافیاز کا بندوبست کرنا اچھی طرح جانتا ہوں۔" اِس پر انھوں نے اثبات میں سر ہلا تے ہوئے کہا "ہاں ہاں پھر ٹھیک ہے، تم ان سے نپٹ لوگے"۔ انھوں نے اگلا سوال یہ کیا کہ " یہ بتاؤ کہ یہ کرائسسز کب تک چلے گا اورلوگوں کو پاسپورٹ کب تک ملنا شروع ہو جائیں گے؟ " میں نے کہا کہ اس میں کچھ وقت تو لگے گا مگر سال نہیں لگیں گے، انشاء اﷲ یہ بحران جلدی حل ہوجائے گا۔ آخرمیں انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اگر ہماری مدد کی ضرورت ہوئی تو بتانا۔ میں شکریہ اداکر کے اٹھ کھڑا ہوا اور مصافحہ کر کے باہر نکل آیا۔

صدر صاحب سے ملاقات کے چند دن بعد وزیرِاعظم کے آفس سے فون آگیا کہ فلاں تاریخ کو پاسپورٹ بحران کے بارے میں نگران وزیر اعظم (ر)جسٹس کھوسو صاحب ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ کی صدارت کریں گے جس میں آپ بھی شریک ہوں گے اور وزیرِ اعظم صاحب کو پاسپورٹ بحران کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔

تمام لوگ وقت پرپہنچ گئے۔ پی ایم ہاؤس کے ایک چھوٹے کانفرنس روم میں نگران وزیر اعظم صاحب آکر کرسی ٔ صدارت پر براجمان ہو گئے۔ پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر نے میٹنگ کا آغاز کیا اور مجھے کہا کہ "پاسپورٹ کرائسسز پر بریفنگ شروع کریں "۔ بریفنگ شروع کیے ابھی دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ نگران وزیر اعظم صاحب کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ انھیں دیکھ کر صاف نظر آرہا تھا کہ انتخابات کی نگرانی ان کے بس کی بات نہیں، ان کی عمر اور صحت کے پیشِ نظر انھیں خود نگرانی اور نرسنگ کی ضرورت ہے۔

پرنسپل سیکریٹری نے ہی میٹنگ کی کارروائی چلائی جب کہ وزیر اعظم صاحب پوری میٹنگ میں خاموش رہے یا سوئے رہے۔ کافی دیربعد ویٹر نے چائے کی پیالی میز پر رکھی تو وہ چونک کر اٹھے اور اٹھتے ہی فرمایا، "میرے آبائی شہر میں پاسپورٹ آفس بنادو۔" اس کے ساتھ ہی میٹنگ ختم ہوگئی۔

دفتر میں ہر روز صبح میٹنگ ہوتی۔ ایک روز صبح ہونے والی میٹنگ میں بتایا گیا کہ لیمینیشن پیپر کے اسٹاک سے صرف دویا تین ہزار پاسپورٹ مزید بن سکیں گے اور اگلے اڑتالیس گھنٹے بعد پاسپورٹ دفتر بند کرنا پڑیں گے۔ بحران ایک خوفناک صورتِ حال اختیار کر چکا تھا۔

ر ب کائنا ت کی بنائی ہوئی اس حیرت انگیز دنیا میں ہر بیماری کا علاج، ہر زہر کا تریاق، اور ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ تلاش کرنے والے کی نیت میں کھوٹ ہو تو گمراہی کے اندھیرو ں میں بھٹکنا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ اور اگر کوئی روشن ضمیر شخص، نیک نیتی اور پر خلوص جذبوں کا چراغ لے کر نکل پڑے تو وہ مشکلات اور مسائل کے تاریک غاروں میں بھی حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔

پاسپورٹ بحران کے حل کے لیے کمریں کس لی گئیں اور اﷲ کا نام لے کر جدوجہد کا آغاز کر دیا گیا۔ محاذ لاتعداد اوروسائل محدود تھے۔ مگر حل کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے راقم نے اپنی تما م تر صلاحیتیں، توانائیاں، وسائل اور تعلّقات صرف کر دیے تاکہ اس قومی بحران کے سانڈ کو سینگوں سے قابو کر کے گرایا جاسکے۔

لیمینیش پیپر کی سپلائی کی بحا لی اور ایجنٹ مافیا کے خاتمے کو ترجیح اول بنایا گیا۔ اس سلسلے میں کبھی ایک دروازہ کھٹکھٹایا اور کبھی دوسرے پر دستک دی گئی۔ کبھی عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر راقم نے خود مقدمہ پیش کیا اور مخالف وکیلوں کی تندو تلخ باتیں سنیں اور کبھی جج صاحبان سے ان کے ریٹائرنگ میں مل کر مسئلے کی سنگینی کا واسطہ دے کر اس کے حل کے لیے مدد مانگی۔

پوری سروس میں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ عدالتیں باکردار سول سرونٹس پر اعتماد بھی کرتی ہیں اور انھیں عزّت بھی دیتی ہیں۔ اس بحران میں بھی یہ ناچیزجس عدالت میں بھی پیش ہوا الحمداللہ جج صاحبان نے یہی کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ آپ بے داغ کردار کے مالک ہیں۔ اور ایک قومی جذبے کے ساتھ یہ سنگین مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ہم رکاوٹ کھڑی کرنے کے بجائے رکاوٹ ہٹانے میں مدد کریں گے"اور پھر ایسا ہی ہوا۔

ہمیں ہنگامی بنیادوں پر لیمینیشن پیپر کی فوری سپلائی کی ضرورت تھی، اس سلسلے میں امریکی فرم کو 38روپے سے بھی کم قیمت پر فروخت کے لیے راضی کر لیا گیا۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز صبح کی میٹنگ ہوئی تو سب نے یہی کہا کہ اس کی منظوری تو صرف پرائم منسٹر دے سکتے ہیں۔ یہ سن کر میں اُسی وقت دفتر سے نکل کھڑا ہوا۔ سیکریٹری داخلہ خواجہ صاحب نے پوری طرح سپورٹ کیا اور ساتھ چل پڑے چند منٹ میں ہم پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گئے۔ پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر جَوڑا صاحب سے راستے میں ہی میں فون پر بات ہوگئی تھی۔

انھوں نے ہمارے کہنے پر ڈی جی پیپرا کو وہیں بلالیا۔ وہیں میرے نوٹ کو سیکریٹری داخلہ نے endorseکیا ان کے بعد پرنسپل سیکریٹری ٹو پی ایم نے سپورٹ کیا، وہیں بیٹھے بیٹھے (معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر) ڈائریکٹرجنرل پَیپر ا سے منظوری لی گئی جس کے بعد پرنسپل سیکریٹری صاحب فائل وزیرِ اعظم کے پاس لے گئے اور پانچ منٹ کے بعد منظوری لے کر واپس آگئے۔ پہلے نوٹ سے حتمی منظوری تک ساراکام جس میں کئی مہینے لگتے ہیں، صرف چالیس منٹ میں ہو گیا۔ ہمیں محسوس ہونے لگا کہ ہماری نیک نیتی اور جذبہ دیکھ کر خدائی قوتیں ہماری مدد کر رہی ہیں۔ بلاشبہ مقصد نیک ہوتو خالقِ کائنات کی تمام طاقتیں آپ کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ہوا، ہر رکاوٹ دور ہوتی گئی۔ مشکلات کے سارے مقفل دروازے کھلتے چلے گئے۔

اُسی روز امریکن کمپنی کے اسلام آباد کے نمایندے کو بلا کر واضح طورپر بتایا گیا کہ "دیکھو!چاہے تم اسپیشل جہاز چارٹر کرو، ہمیں آیندہ بیس گھنٹے میں لَیمینیشن پیپر چاہیے۔ اچھی طرح سن لو یہ تمہیں کرنا ہوگاکیونکہ یہ ہماریNational prestigeکا معاملہ ہے۔ اورسن لو! اس سپلائی پر کمیشن سب پر حرام۔ اِس دفتر پر بھی اور تمہاری کمپنی پر بھی۔ کمپنی کے نمایندے ہمارے تیور سمجھ گئے۔ آیندہ تیس گھنٹے میں مطلوبہ پیپر ہمارے دفتر پہنچنا شروع ہوگیا۔

جس طرح پہلے بتایا گیا ہے کہ ایجنٹ مافیا پاسپورٹ کے تمام ریجنل دفاتر پر اپنا غیر قانونی قبضہ جما چکا تھا، مگر میں نے ایک بار بھی اس کا واویلہ نہیں کیا کہ "دیکھیں مافیا بڑا طاقتور ہے، میں بے بس ہوں، کیا کر سکتا ہوں۔" پوری سروس میں راقم نے کبھی اپنی بے بسی کا رونا نہیں رویا اورکبھی اختیارات کی کمی یا وسائل کی کمیابی کا شکوہ نہیں کیا۔ آصف زرداری جیسے شخص نے خود ایجنٹ مافیا کے مضبوط شکنجے کا ذکر کیا تو راقم نے انھیں بھی یہی کہا کہ "میں ان سے نپٹ لوں گا"۔ لہٰذا اس مافیا کو کچلنے کی ٹھان لی گئی۔

اس سلسلے میں، میں نے اپنی پولیس کی سروس اور تعلّقات سے بھی مدد لی اور پولیس کے ذریعے ایجنٹوں کے خلاف بڑا سخت آپریشن کرایا۔ زیا دہ تر جگہوں پر تعینّات پولیس افسران میرے کولیگ تھے یا جونیئر یا شاگرد رہ چکے تھے۔ سندھ میں اپنے بَیچ میٹ آئی جی شاہد بلوچ سے کہا، پشاور کے سی سی پی او لیا قت خان اور لاہو ر کے ڈی آئی جی رانا عبدالجبار سے بات ہوئی اور کوئٹہ، اسلام آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، اور راولپنڈی کے پولیس افسران سےcoordinateکر کے تمام جگہوں پر پولیس کے بیک وقت ریڈ کرائے۔ جس میں سیکڑوں ایجنٹوں کو گرفتار کر کے تھانوں میں بند کر دیا گیا اور ان کے خلاف پر چے درج ہو ئے۔ اس سے ہر جگہ تھر تھلی مچ گئی۔

پاسپورٹ محکمے کے مختلف دفاتر کے ملازمین نے بتایا کہ جہاں ریڈ نہ ہو، وہاں بھی ہم نے ایجنٹوں کو خوفزدہ ہوکر پھَٹّے اور رجسٹر چھوڑ کر بھاگتے دیکھا۔ ایک ہفتے کے سخت آپریشن سے ایجنٹ مافیا کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیا گیا، اس سے عوام میں بڑا واضح اورمثبت میسج گیا کہ اب پراناشیطانی دھندہ نہیں چلے گا۔

اُس کے ساتھ ہی ہم نے گھر کی صفائی کے لیے سرجیکل آپریشن شروع کردیا۔ کسی بھی ادارے میں اچھے اور برے دونوں قسم کے عناصر ہوتے ہیں اور انسانوں میں خیر کا پہلو شر سے زیادہ توانا ہوتا ہے۔ ادارے کا سربراہ بددیانت ہوتو برے عناصر حاوی ہو جاتے ہیں اور ایماندار اور باضمیر ملازم سہم جاتے ہیں۔ سربراہ دیا نتدار اور باکردار ہو تو زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو اس کی پالیسیوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔

کسی بھی ادارے میں ناقابلِ اصلاح (incorrigible) عناصر کی تعداد بہت کم ہوتی ہے مگر ایسے لوگ ادارے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان کی حیثیت اس Dead wood کی ہوتی ہے جسے کاٹ کر پھینک دینا پودے کی نشونما کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ قانو نی تقاضے پورے کرکے ایسے گندے عناصر سے محکمے کو پا ک کرنے کا عمل شروع کیا گیا تو ان کے بااثر سفارشی متحّرک ہوگئے مگر انھیں صاف جواب دے دیا گیا۔ ایک بھی سفارش نہ مانی گئی اور قانون کے نفاذمیں معمولی سی لچک بھی نہ دکھائی گئی۔ اس سے اچھے ملازمین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کے جذبوں کو تو انائی ملی۔ (جاری ہے)