Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Afghanistan Mein Paidaar Aman Kaise Hasil Ho

Afghanistan Mein Paidaar Aman Kaise Hasil Ho

29فروری 2020کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر دستخطوں کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ معاہدے پر عمل درآمد میں مشکلات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ اشرف غنی نے قیدیوں کے تبادلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر کے امن کے صورتحال میں تلاطم پیدا کر دیا ہے۔

قیدیوں کا تبادلہ معاہدے کی ایک شِق ہے۔ طالبان اس پر دوبارہ بات نہیں کریں گے۔ میں پہلے ایک کالم میں اس بات کی نشان دہی کر چکا ہوں کہ ستمبر 2019 کے افغان صدارتی انتخابات میں اگر اشرف غنی جیت جاتے ہیں تو وہی ان انتخابات سے فائدہ اُٹھانے والے واحد فرد ہوں گے۔ اشرف غنی کا افغانستان میں کوئی حلقہ، اثر نہیں، وہ صرف امریکا کے نامزد آدمی ہیں اور جب تک امریکا چاہے گا وہ منظرِ عام پر رہیں گے۔

امن اور اس کے نتیجے میں جمہوری افغانستان میں اشرف غنی کا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ ان کے لیے ایک نوکری کی طرح ہے جب تک چلتی ہے چلائیں گے ورنہ بوریا بستر لپیٹ لیں گے۔ طالبان امریکا معاہدے سے اگر امن قائم ہو جاتا ہے تو پہلی Casualtyاشرف غنی ہوں گے۔ باوثوق حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا نے اشرف غنی کو اپنی صدارتی حلف برداری ملتوی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امن کی صورت میں اشرف غنی کو اپنا کردار ختم ہوتے نظر آتا ہے۔

امن معاہدے سے بھارت کے اندر بھی سوگ کی کیفیت ہے۔ پچھلے19سال میں بھارت نے افغانستان کی انتظامیہ اور سرزمین کو پاکستان مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے موقع پر بھارت کی غیر موجودگی بھارتیوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ بھارت افغانستان میں اسٹیٹس کو جاری رکھنے کے لیے اشرف غنی کے ساتھ مل کر پانی گدلا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

بھارتی میڈیا امن معاہدے کو پاکستان کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہا ہے کیونکہ طالبان کی افغان حکومت میں کلیدی حیثیت میں موجودگی کا مطلب یہ ہو گاکہ کوئی بھی بشمول بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ بھارت پچھلے دس سال میں قریب قریب اکیس ارب بھارتی روپے کی افغانستان میں سرمایہ کاری investmentکر چکاہے۔ وہ ہر سال گیارہ مِیٹرک ٹن گندم افغان حکومت کو دے رہا ہے۔ اسی طرح بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کی ہے تاکہ وہ افغانستان میں اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سے جُڑ سکے۔ طالبان کی کامیابی سے بھارت کو اپنی یہ سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔

25دسمبر1979کو کرسمس کے دن پہلا روسی ٹینک افغانستان میں داخل ہوا۔ افغان مجاہدین اور روسی افواج کے مابین کم و بیش دس سالہ معرکہ ہوا۔ جنیوا معاہدے کے نتیجے میں 15فروری 1989کوروسی افوج افغانستان سے نکل گئیں۔ اکتوبر 2001میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اٹھارہ انیس سال جاری رہنے والی اس جنگ میں امریکا اور اس کی اتحادی نیٹو افواج کو خجالت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا تو آخری راستہ یہ نظر آیا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔

بالآخر مذاکرات کے نتیجے میں 29فروری کو افغانستان میں امن لانے کے لیے معاہدہ ہو گیا۔ امریکا میں ایک بہت بڑا طبقہ اس معاہدے کا مخالف ہے۔ گو مخالفین میں زیادہ تعداد ڈیموکریٹس کی ہے لیکن کُچھ ریپبلکن بھی اُن کے ہمنوا ہیں۔ سبھی مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ طالبان قابلِ اعتماد نہیں ہیں اور امن کی یہ بِیل منڈھے نہیں چڑھے گی شاید اسی صورتحال کے پیشِ نظر امریکی وزیرِ خارجہ پمپیو نے معاہدے کے موقع پر مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے ہم کن سے بات کر رہے ہیں۔ دوحہ میں امن معاہدے پر طالبان کی جانب سے سینئر رہنما ملا عبدالغنی برادر اور امریکا کی جانب سے افغان نژاد امریکی سفارت کار اور امریکی نمایندہء خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زادنے دستخط کیے۔ معاہدے کی تقریب میں پاکستان، ترکی، انڈونیشیا او ر ناروے کے وزیرِ خارجہ سمیت تقریباً پچاس ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی۔ طالبان کا وفد 31افراد پر مشتمل تھا۔ طالبان کی تین سال قید میں رہنے والے آسٹریلوی پروفیسر ٹموتھی بھی اس موقع پر موجود تھے، معاہدے پر دستخط کے موقع پر بات کرتے ہوئے ملا عبدالغنی برادر نے پاکستان کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔

امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو افغانستان میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آخر کار ہم امریکا کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کے قریب ہیں۔ ہم امریکی فوجیوں کو گھر واپس لا رہے ہیں۔ افغانستان میں تشدد میں کمی وقت کی ضرورت ہے۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ٹرمپ نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ وہ جلدی ہی طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ انھوں نے افغانستان کے پڑوسی مما لک پر زور دے کر کہا کہ وہ جنگ زدہ افغانستان میں پائیدار اور مستحکم امن کے لیے مددگار ہوں۔ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی کہ مختلف افغان دھڑوں میں مذاکرات کامیاب ہوں گے کیونکہ ہر کوئی جنگ سے تنگ ہے، افغان عوام اس نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امن کی جانب قدم بڑھائیں۔ افغان طالبان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ تمام دھڑوں کی مخلوط حکومت میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ اگلے ہفتے ناروے میں انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونے کی توقع ہے۔ صدر ٹرمپ اور ملا عبدالغنی برادر نے پینتیس منٹ تک ٹیلیفونک گفتگو کی ہے جو بہت خوش آیند ہے، ٹرمپ چونکہ کافی پریکٹیکل شخصیت ہیں زمینی حالات اُن کی نگاہ میں ہیں اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ حالات کو سنبھالا دیتے رہیں گے۔

افغانستان میں کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں، کوئی بھی ایسی سیاسی قدآور شخصیت نہیں جسے پان افغان حیثیت حاصل ہو، جس کا اثرو رسوخ تمام افغانستان پر یکساں ہو۔ لسانی بنیادوں پر سیاست کا غلغلہ عام ہے۔ پشتون افغانستان میں سب سے بڑی کیمونٹی ہیں جو کل آبادی کا بیالیس فیصد سے کچھ اوپر ہیں۔ 1800میں درانی ڈائی نسٹی قائم ہو جانے کے بعد سے 1978تک پشتون ہی ہمیشہ اقتدار میں رہے ہیں اور مرکزی حکومت کی باگ ڈور انھیں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ طالبان حکومت بھی اصل میں پشتون حکومت ہی تھی۔

اس وقت دقت یہ ہے کہ ایک طرف تو کسی پشتون کو شمالی افغانستان میں پذیرائی حاصل نہیں، دوسری طرف احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کی موت کے بعد کوئی ایسا ازبک، تاجک یا ہزارہ رہنما نہیں جو پشتونوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ ایسے میں کامیاب انٹرا افغان ڈائیلاگ اصل چیلنج ہیں، اشرف غنی نے پہلے ہی پانی گدلا کر دیا ہے لیکن وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سارا کچھ صدر ٹرمپ، اُن کی ٹیم اور طالبان قیادت پر منحصر ہے۔ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نہ مان کر بولڈ قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے پاس زیادہ سے زیادہ ستمبر تک کا وقت ہے جس میں وہ ری الیکشن کے لیے عوام کو امریکی فوج کی واپسی کا تحفہ دے کر اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ طالبان قیادت نے ابتک بہت میچورٹی سے صورتحال کو ہینڈل کیا ہے، امید ہے امریکا اور طالبان قیادت مشکلات پر قابو پا لیں گے۔ افغان امن پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے۔