2020جیسا موذی اور مہلک سال پہلے نہیں دیکھا جو دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو فنا کے گھاٹ اتار گیا۔
وطنِ عزیرمیں بھی یہ سال بہت سے عزیروں، دوستوں اور جاننے والوں کو نگل گیاہے۔ جہاں تک اپنی محبوب و مقبول حکومت کی گزشتہ سال کی کارکردگی کا تعلق ہے تو اس کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف چینلوں پر براجمان بڑے بڑے افلاطونوں کی زبان بھی اب پھسل جاتی ہے۔ حکومت کی کامیابیوں کے ضمن میں خاصی کوشش کے باوجود ان کی پٹاریوں سے جعلی اعدادو شمار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
کسی بھی حکومت کی کاردگی جانچنے کے لیے اہم ترین شعبوں یعنی معیشت، مہنگائی، گورننس، امن و امان، انصاف، احتساب، میڈیا کی آزادی، قانون کی حکمرانی، خارجہ تعلقات، تعلیم صحت، زراعت، بزنس اور صنعتی شعبے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ عالمی اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستا ن کی جی ڈی پی گروتھ خطے کے تمام ممالک سے نیچے چلی گئی ہے۔ جب کہ مہنگائی یا افراطِ زر کی شرح افغانستان میں 3.5%ہے اور پاکستان میں 14%کی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے۔
حکومت کے حامی اینکرز یا رپورٹر بازاروں اور مارکیٹوں کے دوروں میں کبھی کوئی ایسی خاتون یا مرد تلاش نہیں کر سکے جو قیمتوں سے مطمئن ہو، جو مہنگائی کا رونا نہ رو رہا ہو اور حکمرانوں کو برابھلا نہ کہہ رہا ہو۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ سال حکومت عوام کے دامن میں خوشیوں یا امیدوں کی کوئی کرن نہیں ڈال سکی۔
یوں لگتا ہے حکمران، عوام کو اذیت پہنچاکر لذت محسوس کرتے ہیں، اسی لیے خان صاحب نے 2020 کی آخری رات بھی خالی نہیں جانے دی اور31دسمبر کو بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھا کر مہنگائی اور مصائب سے چُور چُور عوام کو ایک اور زخم لگانا ضروری سمجھا ہے۔
ملک میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے اوپر چلی گئی ہے، غربت کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ہمارے ہاں سیاسی عدم اِستحکام میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ کنسٹرکشن کے شعبے میں ایمنسٹی کی معیاد میں ایک سال کا اضافہ اچھا اقدام ہے مگر اس سے صرف بڑے بڑے بِلڈرز مستفیض ہو رہے ہیں، جب کہ تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہونے سے عام آدمی کے لیے پختہ مکان بنانا نا ممکن ہوگیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان صاحب نے مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ گورننس میں مایوس کیا ہے۔ بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی حسنِ ظن تھا کہ وہ پنجاب میں حکومت بننے کے بعد لاہور جاکر میٹنگ کریں گے جس میں ایک طرف وزیرِ اعلیٰ اور کابینہ کے ممبران اور دوسری جانب سرکاری افسران بیٹھے ہوں گے۔ پرائم منسٹر اپنی سیاسی ٹیم سے کہیں گے کہ " میں نے چُن کر بہترین شہرت کے افسرتعینات کیے ہیں، جس نے نے ان کے کام میں مداخلت کی، میں اس کے خلاف کارروائی کروں گا"۔ مگر یہ خواب کبھی حقیقت نہ بن سکا۔
مجھے یاد ہے جب ان کی حکومت بننے کے فوراً بعد میں استعفیٰ دینے کے لیے ان سے ملاتھا تو انھوں نے مجھ سے پہلی بات یہ کہی تھی کہ "پنجاب میں آئی جی لگانے کے لیے مجھے کسی اچھے افسر کا نام دیں "وہ تو اچھا ہوا میں نے کوئی نام تجویز نہیں کیا۔ کیونکہ بہت جلد ان کی پسندو نا پسند کا اندازہ ہوگیا اور یہ واضح ہوگیا تھاکہ انھیں افسروں میں سے باکردار نہیں وفادار چاہیے۔ بد قسمتی سے آج اعلیٰ عہدوں کے لیے کردار، معیار نہیں رہا اور ایمانداری کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
وزیر اعظم نے گزشتہ سال پولیس اور انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرنے کا نام تک نہیں لیا۔ ملک کے اہم ترین عہدوں پر تعینات کرتے وقت افسروں کی ایمانداری، اعلیٰ کردار، اصول پسندی اور پیشہ ورانہ اہلیت کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ جب بھی مشیرانِ خصوصی نے کسی پولیس افسرکو وزیراعظم کے پاس لے جاکر کہا کہ "جناب یہ ہے ہمارے کام کا بندہ، جو کہتا ہے کہ مجھے موقع دیں میں آپکے سیاسی مخالفوں کو تہس نہس کردونگا" تو وزیراعظم صاحب نے متعلقہ افسر کی "شہرت"جاننے کے باوجود تعیناتی کا حکم دے دیا۔ کاش انھیں کوئی یہ سمجھا سکتا کہ کوئی سرکاری اہلکار سیاسی قوت کو ختم نہیں کر سکتا۔
چونکہ انھیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے (اور نہ ہی ہوسکتے ہیں) اس لیے چند مہینوں بعد ہی افسر تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ ضرورت پولیس افسر تبدیل کرنے کی نہیں، ضرورت وزیراعظم کی سوچ، ترجیحات اور ہدف تبدیل کرنے کی ہے۔
ملک کے چیف ایگزیکٹو کا ہدف سیاسی مخالفین کو کچلنا نہیں بلکہ جرائم کاخاتمہ ہونا چاہیے اور یہ ہدف صرف بے داغ، نڈر اور غیرجانبدار پولیس افسرہی حاصل کر سکتے ہیں۔ سول سرونٹس اور سینئر صحافی علی الاعلان کہتے ہیں کہ پنجاب میں جس طرح کی سیاسی مداخلت اِس وقت ہو رہی ہے، شہباز شریف کے دَور میں اِس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف لاہور میں رپورٹ ہونے والے جرائم میں 25%اضافہ ہوا ہے۔ پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں میں کرپشن عروج پر ہے، کسی حرام خورکوکسی کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔ پنجاب میں پہلی بار پبلک سروس کمیشن پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور چیئرمین کے خلاف جلوس نکلے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے کرپشن کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے اسے صرف سیاسی نعرے کے طور پراستعمال کیا ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں اینکر اُن سے بار بار پوچھتا رہا کہ کرپشن میں ملوث ہونے کے باوجود آپ اپنے قریبی ساتھیوں جہانگیرترین اور عامر کیانی وغیرہ کا تحفظ اور دفاع کرتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کرتے، تو خان صاحب جواب دینے میں بے بس نظر آئے اور" این آر او نہیں دونگا" کا راگ دہراتے رہے۔ اسی انٹرویو میں یوٹرن کے جواز کے طور پر صلح حدیبیہ کا نام لیا گیا، یہ حوالہ نامناسب، غلط اور بے جواز تھا۔
احتساب ایک اسلامی تصور ہے جو انصاف کی طرح بے لاگ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے مگر احتساب کو انتقام میں بدل کر اس کی روح کو ختم کردیا گیاہے۔ گزشتہ سال حکومت کے سیاسی مخالفین کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایااور انھیں گرفتار کرایا۔ جب کہ راناثناء اﷲ کے خلاف منشیات کا جھوٹا کیس بنا کر بدترین مثال قائم کی۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ہوں یا سینئر وکلاء، سینئر صحافی ہوں یا دانشور، کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کونیب پر اعتماد ہو، جو نیب کے مقدمات کو منصفانہ سمجھتا ہویا جو نیب کی کارروائیوں کو Politically motivatedنہ سمجھتا ہو۔
رواداری سیاست کا حُسن ہوتا ہے۔ موجود حکومت نے اس حسن کا خاتمہ کردیا، جمہوری اقدار روندڈالیں، زبان درازی کی حوصلہ افزائی کی اور چمنِ سیاست میں انتقام اور دشمنی کی آگ بھڑکادی ہے۔ اِسوقت ملک کے طول وعرض میں قاتل بے لگام ہیں اور مظلوم جھولیاں اٹھاکرآسمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا کے لیے حالات مشکل کردیا گیا ہے، قومی اداروں کو متنازعہ بنا نے کی کوشش کی گئی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کو غیرجانبداری کے جوہر سے محروم کر دیا گیا ہے، قانون ساز اسمبلی پر غیرفعال پڑی ہے، اپوزیشن سڑکوں پر ہے، آئین لرز رہا ہے اور جمہوریت سہمی ہوئی ہے۔
پچھلے سال زراعت کی ترقی کے لیے بھی کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایاگیا۔ کھاد، بیج اور ڈیزل تینوں بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ ہوا، جس کے باعث اجناس کی قیمتوں سے cost of production کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ٹریڈرز حکومتی پالیسیوں کے خلاف مسلسل ہڑتالیں اور احتجاج کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال نہ کوئی نئی صنعت لگی ہے اور نہ ہی صنعتی شعبے میں بیرونی سرمایہ کاروں نے ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ازکارِ رفتہ اور گلے سڑے نظامِ انصاف (Criminal Justice System)کو بدلنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات تو دور کی بات ہے، کبھی سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں گیا۔ خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم تمام قابلِ اعتماد دوستوں کو کھوکر اسوقت عالمی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں، اسمیں کوئی شک نہیں کہ کچھ وزیروں اور مشیروں نے سی پیک کے خلاف پراپیگنڈا کیا جس پر چین جیسا دوست بھی موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ تعلقات سرد مہری کی پست ترین سطح تک جاپہنچے ہیں، اوراس کمزوری کے باعث بھارت کو ہمارے ان برادرانہ ممالک کے ساتھ تعلقّات مضبوط بنانے کا موقع ملا ہے۔ پچھلی حکومت میں پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیں مفت ملتی تھیں۔
موجودہ حکومت نے وہ ریلیف بھی ختم کر دیا ہے۔ پچھلے سال کوئی نیا اسپتال بننے میں نہیں آیا اور محکمہ صحت میں کوئی قابلِ ذکر بہتری نظر نہیں آئی۔ ترقیاتی کام ہوتے نظر نہیں آتے، پچھلے سال پورے ملک میں کوئی Mega Project شروع نہیں ہوا۔ شہباز شریف نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں بھی سڑکوں کا جال پھیلا دیا تھا۔ اب وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، نئی سڑک تو کیا بنے گی، پرانی سڑکوں کی مرمت تک نہیں ہورہی۔ عمران خان صاحب ریاستِ مدینہ کا نام تو لیتے ہیں مگر ان کے پاس اس کا نہ کوئی واضح تصور ہے نہ اخلاص ہے اور نہ ارادہ۔ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے لیے حکومت نے کوئی initiative نہیں لیا۔ اس لیے نوجوانوں میں بد زبانی، بداخلاقی، منشایات اور جرائم کیطرف رجحان بڑھاہے۔
پچھلی حکومت ایک سال میں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے لیے انتہائی مفید اور مفت ٹریننگ دیتی تھی۔ موجودہ حکومت نے پچھلے سال کوئی ایسی ٹریننگ فراہم نہیں کی۔
اورپھریہ کہ حکومت نے اپنی آئینی ذمے داری سے روگردانی کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو بحال اور فعال کرنے کے بجائے ان کا خاتمہ کیاہے۔ ان تمام حقائق کے پیشِ نظر قارئین خود فیصلہ کریں کہ حکومتی کارکردگی، very good، good، averageیا poor کہلانے کی حقدار ہے۔