ہماری زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دشمنوں کے ساتھ ساتھ بہروپیوں کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ کوئی آپ کا دشمن ہے، ممکن ہے آپ اس سے آسانی سے بچ نکلیں مگر بہروپیا آپ پر کہاں کہاں سے وار کرے گا، یہ آپ نہیں جان پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات آپ کو وہاں سے تیر لگتے ہیں، جہاں سے آپ کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو میرے عہد کے ہر دوسرے قلم کار، صحافی اور سوشل آدمی کو درپیش ہے، جس شخص نے بھی عمر سے زیادہ کام کیا یا جس نے بیساکھیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی محنت سے سروائیو کیا، میرے عہد نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان نام نہاد دوستوں یا بہروپیوں کا اصل مسئلہ کیا رہا ہے اوروہ کس بنیاد پر اختلاف کرتے رہے۔ ہم نے تو کامیاب اور متحرک لوگوں کے خلاف ایسے لوگوں کو بھی باتیں بناتے دیکھا جو پوری زندگی خود توایک لفظ نہ لکھ سکے، کسی کے لکھے پر شیخیاں بگھارتے رہے مگر پراپیگنڈا کرنے، کامیاب لوگوں کی زندگیوں پر کیچڑ اچھالنے اور آگے بڑھنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ وہ کوئی کام نہیں کر پائے۔
کسی کے پاس عہدہ تھا تو وہ اس کا فائدہ اٹھاتا رہا، کوئی کامیاب دوستوں کے کندھوں پر کھڑا ہو کر اپنا قد بڑا کرتا رہا، کوئی شاگرد نہ پال سکا تو ایک استاد پال لیا اور اس کے نام پر "قد آور"لکھاری بن گیا۔ میں کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں کہ اس منفی سرگرمی سے کیا حاصل ہوا؟ وقتی شہرت یا چند مشاعرے، بس؟ کیا زندگی کا یہی حاصل ہے؟ ہم ایسے بونے لوگ ہیں کہ جب کسی کے کام کو چیلنج نہیں کر سکتے تو اس کی ذات کے منفی پہلوئوں کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور یوں ایک ہارے ہوئے سپاہی کی طرح شور ڈالنے لگتے ہیں۔
ہم سب کو ایسے دوستوں کا سامنا رہا ہے جن کو آغاز میں میں نے بہروپیا کہا، ایسا کیوں ہوا، یہ ہم سب کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اتنے مجبور اور لاچار ہیں کہ ہم اپنی صفوں میں موجود، ان نالائقوں اور نکموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جنھوں نے ہماری جیبوں پہ بھی ڈاکہ ڈالا، ہماری محفلوں میں بیٹھ کر عزت و شہرت بھی پائی اور جب یہاں سے اٹھے تو کسی اور محفل میں ہمارے ہی شعروں اور تحریروں کا مذاق اڑاتے رہے، اور ستم تو یہ ہے کہ ہمارے خلاف وہ لوگ بولتے، لکھتے اور شور مچاتے رہے جن سے ہم زندگی میں نہ ملے نہ کبھی بات کی۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہمارے خلاف برسرِ پیکار رہے، جن کے نام تک سے ہم واقف نہیں تھے۔ مجھے پیارے دوست ندیم بھابھہ کا ایک شعر یاد آ گیا
ستم تو یہ ہے کہ میرے خلاف بولتے ہیں
وہ لوگ جن سے کبھی میں نے بات بھی نہیں کی
کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر کسی نے اس شعر کے پہلے مصرعے میں"بولتے" کی جگہ " بھونکتے" بھی لگایا۔ خیرکیسی عجیب بات ہے کہ آپ پر سنگ زنی کرنے والوں نے بھی آپ کے بارے میں صرف سنا ہوتاہے، آپ سے ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں رہاہوتا۔ ایسے ہی ایک واقعہ سناتا چلوں، کچھ روز قبل ایک سینئر شاعر سے زندگی میں پہلی بار ایک تقریب میں ملاقات ہوئی، تقریب کے بعد ہم کھانے پر بیٹھے اور تقریباً ایک گھنٹہ مختلف موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ جب وہ جانے لگے تو گلے ملتے ہوئے بولے "بھائی آپ کے بارے میں جو سنا، آپ تو اس سے بالکل برعکس نکلے"۔
میں نے بھی مزید کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی کیوں کہ مجھے علم ہے کہ ہم سب بغیر تحقیق کیے دوسروں کے بارے منفی یا مثبت رائے رکھنے میں ماہر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں بار ایسا ہو چکا، بلکہ گزشتہ دنوں ایک دوست کا فون آیا اور چند سینئرز پروفیسرز اور دانشوروں کا نام لے کر بتانے لگا کہ آپ کے بارے ان کی یہ رائے ہے، میں نے مسکرا کر انھیں دعا دی، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے خلاف بولنے والے یا لکھنے والے حقیقت میں ہمارا حوصلہ بڑھا رہے ہوتے ہیں، ہمیں ایسے عناصر کی متعصب اور شرپسند کارروائیوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ بادِ مخالف کا کام آپ کا راستہ روکنا ہوتا ہے، ہمت تو آپ کے پروں میں ہونی چاہیے کہ وہ بادِ مخالف کا مقابلہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہی شخص آپ کا راستہ روکے گا جو خود نکما ہوگا یا جسے آپ سے خطرہ ہوگا۔ ایسے لوگ جب آپ پر سامنے سے وار نہیں کر سکتے تو آپ سے محبت کرنے والوں اور آپ کے قریبی دوستوں کے کان بھرتے ہیں تاکہ کسی طرح سے آپ کو تنہا کر سکیں حالانکہ یہ بہروپیے اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ عزت اور ذلت تو خدا کے اختیار میں ہے۔ آپ کا منفی عمل، آپ کی تربیت کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کامیاب لوگوں کو عزت دینا شروع کر دیں، خدا اس کے بدلے آپ کو کامیاب کرے گا۔
ذاتیات اور شخصیات کو ڈسکس کرنے کی بجائے نظریات کو ڈسکس کرنا شروع کر دیں، خدا آپ کو پھل دار درخت بنا دے گا۔ کسی کی عزت و شہرت کو خاک میں ملاتے ملاتے، ہم خود خاک میں مل جاتے ہیں جس کا احساس ہمیں بہت دیر سے ہوتا ہے۔ راہ چلتے لوگوں پر آوازیں کسنے والے ایک دن اپنی آواز کھو دیتے ہیں اور راہ چلنے والے منزل پا جاتے ہیں لہٰذا ہمیں محنتی اور متحرک لوگوں کے لیے سگِ آوارہ کی بجائے ایک پھل دار شجر کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم کسی کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم ان کا راستہ روکنے کی بجائے، راستہ آسان تو کر سکتے ہیں۔
اس سے بڑی کیا سپورٹ ہو سکتی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے جائیں، سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے دوستوں کی مثبت باتوں کی تشہیر کریں اور ان کا ساتھ دیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں ہر حال میں ہوں گی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان سے کنارہ کریں یا ان کے منفی پہلوئوں کو ڈسکس کریں بلکہ بہتر یہ ہے کہ انھیں سمجھائیں، ان کے مثبت کام پر تھپکی دیں اور ان کے لیے راستہ ہموار کریں۔ سگِ آوارہ جیسے لوگ آوازیں کستے، ٹانگیں کھینچتے رہ جاتے ہیں اور منزل پانے والے منزل پا جاتے ہیں۔