خدا کے احکامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات کے نزدیک یہ دنیا تخلیق کرنے کا مقصد انسانوں کا ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا تھا جہاں ہر طرف انصاف کی خوشبو سے معطرہوائیں چل رہی ہوں اورعدل کے چشمے بہہ رہے ہوں۔
کمزور پر غلبہ اوراس کی جائیداد اور وسائل پر قبضہ کرلینا انسان کی جبلت ہے، آج بھی طاقتور ممالک اسی فطرت کامظاہرہ کررہے ہیں، لہٰذا انصاف کا تصور انسانی ذہن کی تخلیق نہیں ہے، انسانیت کو یہ تحفہ انسانوں سے نہیں آسمانوں سے ملاہے۔
انصاف کیسے ہو؟ اس کا معیار خالق نے خود مقرر کر دیا ہے۔ فرمایا، "انصاف کرو چاہے اس کی زد تمہارے عزیز و اقارب پر، تمہارے والدین پریا تمہاری اپنی ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو"۔ یعنی چاہے ایک فریق تمہارا قریب ترین عزیز یا دوست ہو، اور انصاف کرنے سے سے وہ ناراض ہوجائے مگراس کی پر واہ نہ کرو۔ انصاف پر مبنی فیصلہ تمہارے والدین کے خلاف جاتا ہو تو بھی کر جاؤ اور اگر فیصلہ خود تمہارے کسی معاشی یا سیاسی مفاد کے خلاف ہو تو بھی وہ نقصان برداشت کرلو مگر انصاف کا دامن نہ چھوڑو۔
انسانی فطرت سے اس کے خالق سے زیادہ کون واقف ہوسکتا ہے، خالق ومالک جانتا تھا کہ دشمنی میں انسان آخری حدتک چلے جاتے ہیں، غصے اور انتقام میں اندھے ہو جاتے ہیں اور اُسوقت ان کے لیے میزانِ عدل کا توازن قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس خاص کیفیت کے لیے خصوصی طور پر احکامات جاری کیے گئے کہ کسی کی دشمنی تمہیں انصاف کی راہ سے دور نہ کر دے، ہر حال میں انصاف کرو۔ یعنی تمہارے فیصلے سے تمہارے دشمن کو فائدہ اور خود تمہیں نقصان پہنچتا ہوتو بھی انصاف ہی کرو، کہ جس عظیم ترین منصف کے سامنے بالآخر تم نے پیش ہونا ہے، اس کا یہی حکم اور یہی منشاء ہے۔
عدل اور انصاف کی اہمیت کے پیشِ نظر اسلامی سلطنت میں highest paidعہدہ قاضی کا ہی ہوتا تھا۔ اس لیے کہ اسلام کا منشاء یہ تھا کہ منصبِ قضاء پر فائز ہونے والوں کی تنخواہ اور مراعات اتنی زیادہ رکھی جائیں کہ وہ ہر قسم کی دنیاوی ضروریات سے بے نیاز ہو کراپنے عظیم منصب کے تقاضے کماحقہ، پورے کرسکیں۔
آج سے چند سال قبل میں ایک وفاقی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ایک اعلیٰ سطح میٹنگ میں شریک تھا، تو پرائم منسٹر نے لاء سیکریٹری سے پوچھا کہ "اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو کتنی پینشن ملتی ہے؟ " انھوں نے جواب دیاکہ مہینے کے کوئی آٹھ لاکھ روپے، اس کے علاوہ بجلی گیس وغیرہ فری ہے اور گارڈز کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس پر سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ شرکاء میں سے زیادہ تر حضرات کہنے لگے، کہ " ایک غریب ملک میں ایسی مراعات زیادہ لگتی ہیں۔"
اس پر میں نے پرائم منسٹر صاحب سے اجازت لے کر کہا، سر!ہر مہذب ملک میں جج صاحبان کو تمام سرکاری ملازمین سے زیادہ تنخواہ اور مراعات کا حقدار اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ قوم نے انھیں سب سے اہم اور سب سے مشکل ذمے داری سونپی ہے یعنی انصاف کو یقینی بنانا، شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا اور آئین کی پاسداری کرنا، ایک دو شرکاء پھر بولے کہ کیا یہ ذمے داریاں پوری ہو رہی ہیں؟ میں نے کہا، "امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اپنی یہ ذمے داری ضرور پوری کریں گے "۔
ایک وزیر صاحب نے میرے حُسنِ ظن سے اختلاف کرتے ہوئے کہا "آپ کا چونکہ جوڈیشل فیمیلی سے تعلق ہے اس لیے آپ ہمیشہ عدلیہ کا دفاع کرتے ہیں " بہرحال میں چاہے لاکھ دفاع کروں لیکن جب بھی آئین پامال ہوگا یا شہریوں کے حقوق روندے جائیں گے تو عوام اعلیٰ عدالتوں کی طرف دیکھیں گے اور ان کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جائینگے۔
انسانی حقوق کی پامالی کے ایک ایسے ہی کیس کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر سے سیکڑوں قارئین نے مجھ سے بارہا پوچھا ہے کہ کیا آج کے جدید دور میں کسی مہذب معاشرے میں اس نوعیّت کی زیادتی اور ناانصافی ممکن ہے؟
کیس کیا ہے اور victimکون ہے؟
یہ شخص ملک کی نیشنل اسمبلی کا ایک منتخب رکن اور سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کا صدر ہے، وہ اپوزیشن کا ایک متحرک رکن ہے اور حکومت کے وزیروں اور خود وزیر اعظم کو انھی کی زبان میں جواب دینے کی ہمت اور حوصلہ بھی رکھتا ہے، بس انھی "خامیوں "کی وجہ سے اس کے نام پر سرخ دائرہ لگ گیا، غالباً نیب کے پاس اسے گرفتار کرنے کے لیے کوئی مواد نہیں تھا۔ مگر صاحبِ اقتدار حاکم اسے نشانِ عبرت بنانے کے خواہشمند تھے۔
لہٰذاایک دن رانا ثناء اللہ کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے موٹر وے سے گرفتار کر لیاگیااور ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلادی گئی کہ اس کے قبضے سے 15کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ اس سے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر کامران خان نے اس واقعے یا "وقوعے " پر میری رائے پوچھی تو میں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ کیس سراسر جھوٹا لگتا ہے اور اپوزیشن کے اہم رہنما کو سبق سکھانے کے لیے ہیروئن پلانٹ کی گئی ہے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ راناثناء اللہ نے آپکو گوجرانوالہ سے ٹرانسفر کرا دیا تھا، وہ آپکو فیصل آباد میں بھی برداشت نہ کرسکا، آپ پھر بھی اس کی حمایت کررہے ہیں۔ میں نے کہا "یہ تو کیس کے جھوٹا ہونے کا بین ثبوت ہے کہ میں بھی اس کے خلاف ہیروئن کے کیس کو صریحاً غلط سمجھتا ہوں۔ میں چند روز فیصل آباد بھی تعینات رہا ہوں، وہاں میرے بیشمار جونیئر اور شاگرد تعینات رہے ہیں، راناثناء اللہ کے مقامی مخالفین بھی اُس پر منشیات میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگاتے۔ دوسرا یہ کہ جواہم لوگ منشیات کا دھندہ کرتے ہیں، ان کے بیسیوں کا رندے اور کیریئر ہوتے ہیں، وہ ہیروئن کے بریف کیس خود کیری نہیں کرتے، جب کہ انھیں یہ بھی معلوم ہو حکومت ان کے خلاف ہے اور حکومتی کارندے انھیں پکڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔
پھر یہ کہ اس ریڈ میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو پکڑنے والے اس کی ویڈیو بناتے اور اسے ٹی وی چینلوں پر مسلسل چلاتے رہتے۔ اس کے بعد گرفتار کرنے والوں کے دعوے کو موٹروے کے ٹول پلازوں پر لگے کیمروں نے بھی غلط ثابت کردیا۔
مگر کیا ان حقائق سے victimکو ریلیف ملا؟ کیا پارلیمنٹ کے ایک معزز رکن کے خلاف جھوٹا کیس ختم ہوگیا؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور رکنِ پارلیمنٹ کو آٹھ مہینے جیل کاٹنا پڑی اور کیس اُسی طرح قائم ہے، اور وہ بھی اتنا سنگین کہ جسکی سزا موت ہے۔ اب ڈیڑھ سال بعد کی صورتِ حال یہ ہے کہ ایف آئی آر کے مندرجات کی کوئی قابلِ اعتبار گواہ تصدیق نہیں کرتا، پہلے دن دعوے کرنے والا وزیر اب اس کیس پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔
چند روز پہلے ایک ٹی وی اینکرنے خود وزیراعظم صاحب سے اس کے بارے میں سوال کیا تو ان کی بدن بولی واضح طور پر اعلان کر رہی تھی کہ انھیں کیس کے سچا ہونے کا یقین نہیں اور نہ ہی وہ اسے اون کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہی حال نارکوٹکس ڈویژن کے سینئر افسران کاہے، جنھیں کیس سے بالکل بے خبر رکھا گیا۔ کوئی بھی کیس کی صداقت پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
ہمارے بہت سے دوست اور عزیز(جن میں سے کئی خود وکیل ہیں)برطانیہ اور امریکا میں اس کیس کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان ملکوں میں جب ان کے کولیگ پوچھتے ہیں کہ تمہارا ملک آج بھی دسویں / گیارھویں صدی میں رہ رہا ہے جہاں آج بھی پارلیمنٹ کے ایک رکن پرہیروئن پلانٹ کر کے اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے، تو ہمارے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق Rule of Law میں پاکستان دنیا کے آخری چند ممالک کی صف میں پہنچ چکا ہے۔
اگر رکنِ پارلیمنٹ کو ایک جھوٹے کیس میں سزا ہوتی ہے توپوری دنیا میں ہمارے عدالتی نظام پر دھبہ لگے گااور ملک کا امیج متاثر ہوگا۔ وطنِ عزیز کا مذاق اڑانے اور اسے بدنام کرنے کے لیے ہمارے دشمنوں کے لیے صرف یہ ایک کیس ہی کافی ہوگا۔
آئینِ پاکستان میرے سامنے ہے اس کے آرٹیکلز 4، 10اور 25الزام الیہہ کو منصفانہ تفتیش کا حق دیتے ہیں، اعلیٰ عدالتوں کی نظیر یں بھی موجود ہیں کہ منشیات برآمد کرنے والے خود تفتیش نہیں کرسکتے۔ تفتیش کسی دوسری ایجنسی کے سپرد کی جانی چاہیے۔
پورے احترام کے ساتھ میری گزارش بھی ہے اور سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا فرض بھی ہے کہ وہ ایسا ظلم نہ ہونے دیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس کیس کی تفتیش اے این ایف سے لے کروزیراعظم کے اپنے لگائے ہوئے کے پی یا اسلام آباد کے آئی جی کو یا ایف آئی اے کے تین سینئر ترین افسروں کے سپرد کردیں۔
اور سب سے بڑی ذمے داری خود عمران خان صاحب کی ہے جوحاکمِ وقت ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف سے تہی معاشروں سے برکت اُٹھ جاتی ہے اور وہ نخوست اور بربادی کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ جو دو سالوں میں ملک کا ہر شعبہ ترقّی کے بجائے تنزّلی کا شکار ہوا ہے اس کی بڑی وجہ بھی کئی اﷲ والوں کے نزدیک ناانصافیاں اور زیادتیاں ہیں۔