Thursday, 19 September 2024
  1.  Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Harf e Shoq

Harf e Shoq

حرفِ شوق پڑھ رہا ہوں، اس لیے کہ علی گڑھ سے میری روحانی وابستگی ہے، سرسید احمد خان کی تعلیمی و سماجی خدمات سے آج بھی بہت متاثر ہوں، سرسید احمد خان یا علی گڑھ تحریک کے حوالے سے ہونے والے کام کو ضرور پڑھتا ہوں۔

کل ایک دوست جو رائٹ آئیڈیالوجی سے متاثر ہے، کے سامنے سرسید احمد کا ذکر کیا تو وہ سیخ پا ہوگیا۔ سرسید احمد خان کو کافر اعظم کہتے ہوئے مجھے دھمکی دی کہ اگر اس کے نظریات کا پرچار کرتے رہو گے تو ہماری طرف سے تم بھی مردود ٹھہرائے جاؤ گے۔

سوال یہ ہے کہ جس سر سید کو ہمارا مولوی دائرہ اسلام سے بھی خارج کر رہا ہے، وہ اس وقت کہاں تھا کہ جب ویلیم میور ہمارے آقا ﷺ کے خلاف بول رہا تھا، لکھ رہا تھا۔ تب واحد سر سید احمد خاں تھے جنھوں نے خطباتِ احمدیہ کے ذریعے ویلیم میور کی کتابوں کا جواب لکھا۔

جب ہمارا مولوی سر سید احمد خان پر کو گالیاں دینے میں مصروف تھا، تب سر سید احمد خان سماج سدھار میں ہمہ تن مصروف تھے، جب ہمارا فرسودہ ذہن، نظام کہنہ کہ تبلیغ میں مصروف تھا، سر سید احمد خان جدت و ندرت کی ترویج اور معاشرے کی تشکیلِ نو میں مصروف تھے۔

سر سید احمد خان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ ایک ذہین اور ہمہ جہت ہستی اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ جاتی ہے، اس کا کام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے سیاق و سباق کے ساتھ زیر بحث لایا جائے۔

برصغیر میں تعلیمی انقلاب لانے میں صرف اور صرف سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا، محمد علی جناح نے جو عمارت تعمیر کی، اس کی بنیادیں بھی سر سید احمد خان کی رکھی ہوئی ہیں، جناح ہو یا اقبال، یا پھر اکابرینِ تحریکِ پاکستان، سر سید احمد خان کو مسلمانوں کا محسن سمجھتے تھے، ایسے میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مفکرین کا سر سید سے اختلاف وہ بھی محض لفظی جگالی، ناقابلِ قبول ہے۔

سر سید احمد خان جنوبی ایشاء میں مشرقی علوم کے ذبردست ہامی تھے، وہ مغربی نظامِ فکر سے وابستہ رہ کر مشرقی علوم و فنون کا پرچار چاہتے تھے۔

دورہ انگلستان کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کو مردہ علوم کی درس گاہ بھی کہتے کیوں کہ وہ مشرقی نظام تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے تھے، اس بنیاد پر انھیں اختلاف اور گالم گلوچ کا بھی سامنا رہا مگر وہ اپنی دھن کے پکے تھے، جس کام کی ٹھان لی، اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، نعرے بازی اور لفظوں کی جگالی انہیں بالکل پسند نہیں تھی۔

سر سید احمد خان کے نظریات میں بہت تنوع تھا، وہ ضدی بالکل نہیں تھے، جہاں انھیں لگتا تھا کہ وہ غلط سمت کھڑے ہیں، فوری اپنی سمت درست کرتے اور جدیدیت کو قبول کرتے تھے، اس کی ایک مثال ان کا نظریہ مشرقی علوم ہے۔

سر سید احمد خان کو از سر نو دریافت کرنے کی ضرورت ہے، کم از کم مذہبی دانش گاہوں میں ان پر بات ہونی چاہیے اور ان کے کام کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔

ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا

حرفِ شوق ایک اہم کتاب ہے، علی گڑھ تحریک اور سر سید احمد خان کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔