حافظؔ کو بلا شبہ فارسی کا سب سے بڑا رومانوی شاعر مانا جا تا ہے۔ اردو اور فارسی زبان دانوں کا کہنا ہے کہ میرؔ اور غالبؔ کی شاعری میں آہ کا پہلو حاوی ہے، جب کہ خواجہ حافظ کی غزلیں واہ کا نمونہ بھی پیش کر تی ہیں۔ ان میں خوش دلی ہے۔
حافظؔ کے شعروں میں روانی، دلپذیری، الفاظ کی دلکشی، استعاروں اور تشبیہوں کی رنگینی، حسن کی منظر کشی اور عشق و محبت کے جذبات کی عکاسی بے مثال ہے۔ یورپ کے شعراء نے بھی کلامِ حافظؔ کا بہت ذکر کیا ہے۔ کئی انگریز نَا قدین کا کہنا ہے کہ حافظؔ کے کلام میں شیکسپیئر سے زیادہ لطافتیں پائی جاتی ہیں۔
حافظؔ کا پورانام خواجہ شمس الدّین محمد حافظ شیرازی تھا، وہ 1315 میں ( شیخ سعدیؒ کے قریباً سوسال بعد) شیراز میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے والد کی تلاوت سُن سنکر پورا قرآنِ مجید حفظ کر لیا تھا، اسی لیے حافظ کہلاتے تھے، حافظ بچپن سے ہی شیخ سعدیؒ کی شاعری سے بہت متاثر تھے، انھیں سعدیؒ، عطارؒ اور رومیؒ کے ہزاروں شعر یاد تھے، ان کی کمسنی میں ہی والد وفات پا گئے تو انھیں والدہ کے ہمراہ اپنے ماموں کے ہاں رہنا پڑا اور پھر اسکول چھوڑ کر ایک بیکری پر ملازمت کرنا پڑی۔ ایک روز حافظ کسی صاحبِ ثروت کے ہاں بیکری کا سامان دینے گیا تو وہاں اُس کی نظر ایک خوبرو دوشیزہ شاخِ بنات پر پڑی جو حسن و جمال کا مرقّع تھی۔ حافظؔ وہیں اس کا دیوانہ ہو گیا اور بعد میں لاتعداد شعر ا سی کے لیے کہے۔ محبوبہ سے وصال کے لیے اُس نے چالیس روز کا چلہ بھی کاٹا۔
جوانی میں حافظؔ کو شیراز کے حکمران ابواسحا ق کے دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ بعد میں مبارز مظفّر شیراز کا فاتح بنکر آیا اور اس نے حافظؔ کو دربار سے نکال دیا۔ جب شاہ شجاع شیراز کا حاکم بنا تو اس نے حافظؔ کی درباری شاعر کی پوزیشن پھر بحال کر دی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد شاہ شجاع ناراض ہو گیا تو حافظؔ شیراز چھوڑ کر اصفہان چلا گیا۔ جلاوطنی کے کچھ عرصے بعد شاہ شجاع نے حافظؔ کو دوبارہ شیراز بلا لیا۔
حافظؔ نے انہتّربرس کی عمر میں وفات پائی تو اس کی تدفین کا مسئلہ درپیش آیا۔ کہتے ہیں شہر کے مولوی صاحبان نے حافظؔ کی کثرتِ شراب نوشی کے باعث اس کا جنازہ پڑھا نے سے انکا ر کر دیا، جس پر اُسکے مدّاحوں نے اُس کے کلام سے رجوع کرنے پر اصرارکیا۔ دیوان کھولا گیا تو یہ شعر نکلا
قدم دریغ مدار از جنازہء حافظ
کہ گرچہ غرقِ گناہ است می رودبہ بہشت
(لوگو میرا جنازہ پڑھنے سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤ (گریز نہ کرو) اگر چہ میں گناہوں میں غرق ہوں مگر پھر بھی سیدھا جَنتّ میں جا رہا ہوں) شعر کو اس کے چاہنے والوں نے فال قرار دیا، جنازہ بھی پڑھایا گیا، اور اس کے بعد کلامِ حافظ ؔکو فال نکالنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
چند روز قبل دنیا بھر میں اردو کے سب سے بڑے مزاحیہ شاعر پروفیسر انور مسعود صاحب (جن کا سنجیدہ شاعری میں بھی بہت بلند مقام ہے) سے ملنے گیا۔ کہ اب ان کی ہمسائیگی میں آ گیا ہوں (وہ اسلام آباد، DHA-2 کے H سیکٹر میں رہتے ہیں اور میں نے E سیکٹر میں ڈیرہ لگا لیا ہے) ملاقات کے دوران اُن سے ایران اور شیراز کے دور ے کی باتیں ہوتی رہیں۔ پروفیسر صاحب کو حافظؔ کا یہ شعر سنایا تو انھوں نے اس کا پنجابی ترجمہ اس طرح کیا
"میرے جنازے توں پِچھیّ ناں ہٹو۔
میں بڑا وڈّا گناہگار آں پَر فیر وی اَے لَغا جاندا جے سِدّہا جنّت وِچ، جے ڈَک سکدے او تے ڈَک لو۔
یعنی میرا جنازہ پڑ ھنے سے گریز نہ کرو، اگرچہ میں بڑا گناہگار ہوں مگر (اللہ کے کرم اور رحمت سے ) سیدھا جنّت میں جا رہا ہوں۔ روک سکو تو روک لو۔
پروفیسر انور مسعو صاحب نے دیوانِ حافظؔ سے فال نکالنے کے حوالے سے ایک اور تاریخی واقعہ سنایا کہ مغلیہ دور میں ایک مغل شہزادی کی انگوٹھی گم ہو گئی، کا فی تلاش کے باوجود نہ ملی تو فیصلہ ہوا کہ دیوانِ حافظؔ سے فال نکالی جائے۔ دیوانِ حافظؔ منگوا کر کھولا گیا تو یہ شعر نکلا،
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
(وہ چور کتنا دلیر اور بے خوف ہے کہ جو ہاتھو ں میں چراغ لے کر پھر رہا ہے) محل کے سمجھدارلوگوں کا دھیا ن اُس خادمہ کی طرف گیا جو محل کے چراغ روشن کیا کرتی تھی، پوچھ گچھ کی گئی تو انگوٹھی اُسی سے برآمد ہو گئی، دونوں عظیم شعراء (سعدیؔ اور حافظؔ) کی چند باتیں شیراز پہنچنے سے پہلے ہی قارئین کے ساتھ شیئر کر دی ہیں۔
اُدھر بی بی شہر بانو کے احاطے سے نکل کر ہم سیدھے سفیرِ پاکستان کی رہائش گاہ پر پہنچے، وہاں عشائیے پر کافی عرصے کے بعد اپنے بَیچ میٹ شاہد بلوچ (سابق آئی جی سندھ) اور ان کی بیگم صاحبہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہی راقم، صفدر اور ان کا بیٹا سعد ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔
تہران کے دو ائرپورٹ ہیں امام خمینی ائر پورٹ بین الاقوامی پروازوں کے لیے مخصوص ہے اور مہر آباد ائیر پورٹ مقامی پرواز وں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تہران سے شیراز کا فاصلہ 932 کلومیٹر ہے، جو جہاز نے فضاؤں میں تیر کر سوا گھنٹے میں طے کیا۔ ہمار ے ہا ں اتنے طویل ہوائی سفر کا کرایہ بیس پچیّس ہزار سے کم نہیں ہے اور وہاں صرف پانچ ہزار روپے میں ٹکٹ مل گیا۔ پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے ٹیکسی سے لے کر ہوائی جہاز تک کے کرائے بہت ارزاں ہیں۔ نصف شب بیت چکی تھی جب ہم شیراز کی گلیوں میں داخل ہوئے۔ میں نے ایکسائیٹمنت میں ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ہمیں فوراً شیخ سعدی ؒ کے مزار پر لے چلو مگر جب اس نے بتایا کہ رات کو مزارات کے گیٹ بند ہو جاتے ہیں تو ہمیں اپنے ہوٹل کا رخ کر نا پڑا۔
صبح تیار ہو کر ریسیپشن پر آ گئے، ریسیپشنسٹ نے بڑی خوش اخلاقی سے طعام گاہ کی جانب راہنمائی کی، ہم شہر شیراز میں پہلا کھانا تناول کرنے کے لیے ہال میں پہنچے تو ذہن میں دعوت ِ شیراز کا خیال آ گیا جو ہمارے ہاں سادہ کھانے کی دعوت سمجھی جاتی ہے۔ ہال میں پہنچتے ہی میری نظر یں تربوز کی تلاش میں دائیں بائیں گھومنے لگیں مگر تربوز کہیں نظر نہ آیا تو ہم نے شیراز کے پہلے ناشتے کو دعوتِ شیراز قرار دیا اور انڈ وں کی جانب متوجہّ ہوئے۔
اُدھرزبانِ یارفارسی تھی ومن فارسی نمی دانم والا معاملہ در پیش تھا، فرائی انڈوں کا آڈر دینے کے لیے صفدر نے اپنی فارسی دانی بروئے کار لاتے ہوئے ویٹرس کو سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر لا ابالی مٹیار نے کندھے اچک کر بتا دیا کہ اس کے پلّے کچھ نہیں پڑا۔ پھر ہم نے اس کی انچارج (جسکے ڈیل ڈول سے لگتا تھا کہ وہ خاندانِ رستم سے تعلق رکھتی ہیں اور اُنکا زیادہ وقت کچن میں فوڈ ٹیسٹ کرنے میں ہی گزرتا ہے۔ ) کو بلایا تو صفدر نے ڈرتے ڈرتے بات سمجھانے کی کوشش کی، کچھ سعد نے مدد کی اور کچھ اشاروں سے کام لیا گیا، اور بالآخر ہم چاچی شیرازن کو فرائی انڈوں کے بارے میں سمجھانے میں کامیاب ہو گئے۔
میں جب بھی شیراز کے متعلق سوچتا تھا تو ذہن میں پنجاب کے شہر پاکپتن سے ملتاجلتا کوئی شہر آتا تھا جہاں دو عظیم شاعروں کے مقبرے ہونگے اور سارے شہر پر ایک صوفیانہ ماحول طاری ہو گا۔ مگرجب ہوٹل سے باہر نکلے تو دو رویہ کشادہ سڑکیں اور گاڑیوں کی چہل پہل دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شیراز بڑا شہرہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پندرہ لاکھ آبادی کا یہ شہر ایران کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے جو ایک ہزار سال تک پورے علاقے کا تجارتی مرکز رہا ہے۔ اِسوقت یہ ایران کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ شہر میں چھ یونیورسٹیاں ہیں اور انڈر گراؤنڈ میٹرو بھی چلتی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہاں بڑے سے بڑے شہر میں بھی انڈر گراؤنڈ ٹرین نہیں چلائی جا سکی۔ ایرانی کلچر میں باغات کو خصوصی اہمیّت حاصل ہے، مرقدِ سعدیؒ کے آس پاس بھی وسیع سبزہ زار ہیں مزار سادہ سا ہے جسکی دیواروں پر شیخ سعدیؒ کے اشعار تحریر کیے گئے ہیں۔
شیخ سعدیؒ کے مزار پر پہنچ کر بچپن میں پڑھی ہوئی شیخ ؒ کی کئی حکایات ذہن میں آگئیں۔ اللہ تعالیٰ سے اس حکیم و دانا، مردِ درویش کے درجات کی بلندی کی دعا کی، اور گیٹ سے باہر آ کر اُسی ٹیکسی میں بیٹھ کر مرقدِ حافظؔ کی جانب چل پڑے۔ ڈرائیوروں سے ہماری گپ شپ چلتی رہی، ہم نے سوچا کہ شیراز کے ڈرائیور سعدیؒ اور حافظؔ کو تو جانتے ہی ہیں چلیں ان سے اقبال ؒ کے بارے میں پوچھ کر دیکھتے ہیں جب اُس سے پوچھا کہ آپ اقبالؒ کو جانتے ہیں؟ اُس نے فورا ًکہا اقبالؒ لاہوری جیسے عظیم شخص کو کون نہیں جانتا۔ علامہ اقبالؒ کو اہل ایران اقبالؒ لاہوری کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ ایران میں بڑی شخصیات کے ناموں کے ساتھ ان کے شہرکا نام ساتھ لگانے کا رواج عام ہے۔ ہماری فرمائش پر اس نے اقبال ؒ کے فارسی میں کہے گئے کئی شعر سنا دیے۔
ڈرائیور با ذوق تھا کہنے لگا شیراز خود بھی لفظ ش سے شروع ہوتا ہے یہاں شین کی بڑی اہمیّت اور فضیلت ہے۔ یہاں شعر و ادب، شاعروں اور شراب کی بڑی بہتات رہی ہے۔ اس کی دلچسپ باتیں ابھی جاری تھیں کہ ہمیں دور سے" آرام گاہِ حافظ" کا بورڈ نظر آ گیا۔ عام مقبروں سے ہٹ کر خواجہ حافظ کی قبر کمرہ بند نہیں ہے۔ اُسپر چھت ہے مگر دیواروں میں کھڑکیوں اور دروازوں کی جگہ کھلے در رکھے گئے ہیں۔ اُسے کلاہِ قلندری کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یعنی مرقدِ حافظؔ کو قلندروں والی ٹوپی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
مزار کے ایسے طرزِ تعمیر کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حافظؔ ا پنی زندگی میں بھی اس طرح کی بارہ دریوں میں بیٹھ کر محفلیں سجایا کرتا تھا اور لوگوں کو اپنا کلام سنا کر محظوظ کیا کرتا تھا۔ اب بھی مرقد ِحافظ پر رات کو محفلیں جمتی ہیں۔ لوگوں کے گروہ آتے ہیں گلوکار سبزے پر بیٹھ کر حافظؔ کی غزلیں سناتے ہیں، اور سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ فارسی کی رومانوی شاعری میں حافظؔ کے پائے کا کوئی شاعر نہیں ہے۔ مرقدِ حافظؔ پر دعا کے بعد ہم اُس کمپاؤنڈ سے باہر نکل آئے۔ اب ہماری اگلی منزل تھی۔ ۔ باغِ ارم۔ (جاری ہے )