ہیڈ آفس میں ہیلپ لائن بننے کے باوجود متعدد شہری براہِ راست ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنا چاہتے تھے۔ ایک روز آپریٹر نے پوچھا، سر! کن کے فون ملایا کروں؟ جواب دیا گیا " ہر ایک کا فون۔ میں ہر شہری کا فون سنونگا"۔ اور راقم ہر کال سنتا، اسے ہولڈ کر اکے کمپیوٹر سے اسٹیٹس چیک کرتااور کالر کوبتاتا کہ "میرے بھائی آپ کا پاسپورٹ کل ڈسپیچ ہو جائیگا۔۔ میری بہن آپکا پاسپورٹ کل کا بھیجا جا چکا ہے اس کا باکس نمبر… ہے"۔ دفتر کا ماحول اور کلچر تبدیل ہو گیا تھا۔
عام لوگوں کے ساتھ دوستانہ رویے اور ایک ہمدردانہ جذبے کے ساتھ ان کا کام کیا جانے لگا۔ لوگوں کو رشوت اور سفارش کے بغیر پاسپورٹ ملتے، تو ان کے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھ جاتے۔ یہ دعائیں سنکر راقم پُر مسرت لہجے میں محکمے کے دوسرے افسروں سے کہتا کہ "ہمارا اصل سرمایہ اور سب سے بڑی طاقت یہ ہے۔ عام لوگوں کی دعائیں جو آسمانوں کو چِیر کر دربارِ الٰہی میں پہنچتی ہیں "۔
بحران پر قابو پانے کے جنون میں راقم کے دن رات ایک ہو چکے تھے۔ نہ کھانے کا ہوش تھا نہ سونے کا۔ کسی ویک اینڈ پر گھر چلا جاتاتو وہاں سے کھانا بنواکر لے آتا جو تین چار دن چل جاتا۔ رات گئے تک دفتر رہتا اور سونے کے لیے پولیس اکیڈیمی کے ریسٹ ہاؤس چلا جاتا۔ میں نے محکمے سے کسی قسم کی کوئی سہولت طلب کرنا مناسب نہ سمجھا، اس دوران گاڑی بھی اپنی استعمال کرتا رہا۔
اسٹاف کے بے پناہ جذبے، لگن اور محنت سے پروڈکشن میں ہر روز اضافہ ہونے لگا۔ جہاں پہلے ہزار ڈیڑھ ہزار پاسپورٹ روزانہ چھپتے تھے وہاں پانچ ہزار، پھر دس ہزار اور اس کے بعد پندرہ، بیس اور پچیس ہزار روزانہ کے حساب سے پاسپورٹ چھپنے لگے، بَیک لاگ تیزی سے ختم ہونے لگا۔ اوورسیزپاکستانیوں کے تمام پاسپورٹ بنوا کر پاکستانی سفارتخانوں میں پہنچادیے گئے۔
جنھیں دیکھ کر ہمارے سفیر صاحبان حیران رہ گئے۔ جو سفیر پہلے ناراضگی کے خط لکھتے تھے، اب شکریے کے فون کرنے لگے۔ میں ان سفراء سے زور دیکر کہتا کہ وہ بھی ہفتہ وار چھٹیاں منسوخ کر دیں اور دن رات ایک کر کے تمام پاسپورٹ درخواست گزاروں تک پہنچائیں۔ حاجیوں کو وقت سے بہت پہلے پاسپورٹ فراہم کردیے گئے۔ خانہ کعبہ اور روضہء رسولﷺ کی زیارت کے خواہشمند وں کی خوشی دیدنی تھی۔
ایک روزدفتر میں اردلی آیا اور بولا، سر گیٹ پر وہ بھاری سی خاتون کھڑی ہیں جو ٹی وی پر آتی ہیں۔ اس کو سیکیورٹی گارڈ اندر نہیں آنے دے رہا۔ میں نے کہا، ٹی وی پر تو بہت سی خواتین آتی ہیں، تم کس کی بات کررہے ہو؟ کہنے لگا، سروہ جو سندھی اجرک گلے میں ڈال کر قوالیاں گاتی ہے۔ میں نے کہا جاؤ، خاتون کو عزت کے ساتھ میرے دفتر لے آؤ۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ معروف صوفی گلوکارہ محترمہ عابدہ پروین صاحبہ اپنا اور اپنی بیٹیوں کے پاسپورٹ بنوانے آئی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک دو شعروں کا تبادلہ ہوا مگر میری مصروفیت کیوجہ سے صوفیانہ شاعری پرزیادہ بات نہ ہو سکی۔
پاسپورٹ بنوانے کے لیے ہر روز ملک کی معروف شخصیات راقم کے دفتر آتی تھیں۔ سابق اور موجودہ وزراء بھی آتے رہے، ہر ایک کا طرزِ عمل اور طرز ِ گفتار مختلف ہوتا۔ پولیس سروس کے دوران کئی معروف افراد کی اصلیت کا پتہ چلتا تو بڑا دکھ ہوتا۔ محکمے کے اپنے وزیر یعنی وزیرِ داخلہ کے غیر قانونی احکامات بھی تسلیم نہ کیے گئے۔
ایک روز میں کسی فائل کیapproval کے لیے سیکریٹری داخلہ کے پاس گیا تو انھوں نے کہا "آئیں ذرا وزیر صاحب سے بھی مل لیں "۔ میں انھیں ملنے سے گریزاں تھا۔ اس لیے لیت ولال سے کام لیا تو سیکریٹری داخلہ زور لگا کر مجھے سامنے والے کمرے یعنی وزیرِ داخلہ کے آفس میں لے گئے۔ وہاں میں نے وزیر صاحب سے صاف صاف کہہ دیا (جسکے سیکریٹری داخلہ گواہ ہیں ) کہ " میں آپکے صرف وہ احکامات مانوں گا جو Lawful ہونگے، unlawful احکامات میں ہرگز نہیں مانونگا"۔
ایک روزاُسوقت کی وزیرِ تعلیم تشریف لائیں۔ میں انھیں پہلے نہیں جانتا تھا۔ انھوں نے جو کارڈ دیا اُسپر لکھاتھا ڈاکٹر ثانیہ نشتر۔ میں نے اُن سے تحریک ِ پاکستان کے نامور رہنماء سردار عبدالرب نشتر سے تعلق پوچھا تو انھوں نے اپنا رشتہ بتا دیا۔ اُنکا طرزِ عمل سب سے زیادہ باوقار اور dignified تھا۔ میں نے بھی انھیں بہت عزت و احترام دیا اور اس کی وجہ بھی بتا دی کہ "میرے دل میں آپ کے لیے عزت و احترام وزیر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ عزت اس لیے ہے کہ آپ قائدؒ کے قریب ترین ساتھی اور اس ملک کے ایک اہم معمار سردار عبدالّرب نشتر کی بہو ہیں " اس کے بعد وہ ہماری کئی تقریبات میں آتی رہیں، میری پہلی کتا ب "دوٹوک باتیں "کی تقریبِ رونمائی میں بھی انھوں نے اظہار ِ خیال کیا۔ وہ بلاشبہ ایک اعلیٰ کردار کی انتہائی قابل خاتون ہیں۔
دوست نوازی ہمارے حکمرانوں کا پسندیدہ چلن رہا ہے۔ جو جسقدر میرٹ اور قانون کو روند کر اپنے اقرباء اور دوستوں کو نوازے وہ اتنا ہی بڑا مردِ میدان اور یاروں کا یار سمجھا جاتا ہے۔ اس محکمے کے وزیر صاحب (کچے نہیں سابقہ حکومت کے پکّے وزیر) کیو ں پیچھے رہتے، انھوں نے اپنے اختیارات کا جائزہ لیا تو دو چیزیں آنکھیں بند کر کے بانٹناشروع کر دیں۔
کہتے ہیں کہ پارٹی کا جو بھی ورکر آتا اُسے پہلے کلاشنکوف کا لائسنس پیش کیا جاتا اور پھر اُسے بلیو پاسپورٹ (سرکا ری پاسپورٹ جو بین الاقوامی کانفرنسوں یا میٹنگوں میں ملک کی نمایندگی کرنے والے اعلیٰ حکام کو دیا جاتا ہے) کاتحفہ دیا جاتا۔ بلیو پاسپورٹ کے لیے کئی اہم ملکوں میں ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
وزیر موصوف کے ہاتھوں بلیو پاسپورٹ سے فیضیات ہونے والے درجنوں لوگ بیرونِ ممالک گئے اور وہیں غائب ہو گئے اور پاکستان واپس نہیں آئے یعنی اس طرح کے Cheatersاور Criminals کو بلیو پاسپورٹ جاری کر کے ایک اہم قومی نشان کو بے توقیرکیا گیا۔ ہم نے نہ صرف کسی ایک بھی غیر حقدار شخص کو بلیو پاسپورٹ جاری نہ کیا بلکہ جن non- deserving لوگوں کو سرکاری پاسپورٹ جاری کیے گئے تھے ان کی مکمل تحقیق کر کے دو ہزار سے زائد لوگوں کے بلیوپاسپورٹ کینسل کر دیے۔ اس سلسلے میں محکمے کے ایک قابل افسر اخلاق قریشی نے بڑی دیانت اور عرق ریزی سے رپورٹس تیار کیں۔
اسی طرح بہت سے سیاستدانوں نے اپنے بیٹوں اور عزیزوں کومیرٹ کے بغیر یعنی سیاسی بنیادوں پر بیرونِ ملک سفارتخانوں میں تعینات کروا رکھا تھا۔ ہم نے غیر منصفانہ بنیادوں پر کی جانے والی تمام تعیناتیاں کینسل کرنے کی سفارش وزارتِ داخلہ کو بھیج دی۔ اس سلسلے میں ایک بار ایک با اثرسابق وزیر میرے پاس آئے اور کہنے لگے میرا بیٹا تو امریکا کی بہترین یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہے وہ بہت قابل ہے آپ اس کی تعیناتی کیوں کینسل کروا رہے ہیں؟ " میں نے کہا " اس لیے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہوا ہے۔
اگر وہ قابل ہے تو امتحان میں کامیاب ہو کر صحیح طریقے سے اس نوکری کا حقدار قرار پائے گا" کہنے لگے آپ نہیں کریں گے تو میں وزیرِ داخلہ سے بات کر لونگا۔ میں نے کہا "بخوشی کیجیے مگر ہم میرٹ کی خلاف ورزی کر کے اگر ایک شخص کو بھی برقرار رکھیں گے تو پھر میرٹ کا کبھی نام نہیں لے سکیں گے" وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔
اس دوران عام انتخابات ہو گئے تھے جسکے نتیجے میں میاں نواز شریف وزیراعظم اور چوہدری نثار علی وزیرِ داخلہ بن گئے۔ چوہدری صاحب نے غیر قانونی بلیو پاسپورٹوں کے بارے میں تو ہماری سفارشات مان لیں لیکن سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی تعیناتیاں کینسل کرنے کے بارے میں وہ مصلحت سے کام لیتے رہے اور تعیناتیاں کینسل نہ کیں۔
ایک روز اطلاع آئی کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب اپنا پاسپورٹ بنوانے آئیں گے۔ میں نے اپنے اسٹاف افسرسے کہا ان کے اسٹاف سے رابطہ رکھو، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم بڑی قابلِ احترام شخصیت ہیں، میں خود پورچ میں جا کر انھیں ریسیو کرونگا۔ دس منٹ بعد اردلی نے دروازہ کھول کر کہا "سر چیف الیکشن کمشنر صاحب آئے ہیں۔
میں اٹھ کردروازے کی طرف گیا، دیکھا تو وہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی فاروق صاحب تھے۔ قاضی صاحب میرے بڑے بھائی (ریٹائرڈ) جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب کے دوست تھے اس لیے میرے لیے وہ بڑے بھائیوں کی طرح تھے اور ان سے بارہا ملاقات ہو چکی تھی۔
ان سے بڑی اچھی گپ شپ ہوئی، ان کے جانے کے پندرہ بیس منٹ بعد اسٹاف افسر نے بتایا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر گیٹ پر پہنچ گئے ہیں۔ میں پورچ میں انھیں ریسیو کرنے گیا__ جسٹس فخرالدین صا حب جو بہت معمر اور نحیف ہو چکے تھے، میں نے اور میرے اسٹاف افسر نے ملکر انھیں گاڑی سے اتارا اور سہارا دیکر پہلی منزل پر اپنے دفتر لے کر گئے۔ وہ صوفے پر بیٹھتے ہی دراز ہو گئے، انھیں جوس پلایا گیا توپھر کہیں جا کرجسٹس صاحب کے اوسان بحال ہوئے۔ ایک دوباتوں میں ہی اندازہ ہو گیا کہ الیکشن کرانا ان کے بس کی بات نہیں۔ مجھے تشویش لاحق ہوئی کہ ایسا نہ ہو کہ آخری عمر میں وہ عزتِ سادات گنوا بیٹھیں۔ بعد میں وہ خدشہ درست ثابت ہوا، الیکشن کے بعد فخرو بھائی کو بلاوجہ بدنام کیا گیا، جو بہت افسوس ناک ہے۔
ہمارے کراچی آفس کے انچارج خالد نے شکایت کی کہ ایم کیو ایم والے دفتری معاملات میں بہت مداخلت کرتے ہیں۔ اُسی دوران فاروق ستار صاحب کا اپنے پاسپورٹ کے لیے فون آیا تو میں نے انھیں کہا آپ ہمارے دفتر میں مداخلت بند کرائیں ساتھ ہی میں نے آئی جی سندھ سے کہہ کر مناسب سیکیورٹی کابندوبست کرا دیا۔
جس سے حالات بہتر ہوئے۔ ایک روز ایم کیو ایم کے ایک ایم این اے دفترآئے بڑے تحکمانہ لہجے میں بولے، " اس ٹوکن نمبر کا پاسپورٹ لاؤ" "ہم نے کہا" آپ کے پاس اتھاریٹی لَیٹر ہونا چاہیے، اگر وہ نہیں تو ہم آپکو کسی دوسرے کا پاسپورٹ نہیں دے سکتے"۔ اس پر انھوں نے وہیں سے فون کرنے شروع کر دیے، ڈی جی پاسپورٹ نے میری توہین کی ہے۔ اس کے خلاف میری تحریکِ استحقاق جمع کر لیں۔"
(جاری ہے)