ہم نے جس خطے کو اپنی جائے سکونت بنانے کاشرف بخشا ہے اِس میں لوگوں کے آپس میں بہت سے اختلاف ہیں، مذہبی، مسلکی اور سیاسی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ شدید رنجشیں ہیں، لیکن ایک معاملے پر سب کا اتفاق ہے اور وہی اس خطے کے باسیوں کاسب سے بڑا نظریہّ ہے اور وہ ہے چڑھتے سورج کی پوجا یعنی صاحبِ اقتدار کی خوشامد۔ چڑ ھے ہوئے سورج یاصاحبِ اقتدار کی پر ستش یا اُس سے عقیدت اور محبّت پر ہمار ا پختہ ایمان ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے پورے معاشرے کا یہی چلن ہے اور یہی عقیدہ۔
دیہاتوں اور شہروں کی بے شمار مثالیں قارئین نے سنی ہوں گی۔ کسی علاقے میں تحصیلدار کی بھینس کے مرنے پر دیہاتوں کی مساجد میں اعلان کیے گئے کہ "جناب تحصیلدار صاحب کی’ بھَینس شریف رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئی ہیں اُنکی رسمِ قل کل شام چاربجے ٹھیکیدار حشمت علی کی حویلی میں ادا کی جائے گی۔
آپ سب شامل ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔" ٹھیکیدار کی حویلی میں ثوابِ دارین کے خواہشمند وں کا جَّمِ غفیر تھا، کچھ عرصے بعد خود تحصیلدار صاحب قضائے الٰہی سے انتقال فرماگئے تو جنازے میں چند قریبی رشتے داروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ علاقے کے تمام معززّین واکابرین نئے تحصیلدار کو مبارک باد دینے چلے گئے تھے۔
پولیس اور دیگر سول سروسز کے بے تکلف دوستوں سے کئی واقعات سن چکاہوں کہ کس طرح جُونیئر افسران اپنے Bossکے لیے بیرونِ ملک سے لائے ہوئے گفٹ لے کر روانہ ہوئے، راستے میں جب Boss کے تبادلے کی اطلاع ملی تو انھوں نے یوٹرن لینے میں ذرا دیرنہ کی اورنئے Boss کی پیشوائی کے لیے پہنچ گئے۔ اور یہ تو بہت سے افسروں نے بتایا ہے کہ ساؤتھ پنجاب میں تعیّناتی کے دوران اعلیٰ کوالٹی کے آموں کی اتنی پیٹیاں آیا کرتی تھیں کہ ڈی آئی جی ہاؤس، ڈی پی او ہاؤس یا کمشنر ہاؤس کے برآمدے بھر جاتے تھے اور فروٹ منڈی کا نقشہ پیش کرتے تھے۔ مگر وہاں سے ٹرانسفر کے فورًا بعد کریٹوں کی تعداد اور آموں کا معیار پنجاب میں گورننس کے معیار کی طرح نیچے آگیا۔
سرگودھا میں تعیّنات رہنے والے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تعیّناتی کے دوران وہاں کے زمیندار سردیوں میں نہایت اعلیٰ قسم کے کنّو بھیجا کرتے تھے، مگر تبادلے کے بعد جوکنّو تحفتاً آتے ہیں ان میں اور بیروں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک کولیگ نے بتایا کہ "ایک دفعہ تحفے میں آنے والے کنّوجسامت میں اسقدر مَنحنی اور کمزور تھے کہ میں نے اپنے ڈرائیور (جسکا تعلق سرگودھا سے ہے) کو بلایا اور پوچھا "بھئی اتنے چھوٹے سائز کے فالج زدہ کنّو دنیا کے کس علاقے میں پائے جاتے ہیں اور یہ درختوں پر اُگتے ہیں یا بیلوں پر؟ "کہنے لگا "حضور افسر اگر شہر ی بابو ہو تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ’ سرجی کنّو زکام شکام لگنے سے چھوٹے رہ گئے ہیں،۔ مگر آپ چونکہ خود زمیندار ہیں اس لیے آپ کو سچی بات بتائے دیتا ہوں کہ اس نوعیّت کے کنّو کو کیرا کہا جاتا ہے۔ یہ وہ کنّو ہوتے ہیں جو کمزور ہونے کی وجہ سے خود بخود پودے سے گر جاتے ہیں۔ اب چونکہ زمینداربھی دنیا دار اور کھَچرے ہو گئے ہیں، لہٰذااب وہ تبدیلی زدہ افسروں کو صرف کیرا ہی بھیجتے ہیں۔
مگر دنیا داری اور مطلب پرستی کے اس دَور میں اب بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنی روایات اور اَقدار کی پاسبانی کر رہے ہیں اور جنھوں نے اب بھی اپنی خاندانی وضعداری کے چراغ جلا رکھّے ہیں۔ کچھ ایسے ہی لوگ راقم کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بڑے خلوص اور محبّت کے ساتھ آم اور کنّو کے تحائف بڑی باقاعدگی سے بھیج رہے ہیں۔
ان وضعدار لوگوں میں ایک نوابزادہ نصراللہ خان صاحب(مرحوم ومغفور)کے پوتے نواب بَیرم خان صاحب ہیں جنکے ضلع مظفر گڑھ کے قصبے خان گڑھ (نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کا آبائی قصبہ جہا ں نواب صاحب کا گھر اور زمینیں ہیں )میں آموں کے باغات ہیں۔
آج سے اکتیس سال پہلے سروس کے اوائل میں کچھ عرصے کے لیے میں مظفرگڑھ تعیّنات رہا۔ اُسوقت نوابزادہ صاحب کے صاحبزادے نثار خان مجھے ملاکرتے تھے، ایک آدھ دفعہ بیرم خان بھی ملے ہوں گے، مجھے آج تک انھوں نے کبھی کوئی کا م نہیں کہا، مگر ہر سال باقاعدگی سے آم بھجواتے ہیں، ایک بار فون پر میں انوررٹول کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر بیٹھا تو اس کے بعد سے انھوں نے ہی بھجوانا شروع کر دیے۔ تیس سالوں میں انھیں پولیس سے کوئی کام پڑا بھی ہوگا تو انھوں نے مجھے کبھی نہیں کہا، مگر ان کے خلوص اور وضعداری میں کبھی کمی نہیں آئی۔
اسی طرح خانیوال کی ایک وضعدارشخصیت ہیں سردار مظفّر حسین سیال، سالہا سال سے آموں کا تحفہ بھیج رہے ہیں، انھوں نے زندگی میں ایک ہی فرمائش کی تھی جو مجھ سے پوری نہ ہو سکی۔ جس پر مجھے شرمندگی ہے۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی اور انھوں نے مجھے شرکت کے لیے فون کیا تھا۔ میں بھی شادی میں شرکت کا پورا ارادہ رکھتا تھا مگر اچانک بیمار ی کے باعث نہ جاسکا۔ مگر انھوں نے اس کوتاہی پر بھی درگذر کیا اور اس کا گلہ تک نہ کیا۔ وہ بھی ہر سال پورے خلوص اور محبّت کے ساتھ آموں کا تحفہ بھجواتے ہیں۔
ڈیرہ اسمعٰیل خان میں تعیّناتی کے دوران جن لوگوں کے ساتھ دوستی ہوگئی ان میں ڈاکٹر عبداللہ شاہ صاحب بہت نمایاں ہیں، اپنی پرائیویٹ پریکٹیس کرتے ہیں، انتہائی نفیس، وضعدار اور باکردار شخص ہیں، وہ میری پسند سے بخوبی واقف ہیں اس لیے ہر سال اسی نوع کے آم بھجواتے ہیں، انھوں نے بھی آج تک کبھی کوئی کام نہیں کہا۔ ان کے بیٹے کی شادی میں شامل نہ ہونے کا مجھے خود بہت افسوس ہے۔
مجھے آموں کا تحفہ (ایک بڑی کھیپ) ڈاکٹر نجف مرزا کی طرف سے بھی آتا ہے، نجف میرے لیے بھائیوں کی طرح ہے۔ کئی سال پہلے جب میں لاہور پولیس کا سربراہ تھا تو نجف میرے ساتھ ایس ایس پی ایڈمن تھا(اب وہ ماشاء اللہ ایڈیشنل آئی جی ہے) برسوں پہلے چند مہینے کا ساتھ ہمیشہ کے تعلّق میں بدل گیاہے۔
وہ ایک پاکیزہ کردار اور اعلیٰ پائے کا انسان، اور ایک دیانتدار، بااصول اور بہادر پولیس افسر ہے، متقّی اسقدر کہ اس پر رشک آتا ہے، وہ بلاشبہ اُن پولیس افسروں میں سے ہے جن پر پولیس سروس فخر کر سکتی ہے۔ نوابشاہ میں نجف کے خوبصورت فارم ہاؤس پر کئی بار جا کے کئی راتیں گزار چکا ہوں، فارم ہاؤس پر سردیوں میں رات کو آگ کی انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر گپ شپ، علی الصبح باغ کی سیر اور پھرخالص مکھن، خالص شہد اور دیسی انڈوں کا ناشتہ ایسی ٹریٹ ہے جو بھلائی نہیں جا سکتی۔
بشیر میمن ایک اور زبردست افسر ہیں ان کے باغات سے بھی ہر سال آم آتے ہیں، بشیر میمن بھی بھائیوں کی طرح ہے۔ بڑازمیندار ہے مگر بڑا باضمیر، ایماندار، باکردار بلکہ پرھیزگار، پکاّ نمازی، سال میں کئی بار عمرے کرنیوالا، زیرک، سمجھدار، فراخد ل اور بہادر افسراورانتہائی مخلص اور محبت کرنیوالا انسان ہے۔ جس سے ایک بار مل لے اس کے دل میں اترجا تاہے۔ چند روز پہلے تک ایف آئی اے کا سرابراہ تھا، وزیراعظم کے غیر قانونی احکام نہ ماننے پر حکومت سے اختلاف ہو گیا اور اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اُس جیسے زیرک اور وضعدار افسر بہت کم دیکھے ہیں۔
1992 میں مَیں ضلع رحیم یار خان پولیس کا سربراہ تھا تو اُسوقت وہاں پر مخدوم احمد محمود (سابق گورنر پنجاب ) اور جعفر اقبال گجر (سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی)کا طوطی بولتا تھا۔ معروف کاروباری شخصیّت چوہدری محمد منیر نے ابھی نمایاں حیثیّت حاصل نہیں کی تھی، اُن کے والد صاحب ایس ایس پی آفس ملنے آیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اپنی محنت اور ترقی کی داستان سنایا کرتے تھے۔
منیر صاحب جب کبھی رحیم یار خان آتے تو ملنے ضرور آتے، ایک خوش اخلاق، خوش اطوار، خوش لباس، نوجوان کے طور پر انھیں سرکاری حلقوں میں عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا۔ وہاں سے تبدیل ہوئے کئی سال ہوچکے مگر انھوں نے اپنے فارم کے آم(جو اعلیٰ ترین کوالٹی اور بہترین پیکنگ میں ہوتے ہیں ) بھیجنے کی روایت قائم رکھی ہے۔ بیچ میں ناغہ ہوا تو ایک بار کسی تقریب میں مل گئے جہاں میں نے کہہ دیا "چوہدری صاحب لگتا ہے آپ افسروں کے پوسٹنگ آڈر دیکھ کر آم بھیجتے ہیں "۔ وہ سمجھ گئے اور اس کے بعد کبھی ناغہ نہیں ہوا۔
میر ے بھائی ڈاکٹر نثار احمد صاحب (جو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے طور پر ریٹائر ہوئے اور اب وزیرآباد سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں )کے کلاس فیلواور دوست ڈاکٹر ظفر تنویر صاحب ایک دبنگ شخص اور ڈاکٹروں کے جیّد لیڈر ہیں وہ سیالکوٹ میں پریکٹس کے ساتھ ساتھ زمیندارا بھی کرتے ہیں وہ بھی ہر سال اپنے باغ کی الیچی بھجواتے ہیں۔
کنّوکا سیزن بھی اچھا جارہا ہے، والدصاحب نے اپنے علاقے میں کنّو اگانے کی ابتداء کی تھی، کئی سال تک ہماراباغ سرگودھاکا مقابلہ کرتا رہامگرپھر زمین نے ساتھ نہ دیا اور اور پودے سوکھنے لگے، تو ہمیں چاول اور دانہء گندم کی جانب لَوٹنا پڑا مگر میرے کلاس فیلوز اور دوست میری کنّو پسندی سے واقف ہیں اس لیے سرگودھا اور بھلوال کے دوستوں اور عزیزوں کی جانب سے کنّو کی ترسیل بھی جاری وساری رہتی ہے۔ کالج کے دوستوں میں جمیل افضل چیمہ، ارشد محمود میلہ، ظفرعبّاس لک اور چوہدری افتخار (امریکا میں معروف پاکستانی ڈاکٹر نثار چوہدری صاحب کے بھائی ) کی طرف سے کنّو کا تحفہ باقاعدگی سے موصول ہوتا ہے۔
ارشد میلہ بھلوال کے بڑے زمیندار ہیں، جمیل افضل چیمہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔ رزقِ حلال سے بچو ں کی پرورش وتربیّت کی ہے تو خالق ومالک نے قابل اولاد کی صورت میں صلہ دیاہے، ایک بیٹا فارن سروس میں ہے اور بیٹی ڈی ایم جی میں ہے۔ سابق آئی جی مَہرصاحب بھی ہمیشہ کنّو بھجواتے ہیں، کنّو بھیجنے والوں میں خُرمّ شہزاد(جوایک ایماندار اور قابل سول سرونٹ ہے) اور چوہدری شجاعت علی بھی شامل ہیں۔ چوہدری شجاعت صاحب بڑے لائق سول سرونٹ ہیں، سی ایس ایس کے امتحا ن میں ملک بھر میں اوّل آئے تھے۔
فیڈرل سیکریٹری کے طورپر ریٹائر ہوئے اور اب ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے علاوہ بھلوال کے ایک پروگریسو زمیندار ہیں۔ وہ میرے اسوقت کے دوست ہیں جب میں مانسہرہ کے ایک خوبصورت پہاڑی قصبے اوگی میں تعینّات تھا اور وہ مانسہرہ میں زیرِ تربیّت تھے۔ میر ی دعاہے کہ میرے ان مہربانوں اور وضعدار انسانوں کے باغات خوب پھلیں پھولیں اوربرگ وبار سے لد ے رہیں تاکہ ان کی کنّو پروری جاری رہے اور میرے بہار کے دن اچھے گذرتے رہیں۔