اس دوران محکمے کی ورکنگ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور سرو س ڈلیوری بہتر بنانے کے لیے کئی اصلاحات شروع کی گئیں۔ لوگوں کو پاسپورٹ ان کے گھر پرپہنچانے کے منصوبے (ہوم ڈلیوری اسکیم)کی حکومت سے منظوری لے لی گئی۔ اسی طرح سابق وزیرِ داخلہ نے جوش میں آکر پاسپورٹ کی مدّت پانچ سال سے بڑھاکر دس سال کر دی تھی جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچا۔ ہم نے مدت کو دوبارہ rationaliseکر ایا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔
بیرونِ ممالک ہمارے سفارتخانوں میں تعیّنات پاسپورٹ کا عملہ کئی مالی اور انتظامی مسائل کا شکار تھا۔ راقم نے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی صاحب( جو میرے کالج کے زمانے کے دوست تھے) سے ملکر ان کے مسائل حل کرائے۔ اس کے علاوہ ٹیکنیکل اسٹاف کی بھرتی اور نئی مشینری خریدنے کے لیے حکومت سے منظوری لی گئی۔
ہر روز صبح کی میٹنگ میں بیک لاگ کا جائزہ لے کر اندازہ لگا یا جاتاکہ اس کے مکمل خاتمے میں کتنا وقت لگے گا۔ ساتھ ساتھ ہم پروڈکشن میں اضافہ کرتے گئے جس سے بیک لاگ کم ہوتا گیا۔ ایک روز اندازہ لگایا گیا کہ تیس روز میں ختم ہوجائے گا، پھر بیس روز، پھر پندرہ، دس اور پھر یہ کہ اتنا بڑا قومی بحران پانچ روز میں ختم ہوجائیگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں کہ اللہ کرے مشن بخیرو خوبی مکمّل ہوجائے۔
اور بالآخر مالک ارض و سما کی خصوصی مدداور ادارے کے محنتی اور پر جوش ملازمین کی انتھک کوششوں سے صرف تین مہینوں میں قوم نے ایسا معجزہ دیکھ لیا جسکا کسی کو یقین نہیں تھا، ملک کے اندر اور غیر ممالک میں رہنے والے ہر پاکستانی درخواست گزار کو اس کا پاسپورٹ مل گیا، آٹھ لاکھ کا بیک لاگ ختم ہوگیا، ملک کی رسوائی کا باعث بننے والا قومی بحران نویّ روز میں ختم کردیاگیا۔
میں نے پہلی بار میڈیا سے بات کی اور بحران ختم ہونے کی خوشخبری سنائی تو تما م ٹی وی چینلوں پر کئی منٹ تک بریکنگ نیوز چلتی رہی۔ اُسوقت جب کہ ہر ٹی وی چینل پر پاسپورٹ بحران کے خاتمے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی، ہیڈ آفس کے لان میں ڈائریکٹر جنرل سمیت تما م ملازمین خالقِ کائنات کے حضور سجدئہ شکر اداکررہے تھے، شکرانے کے نوافل ادا کر نے کے بعد مٹھائی منگوائی گئی اور وہاں موجود سب لوگوں کا منہ میٹھا کروایا گیا۔ ملازمین اپنی تاریخی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ کچھ نوجوانوں نے ڈھول منگوا لیا اور وہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہے۔
راقم نے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب سے دو تین بار کہا کہ وہ آکراُن ملازمین میں انعامات تقسیم کر یں جنکی دن رات کی محنت سے ایک ڈوبا ہوا ادارہ صرف تین مہینوں میں پاؤں پر کھڑا ہوگیاہے۔ مگر وزیر صاحب وقت نہ نکال سکے۔ اسلام آباد پولیس کو بھی چوہدری صاحب سے یہی گلہ رہتا تھا کہ پولیس کے شہیدوں کے ورثاء کو پرسا دینے کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہوتاتھا۔ ان کی ذاتی ایمانداری پر شک نہیں البتہ ان کی inaccessibility کے باعث انھیں ایک ناکام وزیرداخلہ سمجھاجاتا ہے۔
یوم تشکر کے گزشتہ روز ڈائریکٹر جنرل آفس میں میٹنگ کے دوران ڈیپوٹیشن پر آنے والے سی ایس ایس افسران سے پوچھا گیا کہ آپ نے ان تین مہینوں میں کیا سیکھا ہے؟ توانھوں نے بیک زبان کہا کہ " ہم نے اپنی سروس کے نو دس سالوں میں اتنا نہیں سیکھا جتنا پچھلے تین مہینوں میں سیکھا ہے "۔ دو روز بعد پروجیکٹ ڈائریکٹر مجھے ایک فائل دیتے ہوئے بولے "سر ہم نے ہر برانچ کے افسران سے پچھلے تین مہینوں کے بارے میں ان کے کمنٹس مانگے تھے۔ ان کی صحیح رائے جا ننے کے لیے انھیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے نام نہیں لکھیں گے۔
اُن کے viewsآپ بھی پڑھ لیں " ایک سے زیادہ نے لکھا تھا " ہم نے ناممکن کو ممکن بنانا سیکھا ہے "۔ کئی افسران نے لکھا " ہم نے تین مہینوں میں ایمانداری اور اعلیٰ کردار کی طاقت دیکھی ہے"، کسی نے لکھا کہ" پہلے صرف پڑھا تھا اب آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لیڈر شپ کسے کہتے ہیں اور اس کے لیے کن اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے"۔ ایک اور نے لکھا کہ " ہم نے initiative لینا سیکھا ہے، ہمیں مشاورت کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے، ہم نے مشاورت سے فیصلہ کرنا اور اُس پر اسٹینڈ لینا اور فیصلوں پر موثر طریقے سے عملدرآمد کرانا سیکھا ہے"۔
ایک سینئر افسر نے لکھا " ہم نے پہلی بار Rule Of Lawکو implement ہوتے دیکھا ہے۔ ہمیں میرٹ اور انصاف کی اہمیّت اور قوت کا اندازہ ہوا ہے۔ ہم نے اپنے ادارے کے تقدس اور Imageکا تحفظ کرنا سیکھا ہے"۔ دوتین نے لکھا کہ "ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے فلم چل رہی ہے اور ہم اس کے کردار ہیں "۔ ایک نے لکھا " ہم نے بہادری اور جرأت سے فیصلے ہوتے دیکھے اِ س سے اندازہ ہوا کہ لیڈر شپ کے لیے بہادری اور جرأت کی کتنی اہمیت ہے"۔
کئی افسروں نے لکھا کہ "ہم نے سزا اور جزاء کے فوائد دیکھے ہیں، ہمیں جونیئر ملازمین کو دی جانے والی تھپکی اور ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک ہوا ہے"۔ ایک سے زیادہ لوگوں نے لکھا "ہم نے عام آدمی سے سچی ہمدردی کرنا اور اسے عزت دینا سیکھا ہے۔
ہم نے سیکھا ہے کہ نیک نیّتی اور مصمّم ارادے (Determination) کے زور سے ناقابل یقین معجزے رونما ہوسکتے ہیں "، کئی لوگوں نے یہ بھی لکھا کہ "ہم نے پہلی بار اپنے ملک سے محبت کی آنچ محسوس کی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب کسی سول سرونٹ کے دل میں ملک کی محبت کی شمع روشن ہو جائے تو پھر اس کا جنون منزل کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ عبور کر جاتاہے۔ سچّی بات یہ ہے کہ ہم تو اچھی گاڑی، اچھا دفتر، اچھی پوسٹنگ اور پروموشن کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے ہم نے پہلی بار دیکھا ہے کہ جب کسی کے سامنے اعلیٰ اور ارفع مقصد ہو تو ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔"
اس کے ساتویں یا آٹھویں روزمیں دفتر میں بیٹھا تھا کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر صفدر صاحب نے آکر بتایا "سرٹی وی پر ٹِکر چل رہا ہے کہ آپ کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ دفتر کے لوگ بہت پریشان ہیں " میں اس لحاظ سے مطمئن تھا کہ ٹیبل صاف ہے اور ادارے کی ورکنگ Streamlineہوچکی ہے۔ سارا کام ختم کر کے جب میں شام کو دفتر سے نکلا توباہر پاسپورٹ آفس کا دل گرفتہ اسٹاف کھڑا تھا۔
وہ کہنے لگے "سر آپ چلے جائیں گے؟ سرآپ کچھ دیر اور رہ جائیں، آپ کا رہنا بہت ضروری ہے"۔ میں نے انھیں کہا "دیکھیں افراد آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ نے جس طرح ایک مشنری جذبے کے ساتھ دن رات کام کرکے اس بحران پر قابو پایا ہے، اس پر پوری قوم کو آپ پر فخر ہے۔ آپ اسی جذبے سے کام کرتے رہیں، انشاء اﷲ اس ادارے کو عوام کا اور زیادہ اعتماد اور مزید عزت حاصل ہوگی"ان کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔
مجھے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز پولیس کا آئی جی مقررّ کیاگیا تھا۔ دوسرے روز میں آئی جی آفس میں میٹنگ کررہا تھا کہ آپریٹر نے فون ملاتے ہوئے کہا "سر! راجہ سکندر سلطان بات کرنا چاہتے ہیں۔ (انھیں میری جگہ پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا)میں نے انھیں مبارک باد دی تو وہ کہنے لگے "سر!میں آنا چاہتاہوں تاکہ چارج لینے سے پہلے آپ سے بریفینگ لے لوں۔"آدھے گھنٹے بعد وہ پہنچ گئے۔ راجہ سکندرسلطان ( آجکل چیف الیکشن کمشنر ) مجھ سے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں چھ سال اور سروس میں چار سال جونیئر تھے۔ وہ شائستہ اور متوازن مزاج کے آدمی ہیں۔ چائے کے ساتھ ساتھ ایک گھنٹے تک بات چیت چلتی رہی۔ ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ کے طور پروہ جب بھی کہیں ملتے تو برملا کہتے کہ "پاسپورٹ کے محکمے میں سارا کام توآپ کر گئے تھے، ہمارے لیے تو آپ نے کوئی مسئلہ چھوڑا ہی نہیں "۔
ملک کے اندر اور باہر پاسپورٹ کے ڈوبے ہوئے محکمے کوپاؤں پرکھڑا کر دینے کی success story کو کیس اسٹڈی کے طورپر دیکھا گیا، یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات اورریسرچرز اس پر تحقیق کرتے رہے۔ رائٹر اور دانشور مجھ سے پوچھتے تھے اور اب بھی پوچھتے ہیں کہ "آپ نے یہ ادارہ کیسے ٹھیک کیا اور کیا سب ادارے ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ "اُسوقت بھی اور آج بھی میرا دوٹوک جواب یہی ہے کہ "ہاں سب ادارے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ادارے کے سربراہ کا دامن بے داغ اور ارادہ غیر متزلزل ہو۔ وہ قائدانہ صلاحیّتوں کا مالک اور جوش و جنون سے سرشار ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔"Nothing is Impossible"
پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ چھوڑنے کے دو تین مہینے بعدمیں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں شادی کی کسی تقریب میں شریک تھا۔ کھانے کے بعد ہم چند دوست ایک سائیڈ پر کھڑے چائے پی رہے تھے کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ کسی نامانوس آواز نے پوچھا "آپ ذوالفقار چیمہ ہیں؟ " میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ کون صاحب ہیں؟ ادھر سے آواز آئی میں کوہاٹ کا رہنے والا ہوں، نصیب اللہ، مسجد نبوی سے بول رہا ہوں۔ آپ نے ہمارے پاسپورٹ بنوائے تھے۔ میں، میری بیوی اور دو چھوٹی بچیاں نبی کریم ﷺ کے روضہء مبارک کے سامنے کھڑے ہیں اور آپ کا نام لے کر آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں "۔ میرا پورا جسم کا نپ اٹھا اور چائے کپڑوں پر گر گئی۔ میں تقریب چھوڑ کر چلا گیا۔
منہ سے ایک ہی فقرہ بار بار بار نکل رہا تھا۔ یا الٰہی مجھ گناہگار کا یہ مقام۔ حضورﷺکے روضہء اقدس کے سامنے مجھ گناہگار کا نام۔ مجھ گناہگار پر ایسا کرم، جسکا میں حقدار نہیں ہوں۔ گھر پہنچ کر فوراً وضو کیا اور سجدے میں گر گیا۔ آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اور زبان سے یہی نکل رہا تھا، مجھ جیسے گناہگارپر ایسا فضل وکرم، اس کے بعد بھی کئی بار ایسا ہوا کہ کسی اجنبی نے فون پر کہا، "ہم خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہیں اور تمہارا نام … میں ایسی کال سنکر ہمیشہ کانپ اُٹھتا۔
سول سرونٹس کی اکثریت غلط راہ پر چل نکلی ہے۔ اگر وہ رزق حلال کھا کر بے سہارا لوگوں کی مدد کو حرِز جاں بنالیں تو ان کی دعاؤں سے انھیں اُس نشے کا سرور حاصل ہوگا جسکے مقابلے میں کھربوں روپے کی کوئی حیثیّت نہیں۔ یہ جام چکھ کر تو دیکھیں، آپ باقی سب نشے بھول جائیں گے۔