عزیزم صفدر نے ہمیں دکھا نے کے لیے تہران میں پانچ جگہوں کا انتخاب کر رکھا تھا اور واقعی اُن پانچوں مقامات کی سیاحتی اہمیّت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے قریبی دوست اورقائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود زاہد صاحب بھی چونکہ تہران میں ہی تھے۔ اس لیے انھیں بھی تہران کے اہم مقامات دیکھنے کے لیے ساتھ چلنے کی دعوت دی تو وہ بھی تیّار ہو گئے۔ ہم تینوں سب سے پہلے امریکن ایمبیسی کی اُس بلڈنگ میں پہنچے جس پر انقلاب کے فوراً بعد ایرانی طلباء نے قبضہ کر لیا تھا، اب اُس عمارت پر " امریکن جاسوسی اڈّہ"کا بورڈ لگا کر اُسے عوام کے لیے کھول دیا گیاہے۔
امریکا نے اس عمارت میں اپنے سفارتکاروں اور دیگر اہلکار روں کی بازیابی کے لیے ایک دو مرتبہ کمانڈوز کے ذریعے آپریشن کا پروگرام بھی بنایا مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ نوجوان ایرانی گائیڈ ہمیں پورے جوش و جذبے کے ساتھ بتاتا رہا کہ " یہ کمر ہ جاسوسی کے لیے استعمال ہوتا تھا اور یہ خفیہ دستاویز ات اُس کمرے سے برآمد ہوئیں"۔ اب یہ عمار ت سرائے عبرت کا نظارہ پیش کر تی ہے۔
پچھلی بار انقلابِ ایران کے بانی اما م خمینی ؒ کے مزار پر نہ جا سکے تھے لہٰذا اس بار وہاںدعا کے لیے ضرور جا نا تھا، مزارِ خمینی کی عمارت اتنی وسیع وعریض اور اسقدر پرُ شکوہ ہے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتاہے، شان وشوکت کے اعتبار سے نجف و کربلا کے مزاراتِ مقدّس کے علاوہ اور کوئی مزار اس کا مقابلہ نہیںکر سکتا۔ مزارِ خمینی کے وسیع کمپلیکس سے نکلے تو ایک چھوٹے سے ریستوران پر کافی پینے بیٹھ گئے، وہیں کچھ ایرانی زائرین سے بھی گپ شپ ہونے لگی تو وہ امام خمینی ؒصاحب جیسے درویش صفت انسان کی قبر اسقدر شاہانہ انداز میں تعمیر کرنے اور اُس پر اس قدر خطیر رقم خرچ کرنے پر تحفّظات کا اظہار کرنے لگے۔
ان کے بقول ایران کے دانشور اور عوام دونوں اتنی مہنگی قبر تعمیر کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہاں سے نکل کر ہم سیدھے نیاوران کے اُس محّلے میں وہ مکان دیکھنے گئے جہاں امام خمینی ؒ پورے ایران کے حاکمِ مطلق بننے کے بعد بھی قیام پذیر رہے۔ دلو ںکا شہنشاہ اپنی وفات تک جس مکان میں قیام پذیر رہا وہ پانچ سات مرلے کا دو کمروں پر مشتمل معمولی سا مکا ن ہے۔ مکان دیکھ کر پروفیسر مسعود کہنے لگے " ریاست ِ مدینہ تو امام خمینی ؒ جیسے فقیر منش درویش ہی قائم کر سکتے تھے، کئی سو کنا ل کے محّلا ت میں رہنے والے تو صرف باتیں ہی کر سکتے ہیں" اُس مردِ درویش، کہ پورا ایران جس کے قدموں میں تھا، کی رہائش گاہ دیکھی تو قرونِ اُولیٰ کے مسلمان حکمران یاد آ گئے، ایسے ہی مردِ فقیر کے بارے میں اقبال ؒ کہہ گئے ہیں،
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولی
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسدُ اللّہی
بانی انقلاب کا حیران کُن حد تک سادہ طرزِ زندگی دیکھ کر ہمیں بھی محسوس ہوا کہ زندہ امام کی زندگی تو بوترابی کی مظہر تھی اس میں بُوئے اسداللّٰہی تھی مگر انتقا ل کے بعد اس کے مزار کو شاہانہ رنگ کیوں دے دیا گیا ہے؟ اس سے اُس مردِ درویش کی روح بھی مضطرب ہو گی۔ اس مکان کے ساتھ والے گھر کو میوزیم بنا دیا گیا ہے جس میں امامِ انقلاب کی بڑی نایاب تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ دلوں کے شہنشاہ کے اس معمولی سے مکان کے قریب ہی کئی سو ایکڑوں پر مشتمل وہ محل ہے جس میں دنیاوی شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی اپنے کنبے کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ شاہ ایران کا محل دیکھا تو گلوکار محمد رفیع کا گا یا ہوا مشہور گیت یاد آ گیا "محل اداس اور گلیاںسونی۔ چُپ چُپ ہیں دیواریں۔ شاہی محل بھی اداس اور سُونا سُونا تھا۔ محل کیا بس عبرت گاہ تھی۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سیّد الشہداء حضرت امام حسینؓ کی ایک زوجہ محترمہ بی بی شہر بانو (جو ایرانی بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی اور خسرو ثانی کی پوتی تھیں) سانحہء کر بلا کے بعد ایران آ گئی تھیں، وفات کے بعد وہ تہران کے مضافات میں شاہراہِ رے پر کوہِ تبرک کے دامن میں دفن ہوئیں۔ حال ہی میں ان کا مزار تعمیر کرایا گیاہے۔ ہم جب شام کے وقت دعا کے لیے بی بی صاحبہ کے مزار پر پہنچے تو کافی تعداد میں خواتین وحضرات وہاں موجود تھے۔ اس مزار پر دعا کے بعد اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہمارا تہران کا دورہ مکمل ہو گیا، اور اب ہم چاہتے تھے کہ راتوں رات اُڑ کر شیراز پہنچ جائیں۔
صدیوں تک شیراز کی وجہ شہرت شاعر اور شراب رہی ہے۔ عالمی شہرت کے حامل دو انتہائی معروف شعراء شیخ سعدؔیؒـ" اور حافظؔ کا جائے مسکن شیراز ہی تھا۔ ان دونوں عظیم المرتبت شاعروں کے مقبرے بھی شیراز میں ہی ہیں۔
ہم جس خطّے میں رہتے ہیں یہاں ایک طویل عرصے تک سرکا ری زبان فارسی رہی ہے۔ شیخ سعدیؒ کا نام آج بھی پڑھے لکھے گھرانوں میں بڑا مانوس اور معروف ہے۔ والدہ صاحبہ بتاتی تھیں کہ شیخ سعدیؒ کی دو کتابیں" گلستان، اور" بوستان، تعلیمی کورس میں شامل تھیں جو انھوں نے آٹھویں جماعت میں پڑھ لی تھیں۔ افسوس کہ نئی نسل نہ فارسی کی ان کتابوں سے واقف ہے۔ اور نہ ان کے خالق سے۔ اس لیے شیخ سعدیؒ اور حافظؔ کا مختصر تعارف ضروری ہے۔
شیخ سعدیؒ کا اصل نام شرف الدین لقب مصلح الدین اور تخلص سعدؔی تھا۔ آپ 1210میں شیراز میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ایک نیک اور دیندار شخص تھے، والد نے ان کی اخلاقی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اسی لیے بچپن سے ہی ان میں عبادت اور تلاوتِ قرآن پاک کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ وہ کمسنی میں ہی یتیم ہو گئے، پھر ان کی والدہ نے ان کی تربیت کی۔ شیراز اُس زمانے میں ایک علمی مرکز تھا، شیخ سعدؔیؒ نے ابتدائی تعلیم اسی مرکز سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ (جس کی حیثیت اُس وقت موجودہ دور کی آکسفورڈ یا ہارورڈ یونیوسٹی سے کم نہ تھی)سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے وقت کے جلیل القدر علماء علامہ ابوالفرج ابن الجوزیؒ اور شیخ شہاب الدین سہروردی سے بھی کسبِ فیض کیا۔
شیخ سعدیؒ نے تیس سال تحصیلِ علم میں صرف کیے، پھر تیس برس مختلف ممالک کی سیاحت کی اور بقیہ عمر وعظ و نصیحت اور یادِ الٰہی میں گزار دی۔ انھوں نے چودہ حج کیے جن میں دس پاپیادہ تھے۔ اس دوران وہ ہندوستان بھی آئے۔ شیخ درباری شاعر کبھی نہ بنے اس لیے انھیں سرکا ر دربار میں تو پذیرائی نہ ملی مگر وہ علمی حلقوں اور عوام میں بہت مقبول تھے۔ ان کی ساری تصانیف خصوصاً گلستان اور بوستان اپنی فصاحت و بلاغت، دلربائی، اور حکمت و معرفت میں ایسی ہیں کہ کسی اور زبان میں بھی ان کی نظیر نہیں ملتی۔ دنیا کی بیشمار زبانوں میں ان کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
شیخ سعدیؒ کی دانش و حکمت کا ایک نمونہ ملاخطہ فرمائیں۔
شیخ سعدیؒ سے کسی نے دوست اور بھائی کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا۔ "اُن میں وہی فرق ہے جو ہیرے اور سونے میں ہوتا ہے۔ دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی مانند ہے۔ "
وہ شخص بہت حیران ہوا اور کہنے لگا۔ " حضرت! بھائی جو حقیقی اور سگارشتہ ہے اسے آپ کم قیمت چیز یعنی سونے سے منسوب کر رہے ہیں۔ اس میں کیا حکمت ہے؟"
شیخ سعدیؒ نے فرمایا۔ " سونا اگرچہ کم قیمت ہے لیکن اگر ٹوٹ جائے تو اسے پگھلا کر اصل شکل دی جا سکتی ہے جب کہ ہیرا ٹوٹ جائے تو اسے اصل شکل نہیں دی جا سکتی۔ بھائیوں میں اگر وقتی چپقلش ہو جائے تو وہ دور ہو جاتی ہے لیکن اگر دوستی کے رشتے میں دراڑ آ جائے تو اسے دور نہیں کیا جا سکتا۔ " ایک اور جگہ فرماتے ہیں " اﷲ کی نعمتیں کھاتے کھاتے دانت ٹوٹ چکے ہیں مگر زبان پھر بھی خالق کا گلہ کرنے سے باز نہیں آتی"۔ (جاری ہے)
نوٹ: احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی قابل اعتراض حالت میں فلم بنائی گئی تھی جو وائرل ہو چکی ہے اور کروڑوں لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اس ویڈیو کو خود ارشد ملک نے بھی جعلی یا جھوٹا قرار نہیں دیا یعنی اسے درست تسلیم کیا ہے، دوسرے لفظوں میں اس کا ایک ایسے فعل کا مرتکب ہوناثابت شدہ ہے جو ہمارے ملک کے قوانین کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سنگین جرم کا مرتکب ہونے کے باوجود ارشد ملک کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا، اور اسے ابھی تک نوکری سے برخاست کیوں نہیں کیا گیا؟ باخبر حلقے اس کی "شہرت" کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں، انکوائری ہونی چاہیے کہ ایسی شہرت کے حامل مَنصبِ قضا پر کیوں تعینات ہو جاتے ہیں؟
یہ بات حیران کن ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی بلکہ اس کی درخواست پر ایک ایسے شخص کو گرفتار کر کے تشدّد کا نشانہ بنا یا گیا ہے جس پر ملزم نے الزام لگایا ہے کہ اُس نے جرم کرتے ہوئے میری فلم بنائی تھی، یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی کار چور درخواست دے دے کہ فلاں دکاندار نے دکان پر کیمرہ نصب کیا ہوا تھا جس سے اس نے کار چوری کرتے ہوئے میر ی فلم بنا لی ہے، اور اس کے بعد کار چور کے بجائے دکاندار کو پکڑ لیا جائے۔ یا کسی ڈاکو کی درخواست پر سیف سٹی کے انچارج پولیس افسر کو گرفتار کر لیا جائے اور اسے کہا جائے کہ تمہارے لگائے گئے کیمروں سے ڈاکو صاحب کو مجرمانہ فعل کرتے ہوئے detect کر لیا گیا ہے لہٰذا تم مجرم ہو۔ تم نے ڈاکو صاحب کی جرم کرتے ہوئے فلم کیوں بنائی ہے!
یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کا نام اسلامی جمہوریہء پاکستان ہے، کیا ایسی ناانصافی کے ہوتے ہوئے معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں؟