شیرازشعروادب کے علاوہ اپنے دلفریب باغات کے لیے بھی معروف ہے۔ شہرکا سب سے بڑا گلستان باغِ ارم کہلاتا ہے، جس کا مطلب ہے جنّت کا باغ۔ یہ باغ سلجوق دور کے حکمران سنجر نے بنوایا تھا۔ کئی مربّعوں پر مشتمل اس باغ میں سیکڑوں اقسام کے درخت، پودے اور پھول لگائے گئے ہیں، باغ میں ہر وقت سیاّحوں کا جمگھّٹا لگا رہتا ہے۔
اس کے عین درمیان میں عالیشان محل ہے جو شیراز کے حکمرانوں کے زیرِ استعمال رہا ہے۔ ترتیب سے کٹی ہوئی گھاس کے تختوں، دیدہ زیب روشوں اور رنگارنگ پھولوں نے منظر کو انتہائی دلکش بنا دیاتھا۔ آج کل باغِ ارم شیراز یونیورسٹی کے انتظام وانصرام میں ہے جو پودوں کو تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔
باغِ ارم میں پھولوں کے درمیان کچھ گلبدن بھی تھے جو خراماں خراماں چہل قدمی کر رہے تھے اور ماحول کومزید سحر انگیز بنا رہے تھے۔ ایک سے ہیلو ہائے کے بعد پوچھا "شیخ سعدیؒ اور خواجہ حافظؔ کے مزارات سے ہو آئے ہیں باغِ ارم بھی دیکھ لیا، آپ سے بھی ملاقات ہوگئی، اب کون سی جگہ ہے دیکھنے والی؟" ایرانی حسینہ نے فوراً کہا " آپ نے شیراز آکر بازار ِ وکیل نہ دیکھا تو کیا دیکھا؟"
گرم موسم میں دھوپ سے بچاؤ کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، نوجوان سعد تو تہران سے ہی فَلیٹ ہیٹ پہن کر نکلا تھا، ہم نے سوچاکہ بازارِ وکیل توجاناہی ہے، وہیں سے ہَیٹ بھی خرید لیں گے۔ وکیل بازارکا نام سن کر ذہن میں آیا کہ لگتا ہے مذکورہ بازار کا مقدمہ کسی عدالت میں زیرِسماعت رہا ہو گا۔ اور ہماری طرح کئی دہائیوں تک مقدمہ چلنے کے بعد اصل مدعی تھک ہار کر اپنی ساری پونجی فیسوں اورکیسوں میں گنوا کر دستبردار ہو گیا ہوگا اور بالآخر بازار کی ملکیّت مقدمّے کے وکیل صاحب نے اپنے نام کروالی ہوگی۔
یہاں کے گرم موسم کے پیشِ نظر شیراز کے حکمران کریم خان زَند نے عوام کی سہولت کے لیے بازار کھلارکھنے کے بجائے اسے چھت سے ڈھانک دینے کا فیصلہ کیا لہٰذا بازارِ وکیل پر چھت تعمیر کرا دی گئی۔ جسکی وجہ سے لوگ گرمیوں میں بھی بازار میں بڑی آسانی سے چل پھر سکتے ہیں، وکیل بازارشیراز کا سب سے بڑا بازار ہے جس میں خوبصورت صحن، کاروان سرائے، حمام اور دکانیں ہیں جو زَند فن تعمیرکا خوبصورت نمونہ ہیں، بازار کے فرش اور چھتوں پر اس نوعیت کی اینٹیں لگائی گئی ہیں کہ یہ بازار گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رہے۔ وکیل بازار سے لوگ بڑی تعداد میں ایرانی قالین مصالہ جات، ہَینڈی کرافٹس اور کپڑے خریدنے آتے ہیں، اُس روز بھی لوگوں کی خاصی بِھیڑ نظر آئی۔
ہم نے بھی یہاں سے ہَیٹ اور چند سوونیئر خریدے، بازار میں گھومنے پھرنے کے ساتھ ساتھ دکانداروں سے حالاتِ حاضرہ پر بھی بات چیت ہوتی رہی۔ ہماری طرح ایران میں بھی عوام کی اکثریت مہنگائی سے تنگ اور حکومت سے نالاں نظرآئی۔ بازارِوکیل سے ملحق کریم خان مسجد کا بھی چکر لگایا۔ مسلمان حکمرانوں نے جہاں اپنے محلات بڑے عالیشان تعمیر کرائے ہیں، وہاں مساجد بھی بڑی پرشکوہ بنوائی ہیں۔ کافی دیرچلنے پھرنے کے بعد چونکہ تھکاوٹ اور پیاس کی شدت بڑھ گئی تھی لہٰذا ہم نئے خرید کردہ ہیٹ پہن کر قریبی کیفے میں جاکر بیٹھ گئے۔
اور مِلک شیک کا آرڈر دے دیا، کیفے کاماحول بڑا ہی روح پرورتھا صاف پانی کے چھوٹے سے تالاب کے دونوں جانب سبزے پر کُرسیاں بچھائی گئی تھیں، عَین درمیان میںپانی کا فَواّرہ چل رہا تھا۔ جسکی ہلکی ہلکی پھوار کی خنکی ایک طربناک احساس پیدا کررہی تھی، سلیقے سے کٹی ہوئی گھاس کے تختے اور فوارے سے نکلتے ہوئے پانی اور اُس سے پیدا ہونے والی خُنکی نے پورے ماحول کو انتہائی دلفریب بنا دیا تھا۔ صفدر کے منہ سے بار بار نکل رہا تھاThis is the real Sheraz (یہ ہے اصل شیراز) واقعی اس جگہ بیٹھ کر یہ احساس ہو رہا تھا ہم شیراز میں ہیں۔
وہاں سے اُٹھنے کو دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا مگر ابھی کئی مقامات دیکھنے والے باقی تھے لہٰذاصفدر نے تجویز دی کہ کچھ دیر کے لیے ہوٹل چلتے ہیں لنچ اور آرام کے بعدتازہ دم ہوکر پانچ بجے نکلیں گے (یادرہے کہ تہران میں آجکل رات نوبجے تک سورج غروب نہیں ہوتا)۔ تجویز بھی معقول تھی اور ہمارا تعلق کسی مخالف پارٹی سے تو تھا نہیں کہ ہم اسے لازمی رد کردیتے لہٰذاٹیکسی پکڑی اور ڈرائیور کو مہاریں ہوٹل کی جانب موڑنے کی ہدایت دے دی۔ راستے میں ایک پھل فروش کی دکان پر نظر پڑی تو تربوز پوری شان سے براجمان نظر آئے، آم اگر پھلوں کا بادشاہ ہے تو تربوز بھی وزیر سے کم نہیں اور وہ بھی کسی ایسے وزیر سے جسکا عہدہ بار بار نہ چھِن جاتا ہو۔
لہٰذا پھلوں کا وزیر دیکھ کر رہا نہ گیا۔ ٹیکسی رکوائی اور دیگر پھلوں کے علاوہ احتیاطاً دس کلو کا ایک عدد تربوزبھی لے ہی لیا۔ جسے جاتے ہی طعام گاہ کے انچارج سے کہہ کر فرج میں رکھوادیا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد طعام گاہ میں بریانی کا بھرپور لنچ کیا اور اس کے بعد لال سرخ اور میٹھے تربوز سے لطف اندوز ہوتے رہے، اور ارضِ وطن میں موجود کئی تربوز دشمنوں کویاد کرتے رہے۔ صفدر مجھے کہنے لگا "آپ شائد جمہوریّت دشمنوں کو تو برداشت کرلیںمگر تربوز دشمنوں کو برداشت نہیں کر سکتے" میں نے جواب میں قہقہہ لگایا مگر توجّہ ٹارگٹ پر ہی رکھی۔
ہوٹل میں کچھ دیرآرام کرنے کے بعد شاور لینے سے ساری تھکاوٹ دور ہوگئی تھی اور ہم تازہ دم ہو کر ٹی شرٹیں پہن کر اور سر پر فلیٹ ہیٹ سجاکر نکل کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے ہم شیراز کے سب سے بڑے اسکوائر خیابانِ زَند پہنچے، ایران کے صفوی اور زَند حکمران شہر تعمیر کرتے وقت وسیع وعریض اسکوائرز ضرور بناتے تھے، اس سے شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور شہریوں کو بھی گھومنے پھرنے کی کھلی سیرگاہ میّسر آ جاتی ہے۔ زَند بلیوارڈ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ چہل قدمی کررہے تھے یا سائیڈوں پر بنے کَیفوں میں بیٹھ کراشیائے خورو نوش سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں سے نکل کر ہم مسجد ناصرالملک پہنچے مسجد اپنی وسعت، شکوہ اور حسن وجمال کے لحاظ سے قابلِ دید ہے۔
جوشخص انگریزی کی تھوڑی بہت شُد بُد رکھتا تھا اُس سے ہم گپ شپ ضرور کرتے، ملکی حالات بھی پوچھتے اور پابندیوں اور امریکا کی دھمکیوں کے بارے میں بھی ان کا ردِّعمل جاننے کی کوشش کرتے۔ پابندیوں نے ایرانی معیشت کی چولیں ہلادی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت ایران اب کسی بھی ملک کو تیل بیچنے کا معاہدہ نہیں کر سکتا، اس لیے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جب کہ لوگوں کی تنخواہوں اور اجرت میںاضافہ نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور عدم اِطمینان بڑھاہے جس کا اظہار وہ کھل کر کرتے ہیں جب کہ چندسال پہلے تک ایسا نہیں تھا۔
دوسری طرف امریکی دھمکیوں سے ایرانی بالکل خوفزدہ نہیں ہوئے، وہ ایک بہادر قوم ہیں جو کبھی کسی غیر مسلم قوم کے غلام نہیں رہے۔ انھیں اپنی تہذیب اور اقدار پر فخر ہے۔
اس بار یہ بات بھی واضح طور پر نظر آئی کہ خواتین کے لباس کے معاملے میں حکومت نے مغرب کے دباؤ کی وجہ سے پابندیاں نرم کر دی ہیں۔ پہلے گھر سے باہر آنے والی خواتین کے لیے عبایا پہننا لازمی تھا، اب زیادہ لڑکیاں مغربی طرز کی ٹائیٹ جینز میں نظر آتی ہیں جسکے اوپر بغیر بٹنوں کے نام نہاد سا عبایا ہوتا ہے، موجودہ حکومت نے کئی دھائیوں تک مغربی تہذیب کی یلغار کی مزاحمت کی ہے مگرلگتا ہے کہ اس کے آگے بند باندھنا اب ان کے بس میں نہیں رہا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کی علمی سطح بلند کی جائے اُن کا اپنی تہذیب اور اقدار کے ساتھ رشتہ مضبوط کیا جائے اور یورپی کلچر کے بارے میں ان کا احساسِ کمتری دور کیا جائے۔ مغربی یورپ اور امریکا دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں اپنی تہذیب اور اپنا کلچر رائج کر نے کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔ جو ملک مزاحمت کرتا ہے اُس پرمختلف قسم کی Sanctions لگا دی جاتی ہیں۔
مسجد ناصرالملک دیکھنے کے بعد ہم پارس میوزیم کا چکر لگاکر شاہِ چراغ پہنچ گئے۔ شاہِ چراغ وہ جگہ ہے جہاں بنوامیّہ کے دور میں امام موسیٰ کاظمؒ کے شہید کیے جانے والے دوبیٹوں (اور امام علی الرضاؒ کے بھائیوں )احمد اور محمد کے مزارات ہیں۔ جب کبھی آقائے دوجہاںنبی کریمﷺ کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ ظلم کی داستان پڑھتا ہوں تو روح تک لرز جاتی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کے خاندان سے کسی شخص کا دور کا تعلّق بھی نکل آئے تو مسلمان اسے پلکوں پر بٹھالیتے ہیںاور اس پر اپنی ساری عقیدتیں اور محبتیں نچھاور کر دیتے ہیں، مگر کچھ ایسے شیطان اور درندے بھی تھے، جوان کی جان کے درپے رہے اور جنھوں نے ان کے مقدس خون سے ہاتھ رنگے، اور حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ جو لوگ ایسی درندگی اور شیطانیت کے مرتکب ہوئے وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے۔
شاہِ چراغ کے احاطے میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے ہم نے مغرب کی نماز وہیں ادا کی، اس کے بعد دونوں شہداء کی قبروں پر دعاکی۔ مسجد میں بھی اور مزارات پر بھی خواتین و حضرات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ شاہِ چراغ کے احاطے میں ہی رات خاصی بیت گئی تھی، اس لیے وہاں سے فارغ ہو کر ہم ہوٹل پہنچے اور فریج میں رکھوائے ہوئے پھلوں سے کا م ودھن کی آزمائش میں جُت گئے دوسرے روز ہمیں اصفہان روانہ ہونا تھا اس لیے اِس پر اتفاق ہو اکہ فوراً کمروں میں جاکر سویا جائے اور صبح جلدی اُٹھاجائے۔
میں چونکہ زیادہ سے زیادہ ایران دیکھنے کا خواہشمند تھا اس لیے سڑک کے ذریعے اصفہان جانے کا پروگرام بنایا۔ دوسرے روز ہم صبح جلدی اٹھ گئے، اس لیے آرام سے یعنی ڈٹ کر ناشتہ کیا، تربوزسے بھی انصاف ہوا، انڈوں کا بھی حق اداکیا گیا جُوسز کوبھی نظرانداز نہ کیا گیا اور شہد اور مکھن پر بھی بھرپور فوکس رہا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے ٹیکسی منگوائی اور لگژری بسوں کے اڈّے کی جانب روانہ ہوگئے۔ (جاری ہے)